کرائے کے فوجی اور صیہونی جارحیت

فاران: حالیہ برسوں میں جنگوں میں غیر ملکی کرائے کے فوجیوں کا استعمال کرنا اگرچہ ایک عام سی بات بن گئی ہے، لیکن اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے یہ بات شاید حیران کن ہوگی کہ دنیا میں چوتھی یا پانچویں مضبوط ملٹری فورس کا دعویٰ کرنے والی صیہونی حکومت حالیہ جنگ میں باہر کے فوجیوں […]

فاران: حالیہ برسوں میں جنگوں میں غیر ملکی کرائے کے فوجیوں کا استعمال کرنا اگرچہ ایک عام سی بات بن گئی ہے، لیکن اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے یہ بات شاید حیران کن ہوگی کہ دنیا میں چوتھی یا پانچویں مضبوط ملٹری فورس کا دعویٰ کرنے والی صیہونی حکومت حالیہ جنگ میں باہر کے فوجیوں کو استعمال کر رہی ہے۔ غزہ کی جنگ میں فلسطینی گروہوں نے بھی صہیونی فوج کی طرف سے کرائے کے فوجیوں کے وسیع استعمال کی اطلاع دی ہے۔ اس سلسلے میں حماس کی عسکری شاخ عزالدین القسام بریگیڈز کے ترجمان “ابو عبیدہ” نے صیہونی دشمن کے خلاف مزاحمت کی کامیابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی حکومت غزہ کی جنگ میں غیر ملکی کرائے کے فوجیوں کو استعمال کر رہی ہے۔

صہیونی فوج میں کرائے کے فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں ابو عبیدہ کے بیانات کو بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے بے نقاب کیا ہے۔ اس حوالے سے ہسپانوی اخبار “ایل منڈو” کی 15 نومبر کی اشاعت میں “Pedro Diaz Flores” نامی ایک سابق ہسپانوی افسر نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ اسے بڑی رقم کے عوض صہیونی فوج کی صفوں میں بھرتی کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق فلورس نے کہا، “میں پیسوں کے لیے آیا ہوں، وہ اچھی ادائیگی کرتے ہیں، وہ اچھا سامان فراہم کرتے ہیں، کام پرسکون ہے اور ہفتہ وار تنخواہ 3,900 یورو ہے۔” فلورس نے کہا: “ہم صرف مسلح قافلوں یا غزہ کی پٹی میں موجود اسرائیلی مسلح افواج کی ٹیموں کو سکیورٹی سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ ہم حماس کے ساتھ براہ راست لڑتے نہیں ہیں اور ہم جارحانہ کارروائیوں میں حصہ بھی نہیں لیتے ہیں۔” اس نے بتایا کہ اسے ایک نجی ملٹری کمپنی کے ذریعے بھرتی کیا گیا تھا، جو اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہے۔

خلیج آن لائن کے مطابق جنگ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 800 سے 1000 کے درمیان غیر ملکی رضاکار، یعنی غیر اسرائیلی شہری، اس حکومت کی فوج میں شامل ہوتے ہیں۔ صہیونی افواج کی صفوں میں مجموعی طور پر 4,600 غیر ملکی رضاکار موجود ہیں، اس کے علاوہ دنیا بھر سے دوہری شہریت رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد باقاعدہ یا ریزرو سروس میں موجود ہے۔ موصولہ رپورٹوں کے مطابق یورپ میں دائیں بازو کے یہودی اور عیسائی گروہوں سے براہ راست منسلک صیہونی تنظیمیں مبینہ طور پر یورپیوں کو قابض فوج میں شامل ہونے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کی کارروائیوں کی حمایت کے لیے مہمات میں شامل ہونے کے لیے منصوبے اور وسائل و امکانات کا اہتمام کر رہی ہیں۔

اسرائیل ان غیر ملکی جنگجوؤں اور کرائے کے فوجیوں سے معاہدہ کرنے کے لیے نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز، بالخصوص گلوبل CST پر انحصار کرتا ہے۔ اس کمپنی کے لیے کام کرنے والے کرائے کے فوجیوں پر لاطینی امریکہ، جنوبی ایشیا اور افریقہ کے تنازعات میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے کا الزام ہے۔ بعض ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج میں کرائے کے فوجیوں کی بھرتی میں اس انداز سے اضافہ ہو رہا ہے کہ یوکرین کی حکومت کو خوف ہے کہ اس ملک میں کرائے کے فوجی مزید رقم کے عوض صہیونی فوج میں شامل ہو جائیں گے۔

خلیج آن لائن کے ساتھ بات چیت میں ایک عسکری تجزیہ کار اسماعیل ایوب نے کہا، “اگرچہ اسرائیلی فوج میں کرائے کے فوجیوں کی بھرتی کے بارے میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہے، لیکن خبریں اس کی تصدیق کرتی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قابض حکومت غیر یہودیوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کرائے کے فوجی اور جنگجو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ایوب نے زور دے کر کہا، “غزہ میں بہت سے فوجی ہلاکتوں کا تعلق مقبوضہ فلسطین میں دروز عرب کمیونٹی سے ہے، جہاں اسرائیلی حکومت یہودی نوجوانوں کی حفاظت کے لیے ان غیر یہودی عناصر کو فرنٹ لائن پر لے جاتی ہے۔”

“واشنگٹن پوسٹ” اخبار نے رواں ماہ کے اوائل میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ تقریباً 10 ہزار امریکی یہودی صہیونی فوج کی مدد کے لیے مقبوضہ علاقوں کا سفر کرچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان یہودیوں نے یہ کام صیہونی لابی کی درخواست پر اور امریکہ میں بہتر خدمات حاصل کرنے کے لیے کیا ہے۔دنیا بھر سے کرائے کے فوجیوں کی بھرتی ایک ایسی صورت حال میں ہے، جب تل ابیب کے حکام ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے طاقتور فوج ہے اور وہ مقبوضہ علاقوں کے خلاف کسی بھی خطرے کو ختم کرسکتی ہے۔ مقبوضہ علاقوں کے مکینوں میں صیہونی فوج کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ان کوتاہیوں کی تلافی کے لیے وہ غیر ملکی کرائے کے فوجیوں کی فوج کو بھرتی کرتے ہیں۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے رہنماء انسانی وسائل کی اس وسیع کمی اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نفسیاتی، سیاسی اور سماجی نتائج کے خوف سے نیز تارکین وطن کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی وجہ سے اس کارروائی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غیر ملکی کرائے کے فوجیوں کے حوالے سے ایک العربی ویب سائٹ نے اسرائیلی اکاؤنٹ سے عربی زبان میں باقاعدہ تصاویر کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے اب تک دو ہزار سے زائد کرائے کے فوجی مقبوضہ علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔

اس صارف اکاؤنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان افراد میں عرب اور اسلامی ممالک سے نئے آنے والے افراد بھی شامل ہیں اور وزارتِ امیگریشن کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ تعداد اسرائیل میں نئے آنے والوں کی اوسط تعداد سے زیادہ ہے، جو کہ ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس اکاؤنٹ میں امیگریشن کی وزارت کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ “بہت سے نئے آنے والے اسرائیلی فوج کی صفوں میں یا سول سروس کے لیے رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔” قابض فوج غیر ملکی کرائے کے فوجیوں کا سہارا لے رہی ہے، کیونکہ اس حکومت کے اپنے سپاہی غزہ کے مزاحمتی گروپوں کا مقابلہ کرنے سے بے حد خوفزدہ ہیں۔ انہیں حماس اور جہاد اسلامی سے ماضی میں لڑنے کا تجربہ ہے، اس لیے وہ سامنا کرنے کو تیار نہیں۔

دوسری طرف صیہونی میڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ کم از کم دو ہزار فوجیوں نے غزہ جنگ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ گذشتہ ہفتے صیہونی فوج کے ایک کمانڈر نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ میں جنوں اور بھوتوں سے لڑ رہے ہیں اور قابض فوج کی جاری کردہ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ وہ غزہ کے دروازوں، کھڑکیوں اور عمارتوں پر پاگلوں کی طرح اندھے حملے کرتے ہیں۔ صیہونی فوج نے اگرچہ غزہ کی پٹی پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، لیکن نیتن یاہو کی حکومت کو کرائے کے فوجیوں کی خدمات حاصل کرنے کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کے خلاف کئی محاذوں کا کھلنا بھی ہے۔ حزب اللہ، انصاراللہ اور دوسرے مزاحمتی گروہوں کی طرف سے جوں جوں خطرات بڑھیں گے، صیہونی حکومت کو مزید فوجی درکار ہونگے۔ صیہونی حکومت کب تک اپنے کرائے کے فوجیوں کے ساتھ مزاحمتی بلاک کے فوجیوں سے لڑ سکتی ہے، اس کا جواب صیہونی حکومت اور اس کے اتحادیوں کو اچھی طرح معلوم ہے۔