30 برس پہلے کے بالکل برعکس آج:

کوئی بھی صہیونی فوج کی عسکری قوت اور تسدیدی صلاحیت پر یقین نہیں آتا

صہیونی فوج کی جنگی صلاحیت حالیہ برسوں میں فلسطینی مقاومتی تنظیموں سے نمٹنے پر خرچ ہوچکی ہے، جبکہ مقاومتی محور کی ان طاقتور اور جنگی صلاحیتوں سے لیس تنظیموں اور ممالک نے ان برسوں کے دوران اسرائیل کے خلاف کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ہے؛

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

تقریبا کوئی بھی دن ایسا نہیں گذرتا کہ کوئی صہیونی اہلکار ایران پر حملے کی دھمکی کے بارے میں کچھ نہ بولے اور مقبوضہ فلسطین کی صورت حال یہ ہوئی ہے کہ یہاں کے رہنے والے غاصب یہودی نیز دوسرے ممالک کے سرکاری اہلکار اب ان دھمکیوں کو لطیفہ گوئی کا موضوع بناتے ہیں اور کوئی بھی ان دھمکیوں کو سنجیدہ نہیں لیا کرتا اور یہی صورت حال صہیونی ماہرین اور ابلاغیات کی رپورٹوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
ویب گاہ “اسرائیل ٹائمز”:
وقت گذرنے کے ساتھ پہلے سے زیادہ، آشکار ہو جاتا ہے کہ اسرائیل ایران کے مقابلے میں تسدیدی صلاحیت (Deterrent Capacity) کھو چکا ہے؛ جس کا بڑا ثبوت ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی کم از کم ڈیڑھ عشرے سے جاری صہیونی دھمکیاں اور اسی عرصے میں انہيں مقاومت کی طرف سے لگنے والی کاری ضربیں ہیں۔ لاف زنی کے عادی صہیونی اس عرصے میں اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو چکی ہے؛ ایران میں بھی شاید چوتھا عشرہ چل رہا ہے کہ اس کے عوام امریکہ اور صہیونی ریاست کی دھمکیوں سے فکرمند نہیں ہؤا کرتے؛ دنیا جانتی ہے کہ جب اسرائیل جیسی جنگ و نزاع پر قائم نسل پرست ریاست مسلسل دھمکیاں دیتی ہے اور دھمکیوں کو ایک منسوخ شدہ گھسی پٹی شیئے اور بے وقعت اوزار میں بدل دیتی ہے؛ تو اس سے اس ریاست کی کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ اور تسدیدی صلاحیت کے فقدان کا اظہار ہوتا ہے۔ جعلی ریاست نے ایٹمی صلاحیت کو مغربی ایشیا میں “اسرائیل کے خصوصی حق” کے طور پر متعارف کرایا تھا اور خطے کے کسی بھی عرب اور مسلم ملک کی طرف سے اس صلاحیت کے حصول کی کوشش کو خودساختہ “سرخ لکیر” عبور کرنے کے مترادف قرار دیا تھا اور اس نے شام اور عراق کی ایٹمی تنصیبات کو اسی صہیونی-سامراجی قاعدے کے تحت فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ وہی سرخ لکیر ہے جس کو کم از کم دو عشرے قبل اسلامی جمہوریہ ایران نے عبور کر لیا ہے۔ مگر جانے پہچانے لوگوں کی آنکھوں سے دور ڈینگیں مارنے والی صہیونی زبان بازیوں اور اقوام متحدہ میں مسخرہ پن کی نمائش کے سوا کچھ بھی کرنے سے عاجز رہے ہیں اور لاف زنیاں صرف اندرونی سیاسی مصارف کے لئے خرچ ہوتی رہی ہیں؛ لیکن موجودہ صورت حال ایسی ہے کہ اس طرح کے اقدامات حتی کہ اندرونی سیاسی مصرف والی افادیت بھی کھو چکے ہیں اور یہ ریاست شدید عدم استحکام کا شکار ہے یہاں تک کہ اسے حالیہ ساڑھے تین سال کے مختصر عرصے میں پانچویں پارلیمانی انتخابات کا اعلان کرنا پڑا ہے۔
