کیا واقعی معنی میں ترکی فلسطین کا حامی ہے؟

اردوگان نے عالم اسلام کو ایک نیا ماڈل پیش کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کی مخالفت بھی کی جا سکتی ہے اور اسرائیل کے سفیر کو اپنے ملک میں رسمیت بھی دی جا سکتی ہے۔

فاران؛ شاید ہی کوئی ۲۰۰۸ کے ڈیوس اجلاس میں اردوگان کے سخت رویے کو بھولا ہو، اس وقت وہ ترکی کے وزیر اعظم تھے تو انہوں نے غزہ میں صہیونی ریاست کی جارحیت اور فلسطینی بچوں کے قتل عام کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اجلاس کو ترک کر دیا تھا۔
اروگان اپنے اس اقدام کے ذریعے کچھ عرصہ ہیرو بنے رہے۔ حق بھی یہی تھا چونکہ عربی حکمرانوں کی شرمناک اور خیانت آمیز خاموشی کے مقابلے میں اردوگان کا یہ رد عمل بے نظیر تھا۔ اس لیے کہ فلسطینیوں کو ترکی اور دیگر اسلامی ممالک سے ایسی امید کبھی نہیں تھی چونکہ عرب ملکوں نے فلسطین کی حمایت کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہوئے تھے۔
فلسطینیوں کو یاد تھا کہ وہ آخری ترک رہنما جس نے اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت کی تھی وہ جمال عبد الناصر تھے اگر چہ وہ عربی قومی رجحان اور اسلامی بنیادوں سے دوری کی بنا پر فلسطین کو آزاد کرانے میں کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ البتہ بیسویں صدی کی ۶۰ ویں دہائی کے عبد الناصر اور اکیسویں صدر کی دوسری دہائی کے اردوگان میں ایک فرق ہے وہ یہ ہے کہ عبد الناصر نے فلسطین کی رہائی کے لیے ’’اسرائیل سے جنگ‘‘ لڑی لیکن اردوگان ’’اسرائیل کے ہمکنار پرامن زندگی‘‘ کے لیے صرف سیاسی میدان میں بیان بازی کر رہے ہیں نہ وہ اسرائیل سے ٹکر لینا چاہتے ہیں۔
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ایران جو ایک عرصے سے فلسطینی کاز کی حمایت کر رہا ہے اس کو کسی نے اب تک ہیرو نہیں بنایا؟ البتہ یہ صرف ایک شبھہ ہے جو ایران کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ذہنوں میں ڈالا جا رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران سے اس کے علاوہ کی توقع نہ تھی نہ ہے۔ ایران کی جانب سے فلسطین بلکہ مظلومان عالم کی حمایت کوئی نئی چیز نہیں تاکہ بعض کے لیے حیران کن ہو۔ دوسرے لفظوں میں، ایران کی جانب سے تمام سیاسی اور غیر سیاسی میدانوں میں فلسطین کی حمایت اسلامی انقلاب کی ابتدا سے آج تک جاری ہے اور یہ چیز ایرانی سیاست کے بنیادی ڈھانچوں میں شامل ہے نہ یہ کہ اس کی بعض تکنیکی سیاستوں کا حصہ ہو۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک کبھی بھی فلسطین کو بعنوان ہتھیار استعمال نہیں کیا بلکہ خود فلسطین کو عربی اور اسلامی ممالک کے لیے معیار قرار دیا تاکہ یہ پرکھ سکیں کہ وہ کس قدر اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے مسائل کو لے کر حساس ہیں۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس سے اردوگان نے بخوبی فائدہ اٹھایا، بجائے اس کہ فلسطین کی حمایت کو آنقرہ کی سیاسی حکمت عملی قرار دیتے اسے سیاسی میدان میں اپنے لیے اسکور جمع کرنے کی ایک تکنیک قرار دیا۔ ایک مرتبہ یورپی یونین میں رکنیت کے لیے اور دوسری مرتبہ اسلامی دنیا میں سیاسی امتیازات حاصل کرنے لئے۔
اردوگان نے عالم اسلام کو ایک نیا ماڈل پیش کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کی مخالفت بھی کی جا سکتی ہے اور اسرائیل کے سفیر کو اپنے ملک میں رسمیت بھی دی جا سکتی ہے۔ سیکولاریزم کی بنیاد پر اردوگان یہ ماڈل پیش کر رہا تھا کہ اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے علاوہ اس کے ساتھ مشترکہ فوجی نمائش بھی منعقد کی جا سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے نزدیک خود کو بھی ان کا طرفدار منوایا جا سکتا ہے۔
یہ وہ موضوع ہے جو تجزیہ نگاروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ فلسطین کے حوالے سے اردوگان کی حسن نیت کو مشکوک نگاہ سے دیکھیں۔