ہم جنس پرستی کی حمایت کے لیے اسرائیلی حکومت کی وجوہات
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسرائیلی حکومت ہمیشہ سے فلسطین کے مقامی لوگوں کے ساتھ ناروا رویہ اپناتی رہی ہے جو اس بات کا سبب بنی کہ اسرائیل دنیا میں ایک نفرت بھرے چہرے کے عنوان سے پہچانا جائے۔ علاوہ از ایں، مقامی فلسطینی اس رژیم کے نسل پرستانہ اور طبقاتی اختلافات پر مبنی رویے کی وجہ سے رنج و الم اٹھا رہے ہیں۔ یہ امور اس بات کا باعث بنے کہ اسرائیلی حکومت ان مشکلات کو حل کرنے اور اپنے ناروا کردار پر پردہ ڈالنے نیز اپنے جمہوری چہرہ کو ظاہر کرنے اور عالمی دباو سے خود کو نجات دلانے کے لیے ہم جنس پرستی کی حمایت کرے۔
۔ یہودی معاشرے اور سیاسی نظام میں سیکولر فکر کے پھیلنے کی وجہ سے مذہبی افکار بے حد متاثر ہوئے اور ساتھ ساتھ دینی اور اخلاقی ادارے بھی کمزور ہوتے گئے۔ البتہ اس درمیان اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیلی سیاسی گروہ بھی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ مذہبی اور سیکولر گروہوں میں تعادل برقرار کرنے کے لیے جہاں مذہبی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں وہاں ہم جنس پرستی کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
۔ یہودی ریاست کی زیادہ تر توجہات مذہب کے بجائے قومیت پر ہیں لہذا یہ بات بھی باعث بنی ہے کہ دینی اور مذہبی حدود سے باہر نکل کر اسرائیلی حکومت، یہودی معاشرہ کے ہر مطالبے کو پورا کرے بھلے وہ مخالف دین و شریعت ہی کیوں نہ ہو۔
۔ ہم جنس پرستی کے رواج کی ایک وجہ اسرائیلی معاشرے کی مختلف النوع تشکیل بھی ہے جو مختلف ملکوں سے ہجرت کر کے آئے ہوئے یہودی باشندوں سے تشکیل پائی ہے۔ لہذا اس معاشرے میں پائے جانے والے افراد مختلف مزاج، مختلف ذوق اور الگ الگ ثقافت کے مالک لوگ ہیں۔
۔ اسرائیلی عہدیداروں کی ہم جنس پرستی کی نسبت غفلت اور اس ناشائستہ اور نازیبا عمل کے مرتکب ہونے والوں کے ساتھ کوئی قانونی کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے بھی دھیرے دھیرے یہ بیماری معاشرے میں پھیلتی گئی اور جب لوگوں کی کثیر تعداد اس کا شکار ہو گئی تو اسرائیلی حکومت کو اسے قانونی شکل دینا پڑی۔
۔ اور اہم ترین عامل اس بیماری کے پھیلاو میں خود اس کا قانونی جواز ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سیکولر معاشرہ بلکہ مذہبی معاشرہ بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
حواشی
۱ – https://www.yjc.ir/fa/news/4870797
۲- https://www.farsnews.com/news/13911201001077
۳- Magnose Hiresfield
۴- صفاتاج، مجید، دانشنامه صهیونیسم و اسرائیل، ج۶، تهران، آروَن، چاپ اول: ۱۳۸۸، ص۸۰۷-۷۹۴٫
تبصرہ کریں