بہرحال صہیونی ریاست کسی بھی وزیر اعظم کی قیادت میں، ایران کو اپنے سائنسی سفر سے روکنے میں ناکام رہی ہے، چھوٹی چھوٹی غیر مؤثر خفیہ دہشت گردانہ کاروائیاں صرف ایران کے عزم کو استوار کرتی رہی ہیں اور اسرائیلیوں کو بھی البتہ ان کاروائیوں کی قیمت چکانا پڑتی رہتی ہے۔
صہیونی فوجی اور سیکورٹی رپورٹر نیر ڈوری (Nir Dori)، کا کہنا ہے:
“اسرائیلی فوج نے حال ہی میں (‘آگ کے رتھ’ [Chariots of Fire] نامی) بڑی جنگی مشقوں کا اہتمام کیا، لیکن اسرائیل کے سیاسی حکام اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے اپنی فوج کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں رکھتے۔ یہ جنگی مشقیں نہ صرف بہت سارے سوالات کا جواب دینے سے عاجز رہیں بلکہ نئے سوالات اٹھنے کا سبب بن گئیں۔ اسرائیلی فوج کی منعقدہ جنگی مشقوں سے ایک بار پھر یہ سوال ابھرا کہ فوج کی منصوبہ بندی اور اس کے منصوبوں کے نفاذ کی صلاحیت، دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان کے درمیان وسیع فاصلہ اور بڑا شگاف حائل ہے”۔
صہیونی اخبار “اسرائیل ہیوم” نے لکھا:
“اسرائیلی فوج پر اندرونی بے اعتمادی” میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس مسئلے کے دلائل کے ایک بڑے حصے کا تعلق غاصب ریاست کی فوج کی کارکردگی سے ہے۔ اسرائیلی فوج طویل عرصے سے کسی جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے”۔
فوجی اور سیاسی امور کے ماہر یونی بن میناحیم (Yoni Ben-Menachem) کے خیالات:
“سپاہ پاسداران کے کمانڈر، ایران کی ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے اسرائیلی سیکورٹی حکام کی لاف زنیوں کو سنجیدہ نہیں لیا کرتے، ایرانی صہیونی حکام کی دھمکیوں کو بکواس (Bullshit) سمجھتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کہ یہ ایران کے خلاف صہیونی نفسیاتی جنگ شروع کرنے کی ناکام کوشش ہے”۔
سیاسی حکام اور مقبوضہ سرزمین کے اندرونی علاقوں کے باشندوں کے رد عمل کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں بھی کسی کو صہیونی افواج کی طاقت پر یقین نہيں آ رہا ہے اور صہیونی فوج اور سیکورٹی حکام کی دھمکیوں کو کوئی بھی سنجیدہ نہیں سمجھتا بلکہ ان دھمکیوں کا باقاعدہ مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایران کے خلاف ہونے والی باتوں کا کوئی عملی نتیجہ برآمد نہیں ہونے والا ہے۔ بطور مثال صہیونی ذرائع کی ایک رپورٹ کے ضمن میں بیان ہؤا ہے کہ “طویل عرصے سے ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے کی خبر [اڑانے والوں] نے اسرائیلی رائے عامہ کو لائق توجہ نہیں سمجھا ہے؛ کیونکہ اسرائیل میں عوامی بیداری بڑھ رہی ہے اور یہ تصور تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ یہ اسرائیلی فوج یہ خبریں بنیادی طور پر زیادہ سے زیادہ بجٹ حاصل کرنے کے لئے اڑاتی رہتی ہے؛ اور حقیقت یہ کہ یہ فوج ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتی؛ اور پھر موجودہ صورت حال میں یہ حملہ ویسے بھی ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ سب پر واضح ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن ایسے حملے کی حمایت نہیں کریں گے”۔
ایران کے خلاف اقدام، پورے خطے کو اسرائیل کے لئے جہنم بنا دے گا
صہیونی ریاست کے فوجی ڈاکٹرائن کی رو سے، اسرائیل کے دشمنوں کو خطرے کے تین بنیادی حلقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ خطرے کا پہلا حلقہ فلسطینی مقاومت کی تنظیموں اور تحریکوں – بشمول حماس اور جہاد اسلامی وغیرہ – پر مشتمل ہے؛ خطرے کا دوسرا حلقہ حزب اللہ لبنان، شام، یمن اور عراق پر جبکہ خطرے کا تیسرا حلقہ اسلامی جمہوریہ ایران پر مشتمل ہے۔
صہیونی ماہرین نے ایران کے خلاف معمول کے دعؤوں اور دھمکیوں کے ضمن میں زور دیا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ تینوں حلقوں کے خلاف جنگ ہے؛ اور انہیں یقین ہے کہ ایران پر براہ راست حملے کی صورت میں عارضی اسرائیلی ریاست کے خلاف جوابی کاروائیاں صرف ایران کی طرف سے نہیں ہونگی بلکہ اس ریاست کو اپنے آس پاس کے ممالک کی طرف سے آگ کے ایک وسیع دائرے اور فلسطین کے اندر بھی ایک عظیم شورش افراتفری کا سامنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ایران کے خلاف براہ راست فوجی کاروائی کی صورت میں صہیونیوں پر ہر طرف سے جہنم کے دروازے کھل جائیں گے۔
ہاں مگر جعلی ریاست کی بدقسمتی صرف ایران ہی کے حوالے سے نہیں پے بلکہ اسلامی مقاومت کے ممالک اور تحریکوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ی صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ کسی مقاومتی تحریک یا محور مقاومت کے کسی بھی رکن ملک کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی جرات کرے تو اسے مقاومت کے تمام حلقوں کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا؛ صہیونی تجزیہ کار کے اعترافات اس مدعا کا ثبوت ہیں؛ صہیونی خفیہ ادارے “آمان” ریسرچ یونٹ میں ایران ڈیسک کے سابق سربراہ ڈینی سٹرینووچ (Danny Citrinowicz) کہتا ہے:
“ایران پر حملہ کرنے کی کہانی صرف محفوظ جوہری مقامات کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت اور ایران کی طرف سے محض محدود جواب برداشت کرنے کا نام نہیں ہے۔ یہ درحقیقت ایک نہایت دشوار، طویل المدت اور شاید ایران اور محور مقاومت کے رکن ممالک اور تحریکوں اور تنظیموں کے مقابلے میں اسرائیل کے لئے ناقابل برداشت جنگ کا آغاز ہوگا جن کی طاقت میں حالیہ چند برسوں کے دوران نمایاں اضافہ ہؤا ہے”۔
ویب گاہ “اسرائیل ٹائمز” نے لکھا ہے:
محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت) کی فوجی تنظیمیں ایران کے دشمنوں کے لئے تزویری خطرے میں تبدیل ہوچکی ہیں؛ یہ تنظیمیں ایران کے دشمنوں کو ستاتی رہتی ہیں! ایران کو یقین ہے کہ ان تنظیموں کی طاقت و صلاحیت ایران کی اپنی تسدیدی صلاحیت کو بھی تقویت پہنچاتی ہے، کیونکہ ایران کے خلاف کوئی جنگ اس کی اپنی سرحدوں سے شروع نہیں ہوگی اور کسی بھی حملہ آور کو ابتدائی طور پر ایران کے گرد کی ایک طاقتور دفاعی پٹی – یعنی لبنان، شام، عراق اور یمن – سے گذرنا پڑے گا۔ چنانچہ کسی بھی دشمن کو ایران پر حملے سے باز رکھنے والی چیزوں میں سے ایک چیز “صرف ایران کی جوابی کاروائی” ہی نہیں ہے بلکہ ایران کے اتحادی ممالک اور تنظیموں کا جواب بھی کافی خطرناک ہو سکتا ہے”۔
