کیا یمن کے خلاف جنگ آخری مراحل میں ہے؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یمن میں رونما ہونے والی تبدیلیاں “مخصوص حالات” کی خبر دے رہی ہیں۔ آل سعود رژیم نے یمن جنگ کا آٹھواں برس شروع ہونے پر دو ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کچھ ہی دن بعد یمن کے سعودی نواز سابق صدر منصور ہادی کا استعفی بھی سامنے آ گیا ہے۔ لیکن جنگ بندی کے اعلان کے ایک ہفتے بعد ہی اس کی خلاف ورزی بھی شروع کر دی ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
1)۔ سعودی حکمرانوں کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان سے پہلے یمن آرمی متعدد کامیاب فوجی کاروائیاں انجام دے کر یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر چکی تھی۔ یہ کاروائیاں سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات خاص طور پر جدہ میں آئل ریفائنری پر فضائی حملوں کی صورت میں انجام پائی تھیں۔
لہذا یہ کہنا درست ہو گا کہ دونوں فریق جنگ کی سالگرہ کے موقع پر جنگ ختم کرنے کے خواہاں تھے۔ یمن آرمی اور انصاراللہ یمن کی جانب سے سعودی تنصیبات پر انجام پانے والے حملوں میں نقصان کا اندازہ 1 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یمن نے جنگ بندی کا اعلان کمزوری کی وجہ سے نہیں کیا۔ سعودی عرب پر انجام پانے والے یہ فضائی حملے اس قدر شدید تھے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مداخلت کرنے پر مجبور ہو گئی اور اسے نے مظلوم یمنی عوام کے خلاف نئی قرارداد منظور کر ڈالی۔ دوسری طرف سعودی حکمرانوں کی جانب سے شدید نقصان برداشت کرنے کے بعد جنگ بندی کا اعلان ان کی کمزوری کی علامت ہے۔ لہذا یمن کی جانب سے جنگ بندی کی پابندی کا یقین تو کیا جا سکتا ہے لیکن سعودی حکمرانوں کی جانب سے پابندی کا کوئی اطمینان نہیں پایا جاتا۔
2)۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اور یمنی افواج کے ہاتھوں مارب شہر کی آزادی یقینی ہو جانے کے بعد سعودی حکمرانوں نے یمنی عوام پر شدید اقتصادی دباو ڈالنا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں یمن میں پٹرول کی قیمت چار گنا بڑھ کر 40 ہزار یمنی ریال فی گیلن (20 لٹر) تک جا پہنچی تھی۔ دوسری طرف آل سعودی رژیم نے مجرمانہ ہتھکنڈہ بروئے کار لاتے ہوئے یمن کی مارکیٹ سے بھاری قیمت پر غذائی مواد بھی خرید لیا تاکہ عوام کے پاس کھانے پینے کیلئے بھی کچھ باقی نہ بچے۔ اس شدید دباو میں بھی یمن نے سعودی عرب کے خلاف تین بڑی فوجی کاروائیاں انجام دیں جن کا نام “محاصرے کا خاتمہ” رکھا گیا تھا۔ ان کامیاب کاروائیوں کے بعد سعودی حکمرانوں نے سنجیدگی سے جنگ بندی اور مذاکرات کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔
سعودی میڈیا نے اپنی تیل کی تنصیبات پر انجام پانے والے فضائی حملوں کی ویڈیوز اور تصاویر بھی جاری کیں جس کا مقصد مغربی ممالک کو یمن کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے پر راضی کرنا تھا۔ لیکن مغربی ممالک نے اس حوالے سے کوئی موثر اقدام انجام نہ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ، فرانس اور برطانیہ اب تک جو اقدامات انجام دے چکے ہیں وہ اسلامی مزاحمت کے خلاف اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں کر سکتے۔ یوں آل سعودی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان سے مایوسی کی بو بھی آ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی سعودی عرب کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ سعودی حکمرانوں نے حال ہی میں یمن جنگ کے خاتمے کیلئے خلیج تعاون کونسل کی مدد حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ دوسری طرف خلیج تعاون کونسل تمام مراعات سعودی عرب کو دینے پر راضی نہیں ہے۔
3)۔ بعض ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکمرانوں کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان اس کے کچھ اتحادیوں کی ناراضگی کا باعث بنا ہے۔ سعودی عرب نے جنگ بندی کا اعلان کرنے سے پہلے متحدہ عرب امارات اور یمن کی عبوری کونسل کو اعتماد میں نہیں لیا۔ متحدہ عرب امارات اور یمن کی عبوری کونسل نے یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی معاونت کی ہے لیکن جنگ بندی سے پہلے سعودی حکمرانوں نے ان سے مشورہ تک نہیں کیا۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ یمن کے خلاف عرب اتحاد میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی تیل کی تنصیبات پر مزید فضائی حملوں سے بچنے کیلئے عجلت میں جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔
4)۔ یمن جنگ کی صورتحال کافی حد تک واضح ہو چکی ہے۔ سعودی حکمرانوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ چار ہفتوں کے اندر اندر جنگ کے مقاصد حاصل کر لیں گے لیکن اس وقت جنگ کو شروع ہوئے سات برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ وہ قوت جسے سعودی عرب حقیر اور کمزور سمجھتا تھا اس وقت ایک اہم فوجی طاقت بن کر سامنے آ چکی ہے۔ ایسی فوجی طاقت جو ایک وقت کئی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اندرونی غداروں کے خلاف، جارح سعودی رژیم کے خلاف اور متحدہ عرب امارات کے خلاف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یمن کے خلاف جنگ کا سعودی عرب کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اب اگر جنگ ختم بھی ہو جاتی ہے تو بعض ایسے حقائق ہیں جو سعودی عرب کیلئے قابل ہضم نہیں ہیں جن میں سرفہرست انصاراللہ کی شکل میں اسلامی مزاحمتی گروہ ہے۔
تبصرہ کریں