ایام فاطمیہ (س) کے سلسلے کی دوسری مجلس عزا سے حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی کا خطاب
احکام دین کے مختلف پہلوو
حضرت فاطمہ زہرا(س) کا یہ خطبہ فدکیہ دین کا ایک مکمل نصاب اور جامع تصویر ہے اس خطبہ کا ایک اہم ترین موضوع فلسفہ احکام و فلسفہ دین ہے۔ فلسفہ احکام و دین سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے جتنے احکامات و دستورات صادر فرمائے ہیں ان کا مقصد بیان کرنا ہے۔ احکام کا ایک پہلو یہ ہے کہ پروردگار عالم نے انسان کو یہ رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی کے تمام امور میں کن حدود کی پابندی کرے۔ دوسرا پہلو ان احکام کے اندر یہ ہے کہ یہ احکام و دستورات کن دلائل سے ثابت ہوتے ہیں۔ قرآن کی کون سے آیت اور رسول اسلام (ص) و ائمہ اطہار(ع) کے کن اقوال سے یہ احکام ثابت ہوتے ہیں۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن و سنت سے جب یہ احکام مسلمہ طور پر ثابت ہو جاتے ہیں تو پھر یہ بیان کرنا ضروری ہوتا ہے کہ ان احکام کا مقصد کیا ہے؟ کیا صرف ثواب کمانا ہی بنیادی مقصد ہے؟ اگر یہ سارے احکام صرف ثواب کے لیے ہیں تو ان کا دنیوی زندگی سے تعلق ختم ہو جاتا ہے چونکہ ثواب اخروی دنیا میں ملنا ہے اس دنیا میں ان کا کوئی اجر نہیں ہے پھر دنیوی زندگی میں یہ احکام غیر مفید ہو جاتے ہیں۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے ان احکام کا نتیجہ آخرت میں ثواب کی شکل میں ضرور ملے گا لیکن دنیوی زندگی سے بھی ان کا گہرا تعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سارے احکام دنیوی زندگی کو منظم کرنے، اسے سنوارنے، پرثمر اور نتیجہ بخش بنانے کے لیے صادر کیے گئے ہیں۔ اگر دنیا میں ان احکام کا نتیجہ ہمیں نہ ملا تو یقینا آخرت میں اجر بھی نہیں ملے گا۔ چونکہ ایسا عمل ہم کر رہے ہیں جو دنیا میں بے فائدہ ہے۔ جبکہ اخروی نیتجہ دنیوی نتیجہ سے نکلتا ہے۔ الدنیا مزرعۃ الاخرہ۔
کیا احکام دین کا تعلق صرف اخروی زندگی سے ہے؟
جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے یہی پہلو واضح کیا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ دین کے احکام و دستورات اجر اخروی کے لیے ہیں بلکہ اسی دنیا کو منظم و مرتب کرنے کے لیے پروردگار عالم نے یہ احکام نازل فرمائے ہیں۔ ہر ایک عبادت اور حکم کا اسی دنیا میں مقصد ہے جسے ہم نے نظرانداز کر دیا ہے۔ ہمارا جو دین شناسی کا کورس اور نصاب ہے اس میں مقاصد احکام مکمل طور پر نظرانداز ہے۔ ہمیں اس نورانی خطبے سے فاطمی دین سیکھنا ہے کہ بی بی نے کس طرح دین کی تشریح کی ہے۔ آپ دنیا میں رائج دین اور جو منبروں سے بیان کیا جاتا ہے اسے پیش نظر رکھیں اور پھر اس خطبے کو پڑھیں تو واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمیں دین کو سمجھنے کے لیے فاطمی روش اور طریقہ اپنانا ہو گا۔
حضرت فاطمہ (س) کا درد کیا تھا؟
بی بی زہرا(س) کی شخصیت کے بارے میں بہت گفتگو ہے اہل بیت(ع) میں سب سے زیادہ جناب زہرا (س) سے متعلق گفتگو کی جاتی ہیں شیعوں کے ہاں بھی اور اہل سنت کے ہاں بھی سب سے زیادہ یہ موضوع زیر بحث رہتا ہے۔ جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہمارے دلوں میں امام حسین علیہ السلام کا غم ہے ہم امام حسین کے غم میں غمزدہ ہیں لیکن ایک غم ہمارے دلوں میں ہے اور ایک غم خود امام حسین کے دل میں ہے اور ان دونوں غموں میں کوئی اشتراک نہیں ہے۔ ہم کسی اور وجہ سے امام حسین (ع) کا غم اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کسی اور وجہ سے غمزدہ ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا غم وہ ہے جس نے آپ کو مدینہ چھوڑنے، قبر رسول اور قبر مادر گرامی چھوڑنے، مکہ اور خانہ کعبہ چھوڑنے اور انہیں کربلا جانے پر مجبور کیا وہ غم امام حسین کا غم ہے۔
بی بی زہرا(س) کا ھم و غم کیا ہے وہ اس خطبے کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ عام اور معمولی حالات میں بیان کیا گیا خطبہ نہیں ہے۔ بلکہ بہت ہی غیرمعمولی حالات میں یہ خطبہ بیان ہوا ہے یعنی بی بی ایک طرف رسول خدا (ص) کے فراق پر غمزدہ ہیں، دوسری طرف اپنے حق کے چھن جانے اور پھر امیر المومنین کے حق سے محروم ہونے پر شدید غمزدہ ہیں جناب سیدہ کو یہ تین بڑی تکلیفیں ہیں ۔ اور پھر گھریلوں مشکلات تو آپ کے سامنے ہیں بی بی کے گھر کوئی نوکرانی نہیں تھی روزانہ اپنے ہاتھوں سے چکی پیس کر روٹی بناتی تھیں اور چکی پیس پیس کر آپ کے ہاتھوں میں چھالے پڑ چکے تھے ہاتھ زخمی ہو چکے تھے۔
بی بی زہرا (س) کی کنیزوں کا کردار
آج بی بی زہرا (س) کی شہادت کی مجلس ہوتی ہے مجلس میں رونے والیوں، رولانے والیوں اور مجلسوں کا اہتمام کرنے والیوں کو اپنے گھروں کے کام خلاف شان نظر آتے ہیں۔ ہمارے کاموں کی بی بی زہرا(س) کے کاموں کے ساتھ مماثلت تو ہونا چاہیے تب ہم ان کے غم میں گریہ کریں، بی بی کے ساتھ مماثلت پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ہم فاطمی ھم و غم اپنے اندر پیدا کریں، بی بی اتنے غیرمعمولی حالات میں بھی لوگوں کو فلسفہ دین سمجھا رہی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دکھ سکھ ہر حالت میں دین کی تفہیم انسان کا مقصد ہونا چاہیے۔ چونکہ دین اہل بیت(ع) پر نازل ہوا ہے اور اہل بیت(ع) کی ذمہ داری ہے کہ ہر حالت میں دین سمجھائیں اور امت کی ذمہ داری ہے کہ ہر حالت میں اہل بیت سے دین لیں ورنہ دوسروں سے دین لے کر امت کس طرف جائے اس کا مشاہدہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
حج دین کے استحکام کا ذریعہ
اس خطبہ فدکیہ میں بی بی دو عالم نے ایک پیراگراف کے اندر دین کے جو عمدہ اور بنیادی احکام کا فلسفہ بیان کیا ہے اور اتنا مختصر اور جامع کہ گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ہماری گفتگو جس مقام پر جاری ہے وہ ہے حج کا فلسفہ۔ ’الحج تشییدا للدین‘ اللہ نے حج دین کے استحکام کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ اس جملے میں بی بی نے تین الفاظ استعمال کیے ہیں، حج، تشیید اور دین۔ اس فقرے میں جو مرکزی لفظ ہے وہ دین ہے گرچہ جملے میں وہ آخر میں آیا ہے لیکن ہمیں سب سے پہلے دین کو ہی سمجھنا ہو گا تب حج اور تشیید سمجھ میں آئے گا۔ اس لیے کہ مقصد، دین کی تشیید اور مضبوطی ہے اور مضبوطی کا ذریعہ حج ہے۔ لہذا بنیادی چیز دین ہے۔
دین کے معنی کیا ہیں؟
دین سب کے لیے مانوس لفظ ہے لیکن معنی کے لحاظ سے مبہم ہے۔ ابہام اس طریقے سے ہے کہ اگر آپ علما سے بھی پوچھیں کہ دین کے کیا معنی ہیں تو وہ کہیں گے دین کے ۷۰ معنی ہیں جب ۷۰ معنی ہیں تو پھر واضح ہے کہ دین کتنا مبہم ہے، قرآن اور احادیث میں دین سے کیا مراد ہے؟ ’مالک یوم الدین‘ میں کوئی کہتا ہے کہ دین سے مراد جزا ہے، کوئی کہتا ہے کہ مراد حساب ہے، کوئی کہتا ہے کہ قیامت ہے دین کے جب ستر معنی ہیں تو یہاں پر کون سے معنی مراد ہیں ہمیں نہیں معلوم، قرآن میں اکثر الفاظ کے ایسے ہی کئی کئی معنیٰ ہیں اور اللہ نے کون سے معنیٰ مراد لیے ہیں ہمیں نہیں معلوم، تو ایسے میں ہدایت کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ غلط بتایا جاتا ہے کہ ایک لفظ کے ستر معانی ہیں۔ ایک لفظ کا ایک ہی معنی ہوتا ہے لیکن ایک لفظ کو ستر معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ہر لفظ کا ایک ہی اصلی معنی ہوتا ہے باقی معانی میں اسے لوازمات اور تعلقات کی بنا پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جن افراد نے لغت بنائی ہے وہ کوئی عقل سے فارغ لوگ نہیں تھے کہ ایک لفظ کے لیے ستر ستر معانی بناتے رہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوں بیٹوں کے نام زید زید رکھ دے۔ کوئی عقلمند آدمی ایسا کام نہیں کرتا ہے۔ کوئی عام آدمی بھی ایسا نہیں کرتا ہے کہ دو بیٹوں کا ایک ہی نام رکھ دے۔ حتی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا نام رکھا جائے جو پورے خاندان یا گاؤں میں کسی کا نہ ہو۔ الفاظ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں الفاظ میں بھی ایسا ہی ہے ہر لفظ کو ایک خاص معنی کے لیے قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ایک لفظ دو معنی کے لیے رکھا گیا ہو تو یہ یہی کہا جائے گا کہ لغت بنانے والا کتنا بیوقوف ہے کہ اس نے ایک لفظ کے لیے دو معنی رکھ دئے، ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ اس لفظ سے کون سے معنی مراد ہیں۔ اہل عرب نے بھی یہ کام نہیں کیا اور غیر عرب نے بھی یہ کام نہیں کیا۔ لیکن ایک بات مسلّم ہے کہ ایک لفظ کئی معنی میں استعمال ضرور ہوتا ہے۔ استعمال ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اس کے معنیٰ ہیں بلکہ استعمال کا مطلب یہ ہے کہ اس معنی کا اس کے اصلی معنی سے کوئی تعلق اور رشتہ پایا جاتا ہے۔ لہذا ایک سے زیادہ معنی کے لیے الفاظ استعمال ضرور ہوتے ہیں لیکن ایک سے زیادہ معنی کے لیے الفاظ بنتے نہیں ہیں۔ لہذا دین کا صرف ایک ہی معنیٰ ہے باقی معنی جیسے جزا ہے حساب ہے اجر ہے قیامت ہے یہ سب اس اصلی معنیٰ سے تعلق کی بنا پر مراد لیے جا سکتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کو دین سکھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن خود اسے دین کے معنیٰ تک معلوم نہیں ہوتے۔ دین کے معنیٰ جاننے کے لیے آپ لغت کی بہت ساری کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں لیکن سب سے معتبر کتاب مفردات راغب ہے علامہ راغب اصفہانی بہت بڑی شخصیت ہے انہوں نے قرآنی الفاظ پر بہت کام کیا ہے اور الفاظ کے دقیق معنی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے بھی اور دیگر علمائے لغت نے بھی دین کے معنی بیان کیے ہیں۔
دین سے مراد کیا ہے؟
دین سے مراد وہ قانون اور منشور ہے جس کی اطاعت کی جائے۔ باقی معانی اس کے لوازمات میں سے ہیں۔ علامہ مصطفوی جو معاصر علماء میں سے ہیں انہوں نے التحقیق نام سے ۱۴ جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس میں قرآنی اصطلاحات اور الفاظ کے اصلی معانی کے علاوہ لوازمات بھی بیان کئے ہیں۔ لہذا دین کے اصلی معنی کے اندر دو چیزیں ہیں ایک قانون ہو دوسرے اس کی اطاعت کی جا رہی ہو۔ اس تعریف کی بنیاد پر اگر اسلام ہمارا دین ہے تو اسلام کا وہ حصہ جس پر ہم عمل کر رہے ہیں وہ ہمارا دین ہے۔ اور جس حصے پر ابھی عمل نہیں کیا وہ دین شمار نہیں ہو گا۔
دین کی تعریف مطلق ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ قانون اللہ ہی کا ہو تب دین کہلائے گا بلکہ قانون کسی کا بھی مقرر کردہ ہو اگر اس پر عمل کیا جا رہا ہے تو وہ لغوی معنی کے اعتبار سے دین کہلائے گا۔ لیکن قرآن کی اصطلاح میں اللہ کا حکم دین کہلاتا ہے نہ ہر کسی کا حکم۔ قرآن میں اللہ کے جتنے بھی احکام ہیں یا وہ تمام دستورات جو نبی اکرم کے ذریعے ہم تک پہنچائے گئے ہیں ان میں سے جتنے احکام و دستورات پر ہم عمل پیرا ہوں گے وہی ہمارا دین کہلائے گا۔ جتنے حصے کو چھوڑ دیں گے اگر چہ ہم ان احکام کو احکام الہی کے طور پر مانتے ہیں اور ان پر ہمارا عقیدہ بھی ہے لیکن وہ ہمارا دین نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ ہم نے اسے واجب الاطاعہ حکم نہیں مانا صرف اللہ کا حکم مانا ہے۔ لہذا وہ دین شمار نہیں ہو گا۔ لہذا قرآنی اصطلاح کے پیش نظر دین کے دو رکن ہیں ایک وہ حکم اللہ کا حکم ہو اور دوسرے بندہ اس پر عمل کر رہا ہو۔
کیا حاکم کے حکم کی اطاعت دین ہے؟
آج کے دور میں حاکم کے حکم کی اطاعت دین ہے یا نہیں ہے؟ لغوی معنی کے اعتبار سے یقینا دین ہے اس لیے کہ دین نام ہی ہے حکم کی اطاعت کا۔ آپ جمہوری نظام حکومت میں رہتے ہیں اپنے ہاتھوں سے اپنا حاکم انتخاب کرتے ہیں اور پھر اس حاکم کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں لہذا آپ کا دین پھر یہی ہو گا۔ قرآن تو حاکم اللہ کو مانتا ہے اور اس کے بعد اس کا رسول اور پھر وہ امام جو منصوص من اللہ ہو وہ آپ کا حاکم ہے اگر سلسلے کے تحت آپ کا نظام ہے تو پھر حاکم امام کی اطاعت دین ہو گی لیکن امامت پر صرف عقیدہ ہے امام کے حکم پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور عمل حاکم وقت جسے آپ نے خود انتخاب کیا ہے اس کے حکم پر عمل ہو رہا ہے تو پھر آپ اللہ کے دین پر نہیں چل رہے ہو بلکہ جمہوریت کے دین پر چل رہے ہو۔ لہذا آپ کا دین جمہوریت ہے امامت دین نہیں ہے۔
ایک اور دین جس کی بلا تفریق مذہب و ملت ہم سب پیروی کرتے ہیں وہ ہمارے آباء و اجداد کا بنایا ہوا دین ہے۔ یعنی وہ قواعد و ضوابط اور رسومات جو ہمارے باپ دادا کے زمانے سے چلی آ رہی ہیں اور ہم بہت پابندی سے ان پر عمل پیرا ہیں۔ وہ بھی ہمارا دین ہے۔ اس کو دین آبائی کہا جاتا ہے اور سب کے سب اس کے اوپر عمل کرتے ہیں۔
واقعی دیندار کون ہے؟
اللہ کے دین پر عمل کرنے والا واقعی دیندار شخص وہ ہو گا جو اللہ کے بتائے ہوئے تمام قوانین پر عمل پیرا ہو گا صرف نماز پڑھنے والا، ایک حکم پر عمل پیرا ہے۔ صرف نمازی کو دیندار تصور نہیں کیا جا سکتا۔
دین کے ماخذ کیا ہیں کن کے احکام پر ہم عمل کریں تو دیندار شمار ہوں گے؟ وہ اللہ یعنی قرآن، اللہ کا رسول، امام اور عقل۔ یہ دین کے ماخذ ہیں ان کے احکام پر عمل کرنے والا دیندار کہلائے گا۔ یہ احکام اللہ نے بنائے کیوں؟ یہی چیز بی بی فاطمہ زہرا اس خطبے میں ہمیں سمجھا رہی ہیں۔ اللہ نے ہمیں پیدا کیا ایک مقصد کی خاطر، اور اس دنیا میں ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ نے دین بنایا ہے۔ یعنی اس دنیا میں رہ کر اللہ کے بتائے ہوئے تمام قوانین پر اگر ہم عمل کریں گے تو اس مقصد کو حاصل کر پائیں گے۔ لہذا مقصد کے حصول کی راہ میں اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل پیرا ہونے کا نام دین ہے۔
دین ایک آئیڈیالوجی
اللہ نے دین کو ایک کتاب کی شکل میں اتارا ہے کتاب سے مراد کاغذ کی ورقوں پر مشتل کتاب نہیں بلکہ کتاب سے مراد انسانی حیات کو منظم کرنے والے قوانین کا مجموعہ ہے جسے آئیڈیالوجی اور مکتب کی صورت میں پیش کیا ہے اور اس کا تعلق انسان کے ہر شعبہ حیات سے ہے یعنی اللہ نے زندگی کے ہر شعبے کے لیے قوانین معین کئے ہیں اور ان قوانین کو اکٹھا کر کے دین کی شکل میں انسان کے لیے بھیجا ہے۔ لیکن ہم نے اسے دوبارہ سے منتشر کر دیا ہے عبادتیں مسجدوں سے مخصوص کر دیں، امامت عقیدے اور نعرے بازی سے مخصوص کر دی، قرآن مرنے والے کو ثواب پہنچانے سے مخصوص کر دیا، اور زندگی کے کچھ شعبوں سے متعلق قوانین کو تو بالکل نظر انداز کر دیا۔
دین کو تقویت کی ضرورت
اس دین کو قوت اور مضبوطی کی ضرورت ہے دین کی مضبوطی ایک بنیادی شرط ہے ’خذ الکتاب بالقوہ‘، دین خود بھی قوی ہے اور تم بھی جب دین اختیار کرو تو پوری قوت کے ساتھ اختیار کرو۔ دین سے تعلق اور تمسک پوری طاقت، قوت اور مضبوطی کے ساتھ ہونا چاہیے یہ طاقت ہمیں کئی جگہ چاہیے، انسان کی شخصیت کے اندر قوت ارادی ہو، فہم اور ذہن بھی قوی ہو، اور دشمنوں کے مقابلے میں خصوصا جب آپ کے سامنے دشمن کھڑا ہو تو طاقت اور قوت حاصل کرو، آج مسلمانوں کی کیا حالت ہے مٹھی بھر یہودیوں کے مقابلے میں یہ مسلمان ذلیل ہو چکے ہیں، دوسو کروڑ مسلمان صرف پچاسی لاکھ یہودیوں کے مقابلے میں ہیں لیکن ان کے ہاتھوں سارا عالم اسلام ذلیل و رسوا ہو چکا ہے۔ اس لیے مضبوط نہیں ہیں۔ قرآن حکم دیتا ہے: وَاَعِدُّوْا لَـهُـمْ مَّا اسْتَطَعْتُـمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّـٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِـهِـمْۚ ۔ دشمنوں کے مقابلے میں طاقت حاصل کرو تاکہ ان پر اپنا رعب جما سکو۔ دین کا یہ حکم بہت اہم ہے۔ تمہارے ارادے میں قوت ہو، فہم و ادراک میں قوت ہو، فیصلے میں قوت ہو، دشمن کے مقابلے میں قوی بن کر رہو۔
دین کمزور نہیں ہے اللہ نے دین کی مضبوطی کے لیے بہترین انتظام کیا ہوا ہے اور حج اس انتظام کا ایک حصہ ہے۔ جس کی طرف جناب زہرا(س) نے اشارہ کیا ’والحج تشییدا للدین‘ کہ اللہ نے دین کی مضبوطی کے لیے حج کو رکھا ہے۔ لیکن کون سا حج دین کو مضبوطی عطا کرتا ہے یہ حج جو ادھیڑے ہوئے اور منتشر کردہ دین کا ایک دھاگہ ہے وہ کیسے دین کو مضبوط بنا سکتا ہے؟ ہم نے عبادتوں کو الگ کر دیا، سیاستوں کو الگ کر دیا، معاملات کو الگ کر دیا اور عبادتوں میں سے حج کو بھی الگ کر دیا اور آل سعود نے اس حج پر اپنی تجارت قائم کر دی۔ یہ حج دین کو مضبوط نہیں بنا سکتا۔ یہ حج مسلمانوں کو نہ دنیا میں کوئی فائدہ دے رہا ہے اور نہ آخرت میں کوئی فائدہ دے گا، یہ صرف آل سعود کو فائدہ دے رہا ہے۔
بی بی جو فرما رہی ہیں کہ حج کے ذریعے دین مضبوط ہوا ہے وہ کون سا حج ہے؟ اس حج کے بارے میں انشاء اللہ بعد میں گفتگو کریں گے۔
مصنف : جعفری ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں