ہندوستان میں بڑھتی نفرتوں کے درمیان امام حسین علیہ السلام کے تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت

زمانہ بدل سکتا ہے دنیا بدل سکتی ہے، وقت گزر سکتا ہے، مگر کربلا کا درس ہمیشہ زندہ و پایندہ رہے گا۔ اس لئیے کربلا صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ صبر، استقامت اور وفاداری کا وہ نصاب ہے جس کی ضرورت دنیا کو ہمیشہ رہے گی ۔

فاران: 3شعبان کی تاریخ اپنے دامن میں اس یادگار لمحے کو سنبھالے ہوئے ہے جب اس کائنات میں ایک ایسی شخصیت نے عالم ظاہر میں قدم رکھا جس کی عظیم الشان قربانی نہ ہوتی تو دنیا میں آج حق کے لئے بولنے والوں کی تعداد اتنی بھی نہ ہوتی جتنی ہے
اقتدار پرستوں کی منشاء ہی حق کہلاتی انکا طرز حکومت ہی انصاف۔ یہ دنیا کے کونے کونے میں انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کی جانب سے حق کے لئے مر مٹنے اور امن و انصاف کی خاطر قربان ہو جانے کا جذبہ اس عظیم ہستی کا رہین منت ہے جسے ہم حسین ع کہتے ہیں ۔
وہ حسین ع جنہیں ہم تو پہچانتے ہیں لیکن دنیا کا زیادہ ترحصہ انکے عظیم مقاصد اور امن و انصاف کے لئے انکی قربانیوں سے ناآشنا ہے۔

* سید الشہدا ع کے تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت

یوں تو دنیا بھر میں سید الشہدا ء کی عظیم قربانیوں اور انکی شخصیت کے مختلف پہلووں کو پیش کرنے کی ضرورت ہے لیکن خاص کر اس ملک میں جہاں ہم رہتے ہیں آج ہر دور سے زیادہ ” ابا الاحرار” کی شخصیت کو پیش کرنے انکے تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہندوستان، جو صدیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے، آج مختلف قسم کی فرقہ وارانہ منافرت اور تعصبات کا سامنا کر رہا ہے۔ عدم برداشت، نفرت انگیزی اور باہمی اختلافات کا جو زہر سماج میں سرایت کر ہوتا جا رہا ہے وہ نہ صرف قومی یکجہتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ انسانیت کی بنیادی اقدار کے بھی خلاف ہے۔ ایسے میں امام حسین ع کے تعلیمات کو عام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اس لئےکہ ان کی زندگی صبر، عدل، مساوات، اور قربانی کا عملی نمونہ ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بغیر ایک کثیر اللسانی و کثیر المذاہب سر زمین پر گزارا ممکن نہیں ۔

* حسین چراغ ہدایت
معروف حدیث ہے : حسین ع چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہیں اب اگر چراغ کو کسی خاص قوم و مذہب سے مخصوص کر دیا جائے کشتی کو خاص مذہب کے ماننے والوں سے مخصوص گردانا جائے تو پھر دنیا کے اندھیروں کے کیسے ختم کیا جائے گا ظلم و ستم کے طوفان میں ڈوبتی بشریت کو نجات کیسے ملے گی ؟ یقینا امام حسین ع نے کربلا میں جس موقف کو اختیار کیا، وہ کسی مخصوص مذہب، قوم یا طبقے کے لیے نہیں تھا، بلکہ انسانیت کے آفاقی اصولوں کا دفاع تھا۔ آپ نے یزید جیسے ظالم و جابر کے سامنے سر جھکانے کے بجائے حق اور سچائی کی خاطر جان قربان کر کے بتایا جان بہت قیمتی ہے لیکن اس سے قیمتی جان کا حق کی راہ میں جانا قیمت رکھتا ہے ورنہ زندگی لا یعنی ہے ۔
آپ کا حق کے لئے لڑنے کا عزم آپکا انسانیت کے تحفظ کے لئے عظیم کردار آج کے ہندوستان میں امن اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتا ہے اگر ہم اسے بجا طور پر لوگوں کے درمیان پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں آپکے عظیم الشان پر بار زندگی سے ہم اگر کچھ گراں قیمت گوہروں کو اپنے دامن سمیٹنا چاہیں جن کی ہمارے ملک کو آج سخت ضرورت ہے تو یہ ہو سکتے ہیں

1. حق کے لیے کھڑا ہونا

امام حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ ظلم و جبر کے خلاف خاموش رہنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ آج ہندوستان میں اقلیتوں، کمزور طبقات اور دبے کچلے افراد کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان کے حل کے لیے حسینیت کی پیروی ناگزیر ہے۔ اگر لوگ حق اور انصاف کی حمایت کریں تو معاشرے میں مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔

2. فرقہ واریت کے خلاف حسینیت

امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک فرقے یا مذہب کے لیے نہیں تھی، بلکہ ہر اس انسان کے لیے تھی جو سچائی، محبت اور مساوات پر یقین رکھتا ہے۔ کربلا میں آپ کے ساتھ عیسائی اور دیگر مکاتب فکر سے متعلق افراد بھی موجود تھے جنہوں نے آپ کی ہدایت کی روشنی میں اپنا مزاج توحیدی بنا لیا بعض جگہوں پر حسینی برہمنوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ہندو تھے لیکن آپ کی نصرت کے لئیے کربلا پہنچے اور آج بھی خود کو حسینی کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ( حسینی برہنموں اور کربلا کی طرف انکی روانگی کا معاملہ تشنہ تحقیق ہے ) ہاں اتنا ضرور ہے کربلا میں دیگر اقوام و ملل کے نامی گرامی افراد شامل تھے جنکا پہلے عقیدہ کچھ تھا لیکن سید الشہداء کے ہدایت کے چراغ نے انکے صفحہ دل کو اتنا نورانی کر دیا کہ وہ اپنا مذہب و نظریہ چھوڑ کر حسینی طرز فکر اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے جیسے جناب زہیرقین ، جناب وہب کلبی حر و ۔۔۔
مختلف نظریات کے حامل افراد کا اپنے اپنے نظریوں کو چھوڑ کر خیمہ حسین ع میں آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حسینیت کسی مخصوص مذہب کی جاگیر نہیں بلکہ ایک عالمی پیغام ہے۔ یہ جس طرح یزیدیت کے منھ پر طمانچہ ہے فرقہ واریت و نفرتوں کے منھ پر بھی طمانچہ ہے ۔

3. صبر اور رواداری کا درس

امام حسینؑ نے کربلا میں صبر کی جو مثال قائم کی، وہ ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت کے ساتھ ساتھ تحمل اور رواداری بھی ضروری ہے۔ ہندوستان میں موجود مذہبی اور سماجی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب حسینی صبر اور رواداری کو اپنا وطیرہ بنائیں

4. انسانی حقوق اور مساوات کا پیغام

امام حسین ع نے نہ صرف یزید کی تانا شاہی کے خلاف آواز بلند کی بلکہ بلکہ غلاموں، مظلوموں اور کمزور افراد کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کی اس لئے کہ آپ اس نظام ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جو کمزوروں کو دبانے میں اپنی جیت سمجھ رہا تھا مظلوموں پر ظلم کو اپنی فتح آپ نے اپنی عظیم الشان قربانی سے فتح و شکست کا معیار ہی بدل دیا اور دنیا پر واضح کیا اصل فتح مقصد کو بچا لے جانے والے کی ہوتی ہے قاتل کی نہیں ