کتاب “22 روزہ جنگ” کا تعارف

کتاب کا مقدمہ جنگ کے کلی پہلووں جیسے صہیونی حکومت کی جنایت و تعدی، صہیونی ظلم و جنایت کا بین الاقوامی انعکاس ،غزہ کی پائداری و مزاحمت اور مظلومیت وغیرہ کو بیان کر رہا ہے ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یہ کتاب ان نوشتہ جات کے مجموعہ پر مشتمل ہے جو اسرائیل کی غزہ پر ۲۲ روزہ جارحیت کے سلسلہ سے لکھے گئے مضامین و مقالات کی شکل میں اکھٹا کئے گئے ہیں، کتاب کا مقدمہ جنگ کے کلی پہلووں جیسے صہیونی حکومت کی جنایت و تعدی، صہیونی ظلم و جنایت کا بین الاقوامی انعکاس ،غزہ کی پائداری و مزاحمت اور مظلومیت وغیرہ کو بیان کر رہا ہے ۔
ان مقالات کی کل تعداد ۱۶ عدد ہے جو اولویت و ترتیب کے اعتبار سے اس جنگ کے مختلف پہلووں کو بیان کر رہے ہیں ،” جنگ کی گونج اور اسکی شہرت” نامی مقالے میں اسرائیل کی بہانہ تراشیوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جس میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملے کا بہانا یہ پیش کیا گیا کہ: “ہم دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے دہشت گردوں پر حملہ کر رہے ہیں” اور اس بہانے کے تحت غزہ کے بے دفاع و مظلوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ، اسکے بعد کے دوسرے مقالے میں اسرائیل کے جنگی جرائم و اسکی جنایتوں کے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پیش کئے جانے اور لوگوں کے اس سلسلہ سے سیاسی رد عمل اور ان خبروں کے بارے میں اظہار رائے کو بیان کیا گیا ہے ۔
اسکے بعد کے حصے میں اوبامہ و بش کے فسلطین کے و غزہ کے سلسلہ سے موقف کو بیا ن کیا گیا ہے کہ فلسطین و غزہ کے سلسلہ سے انکا موقف کیا تھا اور اسی ضمن میں یہ بھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مشرق وسطی کی صلح و امنیت کے بارے میں اوبامہ کا وعدہ ایک دعوے کے سوا کچھ نہیں تھا جسکا کوئی بھی نتیجہ حاصل نہ ہو سکا ، ۔
ایک اور مقالے “اسرائیل میں حقیقت سے جدائی و علیحدگی ایک فطری و طبیعی امر ہے ” میں اسرائیل کی صبرا و شتیلا میں جنایت و بربریت کے ساتھ ۲۲ دن کی جنگ کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس علاقے میں میڈیا پر صہیونی حکومت کی پابندیوں کو بیان کیا گیا ہے ۔ آگے چل کر امریکہ میں خبروں کے سینسر کئے جانے اور امریکہ کے بلند پایہ اہلکاروں کی جانب سے فلسطیینوں کے خلاف اختیار کئے جانے والے موقف کو بیان کرتے ہوئے امریکہ میں یہودیوں کے نفوذ و رسوخ اور امریکہ و اسرائیل کے ما بین اچھے تعلقات کو پیش کیا گیا ہے ، اور بعد کے حصہ میں ایک اسرائیلی تجزیہ کار “انتھنی کرڈزمن” کے ایک مقالے پر تبصرہ وتنقید کی گئی ہے جو کہ ۲۲ روزہ جنگ کے سلسلہ سے لکھا گیا تھا ۔دو اپارتھائیڈ[۱] ملکوں کی حکایت ، پاول ڈآماٹو کے ذریعہ لکھے جانے والے مقالے کا عنوان ہے جس میں دو ملکوں کے سربراہوں کی ملاقاتوں کی کیفیت و اسکے مراحل ، ملاقات کا پس منظر اور اسکے نتائج کا تجزیہ کیا گیا ہے ، اسکے بعد کے مقالہ میں جسے نیکلانسر نے لکھا ہے اسرائیل کو اس جنگ کے شروع کرنے والے ملک کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح اسرائیل جھوٹ کو پھیلاتا ہے اور یورپین سیاست مداروں نیز امریکی ساست دانوں کے اسرائیل کے حق میں اختیار کئے جانے والے موقف کو بیان کیا گیا ہے ۔نوام چامسکی[۲] نے بھی اپنے مقالے میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مڈ بھیڑ کے بارے میں اوبامہ کے نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے مشرق وسطی کی صلح کی پیش کش کو فلسطینی عوام کے حق میں ایک خیانت کے طور پر بیان کیا ہے ، بی بی سی کے لئے شرمناک دن ، ایک ایسا مقالہ ہے جس میں بی بی سی نیٹ ورک کی جانب سے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے غزہ کی عوام کے لئے بھیجی جانے والی رسد وامدادکی ممانعت کے موضوع کو چھیڑا گیا ہے جو کہ برطانیہ میں درونی اور بیرونی طور پر اعترض کا سبب بنا ۔
اسکے بعد کے دو مقالوں میں فلسطین پر قبضے کی تاریخ ، جنگی جرائم و جنایت کے تحت اسرائیل کی اسٹراٹیجی کو پیش کیا گیا ہے ، “غزہ میں حمام خون کے پیچھے ” نامی مقالہ میں مصنف نے ۲۲ روزہ جنگ کو اس دور میں اسرائیل کی داخلی فضا،یعنی قریب الوقوع انتخابات سے ملا کر دیکھا ہے نیز ۳۳ روزہ لبنان کی جنگ اور اسی طرح کے دیگر موارد سے جوڑ کر بیان کیا ہے ۔ اور آخر میں یوسف بیکر نے اسرائیل کے نئے ہدف کے تحت لکھے جانے والے مقالے میں ۲۲ روزہ جنگ کے سلسلہ سے اس جنگ کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسرائیل کی اسٹراٹیجی کی تشریح کی ہے ۔

حواشی :
[۱] ۔ اپارتھائیڈ Apartheidجنوبی افریقا میں ایک سیاسی نظام تھا جو بیسویں صدی میں ۱۹۴۰ء سے ۱۹۸۰ء تک لاگو رہا۔ اس نظام میں، جنوبی افریقہ کے لوگوں کو نسلی اعتبار سے تقسیم کیا گیا تھا ۔ Bartusis, Mark (2012). Gomez, Edmund; Premdas, Ralph, eds. Affirmative Action, Ethnicity and Conflict. New York: Routledge Books. pp. 126–۱۳۲٫ ISBN 978-0415627689.

[۲] ۔ اَورام ناؤم چومسکی (عبرانی: אברם נועם חומסקי) Noam Chomsky (7 دسمبر ۱۹۲۸) ایک یہودی امریکی ماہر لسانیات، فلسفی، مؤرخ، سیاسی مصنف اور لیکچرر ہیں۔ ان کے نام کا اولین حصہ اَورام دراصل ابراہیم کا عبرانی متبادل ہے۔ انکی شناخت مشہور زمانہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شعبہ لسانیات میں پروفیسرکی حیثیت سے ہے ۔