کیا خطے میں “گریٹر اسرائیل” کی تشکیل ہو رہی ہے؟
فاران تجزیاتی خبرنامہ: بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد، صہیونی ریاست کو پہلی مرتبہ جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے بعد یہ موقع ملا کہ وہ اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سے آگے بڑھا سکے۔
صہیونی ریاست کے قیام کے وقت سے ہی اس غاصب ریاست کی عرب زمینوں پر نظریں دو حصوں میں تقسیم تھیں۔ پہلا حصہ فلسطینی زمینوں سے متعلق تھا، اور دوسرا حصہ ان عرب ممالک کی زمینوں پر مشتمل تھا جو فلسطین کے قریب واقع تھیں۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے ابتدائی عشروں میں عرب ممالک کے ساتھ جنگ کے دوران ان کے علاقوں پر قبضہ کیا، لیکن اس کی لالچی نظروں کا دائرہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔
عبرانی زبان کے اخبار “ہاآرتز” نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے “عظیم اسرائیل” کے خواب کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں ایک عدالتی پیشی کے دوران کہا کہ “1916 میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان کیے گئے سائکس پیکو معاہدے کے بعد سے خطے میں کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا، لیکن اب وہ زلزلہ آ رہا ہے۔”

یہ اس وقت ہوا جب نیتن یاہو نے 1974 میں اسرائیل اور شام کے درمیان گولان کی پہاڑیوں پر طے پانے والے جنگ بندی اور تفریق معاہدے کی یکطرفہ خلاف ورزی کی۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد اسرائیلی ٹینکوں نے اسلحے سے خالی حائل علاقے کو عبور کرتے ہوئے جنوبی شام میں داخل ہو کر دمشق سے 20 کلومیٹر دور “قطنا” تک پیش قدمی کی۔
دوسری جانب، “ہیئۃ تحریر الشام” (پہلے جبهة النصرہ) کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے حالیہ بیانات نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ انہوں نے کہا کہ “شام جنگوں سے تھک چکا ہے اور ایک نئی جنگ نہیں چاہتا۔” یہ بیان ان لوگوں کی نیتوں کی عکاسی کرتا ہے جنہوں نے فلسطین کے مسئلے کو نظرانداز کیا اور فلسطینیوں کے مصائب و آلام سے آنکھیں بند کر لیں۔
















تبصرہ کریں