فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 30 جنوری 1948ء ہندوستان کی تاریخ کے اس سیاہ دن کی یاد دلاتی ہے جب گاندھی جی کو ناتھو رام گوڈسے نے قتل کر دیا۔ عجیب بات ہے 26/ جنوری سے 30/ جنوری کے درمیان فاصلہ محض 4 دن کا ہے ۔26 / جنوری جس زور و شور سے منایا جاتا ہے 30/ جنوری کو اتنا ہی نظر انداز کیا جاتا ہے خوف کس بات کا ؟ ۔۔۔
کہیں یہ روح کی بیماری تو نہیں کہ اگر گاندھی جی کے قتل پر ان کی یاد منائی جائے گی تو کل کے گوڈسے کے ساتھ لوگ آج کے چلتے پھرتے گوڈسوں پر بھی لعنت کریں گے ۔صحیح کہا تھا خود گاندھی جی نے “ڈر جسم کی بیماری نہیں روح کی بیماری ہے”
گاندھی جی کو کس نے قتل کیا اور کیوں ؟
30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کو نئی دہلی میں ایک ہندو قوم پرست ناتھورام گوڈسے(1) نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ برلا ہاؤس (Birla House) کے احاطے میں پیش آیا، جہاں گاندھی جی روزانہ شام کی دعا کے لیے جمع ہوتے تھے۔
قتل کا پس منظر:
مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہندوستان کو 15 اگست 1947 کو آزادی ملی، لیکن آزادی کے ساتھ ہی برصغیر کی تقسیم ہوئی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ گاندھی نے عدم تشدد اور امن کی وکالت کرتے ہوئے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش کی، جس پر کچھ انتہا پسند ہندوؤں کو اعتراض تھا۔ ناتھورام گوڈسے اور اس کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ گاندھی مسلمانوں کی حمایت کر رہے ہیں اور ہندوستان کو کمزور کر رہے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ہندوستان نے پاکستان کو 55 کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کیا تب ان انتہا پسندوں کو کی نفرت میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ انہوں نے گاندھی جی کو راستے سے ہٹانے کی ٹھان لی اور یوں تاریخ ہندوستان کا سیاہ ترین باب گاندھی جی کے قتل کے صورت رقم ہوا ۔
گاندھی جی کے قتل پر اجمالی نظر:
30 جنوری 1948 کو شام 5:17 بجے، گاندھی برلا ہاؤس کے باغ میں اپنی روزانہ کی اجتماعی دعا کے لیے جا رہے تھے۔ جب وہ لوگوں کے درمیان سے گزر رہے تھے، ناتھورام گوڈسے نے قریب آ کر ان پر تین گولیاں داغ دیں۔ گاندھی موقع پر گر گئے اور کہا، “ہے رام!” (یہ ان کے آخری الفاظ مانے جاتے ہیں اگرچہ بعض کو اختلاف ہے)۔ انہیں فوری طور پر برلا ہاؤس کے اندر لے جایا گیا، لیکن کچھ ہی دیر بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
ناتھورام گوڈسے اور اس کا مقدمہ:
گوڈسے کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا، اور اس کے ساتھیوں سمیت اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ 8 نومبر 1949 کو اسے سزائے موت سنائی گئی اور 15 نومبر 1949 کو پھانسی دے دی گئی۔
اثر اور ردعمل:
گاندھی کے قتل نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔
اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے قوم سے خطاب میں کہا: “ہمارے ملک کے روشن چراغ کو بجھا دیا گیا ہے۔”
لاکھوں لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوئے، اور دنیا بھر میں ان کے قتل کی مذمت کی گئی۔
آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) پر پابندی لگا دی گئی، کیونکہ گوڈسے اس سے منسلک تھا
گاندھی جی کے قتل نے امن پسندوں اور بیدار ضمیر افراد کے لئے ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ جینے کا ایک نیا باب کھول دیا کہ چاہے تمہیں قتل کر دیا جائے لیکن ملک کی بقا و سالمیت اسی میں ہے کہ بھائی چارہ کے ساتھ جیو اور اصولوں کا سودا ہرگز نہ کرو یہی وجہ ہے کہ ان کی عدم تشدد کی تعلیمات آج بھی نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں یاد کی جاتی ہیں۔
قتل کے اسباب و محرکات :
یقینا گاندھی جی کے قتل کی دردناک داستان ہندوستانی تاریخ میں ایک المناک دن کے طور پر یاد کی جاتی ہے، جس نے ایک عظیم رہنما کی زندگی کو ختم کر دیا لیکن ان کے اصولوں اور نظریات کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا جانا چاہیے۔،
موہن داس کرم چند گاندھی کو قتل کرنے والا گوڈسے ایک انتہا پسند ہندو تنظیم ہندو مہاسبھا سے وابستہ تھا جسکی شدت پسندانہ سوچ نے اس سیاہ دن کی بنیاد رکھی جسے ہم 30 جنوری گاندھی جی کے قتل کی سالگرہ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
گاندھی کے قتل کے پیچھے کئی محرکات اور اسباب تھے، جن میں درج ذیل نمایاں عوامل کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:
1. تقسیم ہند اور پاکستان کی حمایت
گاندھی جی نے برطانوی راج سے آزادی کے بعد ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا اور تقسیم ہند کو روکنے کی کوشش کی۔ ان سب چیزوں کے باوجود تقسیم ہو کر پاکستان وجود میں آیا، جس پر کچھ ہندو قوم پرست ناراض تھے۔ گوڈسے اور اس کے حامیوں کا ماننا تھا کہ گاندھی نے مسلمانوں کی حمایت کرکے ہندوؤں کے ساتھ ناانصافی کی۔
وہ سمجھتے تھے گاندھی جی ملک کو توڑنے کے ساتھ پاکستان کی حمایت کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں جو ناقابل بخشش ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی اس میں انگریزوں کا بڑا کردار رہا گاندھی جی نے اس سلسلہ سے ہمیشہ اصولی موقف رکھا اور یہی اصولی موقف انکے قتل کا سبب بنا ۔
2. پاکستان کو مالی امداد کی حمایت
گاندھی نے ہندوستان کی حکومت پر زور دیا کہ وہ 55 کروڑ روپے (اس وقت کی بڑی رقم) پاکستان کو دے، جو کہ تقسیم کے وقت طے پایا تھا۔ گوڈسے اور اس کے ساتھیوں کو لگا کہ گاندھی ہندوستان کے مفادات کے بجائے پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
گاندھی جی کے قتل کا ایک اہم سبب یہی وہ تنازع تھا جو 55 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے پر پیدا ہوا تھا(2)۔ یہ رقم ہندوستان کو پاکستان کو دینی تھی، لیکن کچھ ہندو قوم پرستوں نے اس کی شدید مخالفت کی، اور یہی مخالفت نتھورام گوڈسے جیسے انتہا پسندوں کے غصے کو مزید بھڑکانے کا سبب بنی۔
55 کروڑ روپے کا پس منظر
جب 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم ہوئی تو برطانوی حکومت کے طے کردہ معاہدے کے تحت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان فوجی اور مالی اثاثے تقسیم ہونا طے پایا۔
کل 75 کروڑ روپے میں سے ہندوستان کو 20 کروڑ روپے پاکستان کو فوری طور پر دینے تھے، جبکہ باقی 55 کروڑ روپے بعد میں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا
ہندو پاک جنگ اور وعدے پر عمل میں مشکلات
تقسیم کے بعد کشمیر کے معاملے پر ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہو گئے اور 1947 کے آخر میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
ہندوستان کے کچھ حکومتی اور فوجی حلقوں، خاص طور پر سردار پٹیل اور ہندو قوم پرست تنظیموں نے مطالبہ کیا کہ جب تک پاکستان جنگ ختم نہیں کرتا، تب تک اسے باقی 55 کروڑ روپے نہ دیے جائیں۔
گاندھی کا موقف اور بھوک ہڑتال
گاندھی جی کا نظریہ یہ تھا کہ ہندوستان کو اپنے وعدے کی پاسداری کرنی چاہیے اور اس مالی رقم کو روکنا اخلاقی طور پر غلط ہوگا۔
انہوں نے اس فیصلے کے خلاف 13 جنوری 1948 کو بھوک ہڑتال شروع کر دی، جس کا مقصد ہندو مسلم اتحاد اور امن کا قیام تھا۔
ہندوستانی حکومت نے دباؤ میں آکر 16 جنوری 1948 کو فیصلہ کیا کہ پاکستان کو 55 کروڑ روپے کی ادائیگی کی جائے گی
اس فیصلے پر ہندو قوم پرستوں، خاص طور پر نتھورام گوڈسے اور اس کے ساتھیوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا، کیونکہ وہ اسے ہندوستان کے قومی مفادات کے خلاف سمجھتا تھا
گوڈسے کے مطابق، گاندھی کا پاکستان کے حق میں 55 کروڑ روپے کی ادائیگی پر اصرار ملک کے ساتھ غداری کے مترادف تھا(3)۔
گوڈسے نے اپنے عدالتی بیان میں کہا کہ گاندھی ہمیشہ مسلمانوں کے حق میں نرم رویہ رکھتے تھے اور ہندو مفادات کو نقصان پہنچا رہے تھے۔
یوں تو گاندھی جی کے قتل میں کئی عوامل شامل تھے، لیکن 55 کروڑ روپے کی ادائیگی ایک اہم وجہ بنی، کیونکہ اس نے ہندو قوم پرستوں کے غصے کو بھڑکایا۔ گوڈسے اور اس کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ گاندھی کی پالیسیوں سے ہندوؤں کو نقصان ہو رہا ہے اور پاکستان کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔
3. ہندو قوم پرستی کی مخالفت
گاندھی کا فلسفہ عدم تشدد، سب کے لیے مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی تھا، جبکہ گوڈسے اور اس کے ساتھی ایک ہندو راشٹر کے قیام کے حامی تھے۔ انہیں لگا کہ گاندھی کے نظریات ہندو قوم پرستی کے خلاف ہیں اور ہندوؤں کو کمزور کر رہے ہیں۔
4. گاندھی جی کا مسلمانوں کے ساتھ نرم رویہ
گاندھی جی نے کئی مواقع پر مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا، مثلاً:
انہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ مذاکرات کیے۔
وہ مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کے سخت خلاف تھے اور ہندوؤں کو بھائی چارے کی تلقین کرتے تھے۔
انہوں نے کئی بار بھوک ہڑتال کر کے ہندو مسلم اتحاد کی اپیل کی، جسے کچھ ہندو انتہا پسند ہندوستان کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے(4)۔
5. ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کا کردار
نتھورام گوڈسے کا تعلق ہندو مہاسبھا سے تھا اور وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے بھی جڑا ہوا تھا۔ یہ تنظیمیں گاندھی کی پالیسیوں سے سخت نالاں تھیں اور انہیں ہندوؤں کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتی تھیں۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے توگاندھی کا قتل ایک انتہا پسند نظریے کے تحت کیا گیا، جس کی جڑیں فرقہ واریت اور قوم پرستی میں تھیں۔ اگرچہ وہ ہندوستان کی آزادی کے معمار تھے، لیکن کچھ لوگ انہیں ہندوستان کے قومی مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس قتل کے بعد گوڈسے کو گرفتار کر لیا گیا اور 15 نومبر 1949 کو اسے پھانسی دے دی گئی۔ گاندھی جی اصولوں کی راہ میں قتل ہو گیے لیکن انکا کا فلسفہ عدم تشدد اور محبت آج بھی دنیا میں زندہ ہے۔
حواشی :
( 1)Who Killed Gandhi” by Manohar Malgonkar (2008):
Page 184
(2) “Why I Killed Gandhi” by Nathuram Godse:
Page 2
(3)
in 1948 by a militant Nathuram Godse, on the basis of his ‘weak’ accommodationist approach towards the new state of Pakistan.” (p. 544)
(4)
Robinson؛ Michael York (2008)۔ Encyclopedia of Hinduism۔
Taylor & Francis۔ ص 544۔ ISBN:978-0-7007-1267-0۔ 2018-
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:
assassination of Gandhi
Todd, Anne M. (2012) Mohandas Gandhi, Infobase Publishing, ISBN 1-4381-0662-9, p. 8:
Mohandas K Gandhi, Autobiography chapter 1 (Dover edition,)
Renard, John (1999)۔ Responses to One Hundred and One Questions on Hinduism By John Renard۔ ص 139۔ ISBN:978-0-8091-3845-6
Fischer, Louis (1954)۔ Gandhi:His life and message for the world. Mentor
Tendulkar, D. G. (1951)۔ Mahatma volume 1. Delhi: Ministry of Information and Broadcasting, Government
of india
مصنف : از قلم زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں