کیا شام کے تیل و گیس کے قدرتی ذخائر اردگان کے بحیرہ روم کو لیکر دیکھے گئے خوابوں کو حقیقت بنا سکتے ہیں؟

ترکی، شام کے توانائی کے شعبے پر قبضے کو ان مسلح گروہوں کی حمایت کی قیمت سمجھتا ہے، جنہوں نے 8 دسمبر 2024 کو اسد حکومت کو گرا کر ملک میں اقتدار سنبھال لیا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ترکی، شام کے توانائی کے شعبے پر قبضے کو ان مسلح گروہوں کی حمایت کی قیمت سمجھتا ہے، جنہوں نے 8 دسمبر 2024 کو اسد حکومت کو گرا کر ملک میں اقتدار سنبھال لیا۔
فارس پلس گروپ: ترکی ہر ممکن طریقے سے یہ کوشش کر رہا ہے کہ شام کے مستقبل میں، جو اب “اسد” کے بغیر ہے، اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے۔ یہ خاص طور پر ان سلفی گروہوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کر کے کیا جا رہا ہے جو انقرہ کے حامی ہیں۔ اس سلسلے میں ترکی کی سب سے اہم سرگرمی شام کے تیل و گیس کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا ہے، خاص طور پر اس ملک کے ساحلوں کے سامنے موجود “ہائڈرو کاربن” وسائل کی دریافت اور اسے نکالنے کے لیے اقدامات کرنا۔
ترکی کے وزیر توانائی “آلپ ارسلان بیرقدار” نے 27 دسمبر 2024 کو اعلان کیا کہ انقرہ، شام کی نئی قیادت کے ساتھ تیل اور گیس کے منصوبوں پر تعاون کر رہا ہے۔ ترکی اس توانائی کے شعبے میں اپنے اثر و رسوخ کو ان مسلح گروہوں کی مدد کا معاوضہ سمجھتا ہے، جنہوں نے 8 دسمبر 2024 کو اسد حکومت کا تختہ الٹ کر دمشق پر قبضہ کر لیا اور ملک کا اقتدار سنبھال لیا۔

انقرہ کی وسیع نقل و حرکت کا آغاز

ترکی کی سب سے اہم کوششیں، جو اسے شام کے توانائی کے شعبے میں مرکزی کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکتی ہیں، درج ذیل نکات میں دیکھی جا سکتی ہیں:
شام کے ساتھ سمندری سرحدوں کا تعین:
ترکی کی کوشش ہے کہ وہ 2019 میں لیبیا کی قومی وفاق حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے اور 2024 میں صومالیہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی طرز پر شام کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کرے، تاکہ اسے شام کے توانائی کے وسائل میں مداخلت کا موقع مل سکے۔
ترکیہ کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ “عبدالقادر اورال اوغلو” نے 25 دسمبر 2024 کو اعلان کیا کہ ان کا ملک دمشق میں مستقل حکومت کے قیام کے بعد شام کے ساتھ سمندری سرحدوں کے تعین کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا: “کسی بھی اقدام سے پہلے ہمیں وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کرنی ہوگی۔ یہ مسئلہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔”
ترکی کے نقطہ نظر سے، شام کے ساتھ سمندری سرحدوں کا تعین انقرہ کو یہ اجازت دے گا کہ وہ شام کے ساحلوں کے قریب تیل کی تلاش اور دریافت کی سرگرمیوں میں زیادہ وسیع اور مضبوط موجودگی حاصل کر سکے۔
ترکی کےایک وفد نے، جو وزارت توانائی اور قدرتی وسائل کی نمائندگی کر رہا تھا، 28 دسمبر کو دمشق کا دورہ کیا تاکہ شام میں بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کا جائزہ لے سکے۔ ترکی، شام میں بجلی کے شعبے میں نئے ترقیاتی منصوبوں پر خصوصی توجہ دے رہا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ شام اس شعبے میں شدید قلت کا شکار ہے۔

کردوں کی خودمختاری کے منصوبے سے مقابلے کی کوششیں جاری

شمال مشرقی شام میں ترکی کی فوجی کارروائیاں، جو کرد ملیشیا (قسد) کے خلاف کی جا رہی ہیں، صرف سکیورٹی مقاصد تک محدود نہیں بلکہ ترکی کے تیل کے وسائل پر قبضے کے عزائم سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔
شمال اور شمال مشرقی شام میں کردوں کی خودمختار انتظامیہ، جسے ترکی ایک دہشت گرد وجود تصور کرتا ہے، شام کے زیادہ تر تیل کے کنوؤں اور میدانوں پر قابض ہے۔ ان میں سویدیہ، رمیلان اور العمر کے تیل کے میدان شامل ہیں، اس کے علاوہ حسکہ اور دیرالزور کے درمیان پھیلے ہوئے دس دیگر تیل کے میدان بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔

ترکی شام میں کیا چاہتا ہے؟

ترکی کی کوشش ہے کہ شام کے تیل اور گیس کے تمام ذخائر پر کنٹرول حاصل کرے، جو کہ اس کے وسیع تر اہداف کا حصہ ہے۔ ان مقاصد میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
مشرقی بحیرہ روم میں حریفوں کے نظریات پر اثر انداز ہونا
ترکی کا ماننا ہے کہ شام کے ساتھ سمندری سرحدوں کے تعین سے اسے مشرقی بحیرہ روم میں اپنے حریفوں، خاص طور پر یونان اور قبرص، پر دباؤ ڈالنے کا موقع ملے گا۔
اگر ترکی اور شام سمندری حدود کا تعین کر لیتے ہیں تو انقرہ کو نہ صرف اپنے علاقائی حریفوں کے زیر اثر علاقوں میں قدم جمانے کا موقع ملے گا بلکہ وہ مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے وسائل کی کھوج اور تلاش کی سرگرمیوں کو بھی آگے بڑھا سکے گا، جنہیں یونان اور قبرص غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔
ترکی بخوبی جانتا ہے کہ شام کے توانائی کے شعبے پر قبضہ کرنا ایک بڑا سیاسی اور معاشی ہتھیار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ انقرہ اس معاملے پر اپنی کوششیں مرکوز کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ترکی سمجھتا ہے کہ شام کے توانائی کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا مغرب کے خلاف ایک دباؤ کا ہتھیار بھی ہوگا، خاص طور پر ان مغربی ممالک کے خلاف جو قبرص اور یونان کی بحری حدود کے تنازعے میں ان کی حمایت کر رہے ہیں۔

شام کے توانائی کے شعبے کے وسیع امکانات

ترکی کی جانب سے شام کے ہائیڈروکاربن سیکٹر پر کنٹرول حاصل کرنے کی ایک اور بڑی وجہ اس شعبے کی بے پناہ صلاحییتیں ہیں۔ یہ عنصر غیر ملکی کمپنیوں کے لیے بھی ہمیشہ سے کشش کا حامل رہا ہے، خاص طور پر 2019 میں امریکہ کی جانب سے “قیصر ایکٹ” کے تحت شام پر عائد پابندیوں سے پہلے، جب تیل اور گیس کے میدانوں کی دریافت اور شناخت کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی دلچسپی موجود تھی۔
تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ شام کے تیل کے ذخائر 2.5 ارب بیرل کی مالیت کے ساتھ تقریباً 2.3 ارب ڈالر کے برابر ہیں، اگر 2024 میں عالمی مارکیٹ میں اوسط قیمت کو مدنظر رکھا جائے۔ اسی طرح، تخمینے کے مطابق شام کے قدرتی گیس کے ذخائر 8.5 ہزار ارب مکعب فٹ ہیں، جو کہ دنیا کے مجموعی گیس ذخائر کا 0.1 فیصد بنتے ہیں۔
یہی عوامل ترکی کی کوششوں کو واضح کرتے ہیں کہ وہ شام پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے کیوں سرگرم ہے۔

ترکی کا توانائی راہداری کے طور پر اپنا کردار مضبوط کرنے کا ارادہ

ترکی کا ماننا ہے کہ شام کے ساتھ سمندری حدود کا تعین اور اس ملک کے توانائی کے شعبے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے سے وہ خود کو مشرقی بحیرہ روم کے ممالک سے یورپی منڈیوں تک توانائی لے جانے والے ایک اہم راہداری کے طور پر مضبوط کر سکتا ہے۔
یہ اقدام ترکیہ کو خطے میں توانائی کی ترسیل کے مرکز کی حیثیت فراہم کرے گا اور اسے گیس پیدا کرنے والے ممالک اور مغربی منڈیوں کے درمیان اہم رابطے کی کڑی بنا دے گا۔

ترکی کی معیشت کی بحالی

شام کے توانائی کے شعبے میں ترکی کی موجودگی ترکی کی موجودہ اقتصادی پالیسی کی اہم ترین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ اس سے ترکی کو شام سے یورپ تک تیل اور گیس کی منتقلی (سوآپ) کے ذریعے اپنی معیشت کو بحال کرنے کا موقع ملے گا۔
اس مقصد کے تحت، شام کے ہائیڈروکاربن سیکٹر کی بحالی اور ترکیہ کے ذریعے گیس و تیل کی پائپ لائنز کے منصوبے ترکیہ کی معیشت پر مثبت اثر ڈالیں گے اور بحیرہ روم کے علاقے میں اس کے اسٹریٹجک مقام کو مزید مضبوط کریں گے۔
مزید برآں، یہ ترکی کے لیے ایک بڑی اقتصادی پیش رفت ثابت ہوگی، کیونکہ یہ موقع اسے عالمی توانائی اور گیس مارکیٹ میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھرنے میں مدد دے سکتا ہے، حالانکہ ترکی خود زیادہ قدرتی وسائل کا حامل نہیں ہے۔

ترکی کی توانائی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع

بلاشبہ، شام کے توانائی کے شعبے میں ترکی کی شمولیت کا ایک اور اہم پہلو ترکی کی توانائی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا ہے۔
یہ ترکی کی توانائی کی درآمدات اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرے گا۔ ترکی کو سستی قیمت پر گیس اور تیل حاصل ہوگا، جو کہ عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کے مقابلے میں کہیں کم ہوگا۔
نتیجتاً، ترکی اپنی گیس کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ شام سے پورا کر سکے گا، خاص طور پر اس وقت جب توانائی کی عالمی قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں اور مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد پابندیوں کے باعث توانائی کا بحران بڑھ رہا ہے۔
ترکی کی کمپنیوں کے لیے شام میں نئے مواقع کے دروازے کھل رہے ہیں۔

انقرہ کا ماننا ہے کہ شام میں توانائی کے ذخائر کی دریافت اور شناخت میں ترک سرمایہ کاری میں اضافہ، مستقبل میں ترکی کی کمپنیوں کی توانائی کے شعبے میں مضبوط موجودگی کو یقینی بنائے گا۔
یہ پیشرفت شام میں ترکی کے تیل اور گیس کے منصوبوں کو مزید وسعت دے گی۔ اس نقطہ نظر سے، ترکیہ سمجھتا ہے کہ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری سے ترک کمپنیوں کی تیل اور گیس کے میدانوں کی دریافت، ترقی، اور توسیع میں سرگرمی بڑھے گی۔

شام کی نئی حکومت میں ترکی کے اثر و رسوخ کو بڑھانا

انقرہ کا خیال ہے کہ شام کے تیل اور گیس کے شعبے پر کنٹرول حاصل کرنا نہ صرف ترکیی کے اثر و رسوخ کو بڑھائے گا بلکہ اسے نئی شامی حکومت میں مستحکم بھی کرے گا۔
اس حوالے سے، شام کی عبوری حکومت ترکیہ کی ممکنہ سرمایہ کاری اور توانائی کے وسائل کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی پر خاص طور پر انحصار کر رہی ہے۔
یہ حکومت اس حقیقت سے واقف ہے کہ ترکیہ کی سرمایہ کاری، جولانی اور اس کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے میں مدد دے سکتی ہے۔ خاص طور پر جب کہ دمشق میں علاقائی اور بین الاقوامی وفود کی آمد و رفت تیز ہو چکی ہے اور سبھی نئی حکومت میں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ترکی کو درپیش بڑھتے ہوئے چیلنجز

اگرچہ ترکیہ شام کے توانائی کے وسائل، خاص طور پر قدرتی گیس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے، لیکن اسے کئی اہم اور سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
سیکیورٹی کی عدم موجودگی، جس کا شام اب بھی شکار ہے۔

شمال اور مشرقی شام میں کردوں کا توانائی کے بنیادی وسائل پر قبضہ۔
بین الاقوامی پابندیوں کا جاری رہنا، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں۔
بین الاقوامی برادری میں نئی شامی حکومت کی انتظامی صلاحیتوں پر گہرے شکوک و شبہات۔
یہ تمام عوامل ترکی کے لیے شام کے توانائی کے شعبے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں سمجھے جا رہے ہیں۔