بیگن-سادات مرکز برائے تزویراتی مطالعات (Begin-Sadat Center for Strategic Studies)
“لبنان کے خلاف اسرائیل کی دوسری جنگ آخری جنگ تھی جس میں اسرائیلی فوج ایک ہی محاذ پر اپنی قوت مرکوز کر سکتی تھی اور اسے ایک ہی فریق سے لڑنا پڑتا تھا، لیکن اگلی جنگ شاید ایک علاقائی جنگ ہو، خاص طور جب اس جنگ میں ہر طرف سے میزائلوں اور راکٹوں پر مشتمل “آتشین حلقے کے ذریعے اسرائیل کا محاصرہ کرنے” پر مبنی “قاسم سلیمانی ملٹری ڈاکٹرائن” کو بنیاد بنایا جائے۔ اس آتشی حلقے کی تشکیل میں “فلسطینی مقاومتی تنظیمیں، لبنان، شام، عراق، ایران اور یمن” بنیادی کردار ادا کریں گے”۔
صہیونی فوج کے ریزرو کرنل گابی سیبونی (Gabi Siboni) اور ریزرو بریگیڈیئر یوول بازاک (Yuval Bazak) کا کہنا ہے:
“لبنان کی جنگ اور غزہ میں کئی بار مڈبھیڑوں کے بعد اسرائیل خود کو روز بروز زیادہ سے زیادہ پیچیدہ اور طاقتور ہونے والے خطرات کے مقابلے میں، نقطۂ آغاز پر دیکھتا ہے! یہ کہ غزہ اور لبنان پر قبضے اور حماس اور حزب اللہ کی تمام فوجی قوتوں کی مکمل بیخ کنی کے لئے جنگ کا آغاز کیا جائے تو یہ جنگ قطعی طور شکست سے دوچار ہوگی اور حالات پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہونگے؛ ایران اسرائیل کے اطراف میں جو روایتی جنگی صلاحیتیں معرض وجود میں لائے گا، انہیں فعال کرکے اپنے تزویراتی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایرانی پوری طاقت سے اپنی متحدہ قوتوں کی گوریلا جنگی صلاحیتوں کو ترقی دے رہے ہیں۔ اسرائیل کو درپیش خطرات کے تیسرے حلقے (ایران) پر براہ راست حملے اور ان خطرات کے پہلے اور دوسرے حلقوں (حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ وغیرہ) کو نظر انداز کرنے کا منصوبہ یقیقی طور پر ایران کے مفاد میں ہے”۔
صہیونی فوج کی جنگی صلاحیت حالیہ برسوں میں فلسطینی مقاومتی تنظیموں سے نمٹنے پر خرچ ہوچکی ہے، جبکہ مقاومتی محور کی ان طاقتور اور جنگی صلاحیتوں سے لیس تنظیموں اور ممالک نے ان برسوں کے دوران اسرائیل کے خلاف کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ہے؛ ادھر اسرائیل فوج حالیہ برسوں میں فلسطینی مقاومت کے خلاف اپنی متعدد کاروائیوں میں کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے! صہیونی بخوبی جانتے ہیں کہ جب وہ فلسطین کی نسبتا چھوٹی اور کم صلاحیتوں کی حامل فلسطینی مقاومتی تحریکوں کے مقابلے میں بےبس اور زد پذیر ہیں، اور ان کے سامنے اپنی تسدیدی صلاحیت کھو چکے ہیں تو یقینا حزب اللہ، شام، عراق، یمن اور ایران کے خلاف بیک وقت لڑنے کے بارے میں بولنا ہی ایک مضحکہ خیز دعوے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