کیا موساد میں ایرانی ایجنٹ نے صہیونیوں کی عظیم کاروائی کا بھانڈا پھوڑا
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جون 2021ع میں ڈیوڈ برناع (David Barnea) صہیونی دہشت گرد خفیہ ادارے موساد کا سربراہ بنا تو ایران کے خلاف صہیونی حکمت عملی نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔ وہ یوسی کوہن کے جانشین کے طور پر منظر عام پر آیا اور وہ صہیونیوں کو دکھانا چاہتا تھا کہ غاصب ریاست نے اس کو موساد کا سربراہ بنا کر بہترین فیصلہ کیا ہے اور وہ اپنے سابقین کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر صہیونی ریاست کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ بارناع ایسے حال میں موساد کا سربراہ بنا جب جعلی ریاست بدترین اندرونی اور بیرونی مسائل سے گذر رہی ہے، چنانچہ وہ ثابت کرکے دکھانا چاہتا ہے کہ اس کی تعیناتی غاصب ریاست کا بہترین فیصلہ ہے۔
برناع ایران اور محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کے امور کا ماہر ہے اور اس کے آنے سے اسرائیلی ریاست سمجھتی تھی کہ گویا وہ آتے ہی ایران کے خلاف عظیم ترین کاروائیوں کا اہتمام کرے گا اور برناع بھی اپنے مشن کے آغاز پر ہی ایران میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے نظام میں خلل ڈالنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس نے اپنے منصوبوں کو ایران پر مرکوز کیا اور یوں وہ ایران کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا موساد ایران کے خلاف کاروائیوں کے نئے مرحلے کا آغاز کر چکی ہے۔ چنانچہ جون 2021 سے جون 2022 تک، یہودی ریاست کے ذرائع ابلاغ اور تحقیقاتی مراکز نے ایران کے خلاف نئی تزویراتی حکمت عملی کے آغاز کا عندیہ دیتے رہے تھے۔
ہاآرتص، یروشلم پوسٹ، ٹائمز آف اسرائیل، اور دوسرے صہیونی ذرائع ایران کے خلاف ایک نئے ڈھانچے کی تشکیل کے بارے میں اظہار خیال کر رہے تھے۔ رویوں کی یہ تبدیلی موساد کی ایران ڈیسک میں انجام پا رہی تھی۔ ساختیاتی تبدیلیاں ایران کے اندر بڑی کاروائی کے مقصد سے موساد کے اندر انجام رونما ہو رہی تھیں۔
یروشلم انسٹی ٹیوٹ برائے حکمت عملی و سلامتی (The Jerusalem Institute for Strategy and Security [JISS]) نے 2021ع میں ایران کے خلاف ایک نئی حکمت عملی پر سے پردہ اٹھایا۔ اس مرکز نے مورخہ 13 اپریل 2022ع کو جنرل یووال بازاک (Yuval Bazak) اور پروفیسر گابی سیبونی (Gabi Siboni) کے قلم سے ایک مضمون میں لکھا تھا:
“حالیہ برسوں نے واضح کیا ہے کہ اگرچہ طاقت کا استعمال ایران کے ترقیاتی پروگراموں کو سستی سے دوچار کر سکتا ہے لیکن یہ عمل شیعہ محور کو انحراف کا شکار کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ ایران کا عزم، اسرائیل کے لئے صرف ایک انتخاب کا راستہ کھول دیتا ہے وہ یہ کہ یا تو اسرائیل ان دشمنوں کے خلاف تزویراتی حکمت عملی اپنائے جو ہنوز اسرائیل کی نسبت کمزور ہیں، یا پھر انفعالیت کی حکمت عملی پر کاربند ہوجائے، جو ممکن ہے کہ ایسے دشمنوں کے خلاف جنگ پر منتج ہو جائے جو مجموعی طور پر ایران کی قریبی روایتی قوت کے نمائندے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل ان دو راستوں میں سے کس راستے کا انتخاب کرتا ہے؟” گابی سیبونی لکھتا ہے: “ضروری ہے کہ اسرائیل کی حکمت عملی یہ ہو کہ ایران کے اندر بڑی کاروائیاں کرکے اسرائیل کے خلاف خطرات کو ناکارہ بنائے، اور اس طرح کی کاروائیوں کے اثرات ایران کے حلیف گروپوں پر مرتب ہونگے”۔ یووال بازاک لکھتا ہے: “ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ بڑی کاروائیوں کا منصوبہ بنا کر ایران پر کاری ضربیں لگا دیں، کیونکہ ہم یہ قابل برداشت نہیں ہے کہ ایران اپنے پراکسی گروپوں کے ہمراہ اسرائیل کو خطرے میں ڈالنے کے طرف بڑھ رہا ہے”۔
یروشلم پوسٹ نے 2021ع کے اواخر میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگوں کے بارے میں ایک رپورٹ دیتے ہوئے لکھا تھا: موساد کے نئے سربراہ نے مخلوط حکومت سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف نئی اور ہلاکت خیز کاروائیوں کا اہتمام کرے گا اور ایران کے ساتھ روایتی جنگ یا حتی کہ پراکسی جنگ میں الجھے بغیر، اپنے وسائل اور اوزاروں سے فائدہ اٹھا کر، ایران کی ٹیکنالوجی کو نظام کو ناکامہ بنائے گا یا چند سال پہلے تک پلٹا دے گا! چنانچہ صہیونی ذرائع ابلاغ جون اور جولائی 2022ع کے دوران ایک بہت اہم خبر کے منتظر تھے! انھوں نے حتی کہ اس اہم خبر کی شہ سرخیاں بھی پہلے سے تیار کر رکھی تھیں اور انہیں یقین تھا کہ ایران سے ایک ایسی خبر آنے والی ہے جو دنیا میں گونج اٹھے گی! لیکن سوال یہ ہے کہ کیسی خبر تھی؟
غاصب ریاست کے جاسوسی ادارے موساد نے ایران کی کالعدم دہشت کرد کمیونسٹ جماعت “کومَلَہ (Komalah)” کو استعمال کیا اور دو سال تک منصوبہ بندی کی اور اس جماعت میں اپنے گماشتوں کو افریقہ میں تربیت دی کہ وہ واپس آکر ایران کے ایک حساس ترین فوجی مقام کو بموں سے اڑا دیں۔ موساد نے اس کاروائی کا نام “عظیم کاروائی” رکھا تھا، جس کے ذریعے وہ اسلامی جمہوریہ پر کاری ضرب لگانے کے درپے تھی۔ یہ کاروائی بالکل خفیہ اور کلاسیفائیڈ تھی اور بہت سے اسرائیلی حکمران بھی اس کاروائی سے بے خبر تھے۔ ڈیوڈ برناع، موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اس کاروائی میں کامیابی کو اپنے نام کرنا چاہتا تھا۔ لیکن یہ کاروائی جس کی منصوبہ بندی ایک طویل عرصے میں، پانچ ممالک میں انجام کو پہنچی تھی، اور کاروائی میں شرکت کرنے والے عراقی کردستان سے آئے تھے، بالآخر ناکام ہوئی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت اطلاعات (Ministry of Intellegence) نے 27 جولائی 2022ع کو اعلان کیا کہ اس کے عملے نے تخریبکاری کے آنے والے صہیونی گماشتوں کے پورے نیٹ ورک کو گرفتار کر لیا ہے۔ ایک پیچیدہ اور تربیت یافتہ نیٹ ورک امام زمانہ (علیہ السلام) کے گمنام سپاہیوں کے جال میں پھنس چکا تھا، اور یوں وزارت اطلاعات نے گذشتہ 40 برسوں کے دوران کے پیچیدہ ترین صہیونی-موسادی منصوبے کو ناکام بنایا۔
کاروائی پر مامور چار دہشت گردوں سمیت اس دہشت گرد نیٹ ورک کے تمام افراد اور سہولت کاروں کی گرفتاری یہودی ریاست میں ایک ساختیاتی بھونچال کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور موساد نے خود کو اس بنیادی سوال کے سامنے کھڑا دیکھا کہ “ایران ایران اس انتہائی خفیہ اور پیچیدہ کاروائی کو ناکام بنانے میں کیونکر کامیاب ہؤا ہے؟ ایک ایسا سوال جس کا جواب موساد ابھی تک تلاش نہیں کرسکی ہے۔ گوکہ اس نے احتیاطی تدابیر! اخذ کئے اور ایران ڈیسک میں مصروف عمل پورے عملے کی چھٹی کردی لیکن سوال بدستور باقی ہے اور موساد کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ موساد نے ایران ڈیسک کو مکمل طور پر خالی کردیا اور اس کا خیال ہے کہ گویا اس پر یہ کاری ضرب ایران ڈیسک کے اندر سے لگی ہے!
ایران کے صوبہ اصفہان کے ایک حساس فوجی مرکز – جس میں مختلف قسم کے طیارے تیار ہوتے ہیں – میں صہیونی کاروائی کے مجوزہ پہلو بعد میں کچھ نمایاں ہوئے اور اگر یہ کاروائی کامیابی سے انجام کو پہنچتی تو یہ ایران کے خلاف غاصب اسرائیل کی دہشت گردی کے حوالے سے موساد اور متعلقہ جعلی ریاست کے لئے ایک بڑی حصول یابی قرار دی جا سکتی تھی؛ اس سے موساد کی طاقت کا اظہار ہو سکتا تھا اور ساتھ ہی ایک حساس فوجی-صنعتی مرکز کو بہت بڑا نقصان بھی پہنچ سکتا تھا اور اب جو یہ سب کچھ نہ ہؤا تو اس ناکام کاروائی نے صہیونیوں کی ڈگمگاتی ریاست پر شدید اور مہلک ضرب لگائی ہے۔ موساد – ایران ڈیسک کے عملے اور سربراہ کو تبدیل کرکے – اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے درپے ہے کہ یہ خفیہ اور عظیم کاروائی ناکام کیوں ہوئی ہے؛ اور یہ کیسے ممکن ہؤا ہے کہ ایران کے سیکورٹی اور انٹیلیجنس اداروں نے ایک بار پھر صہیونیوں کے خفیہ ترین اور پیچیدہ ترین کاروائی کو کیونکر ناکام بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں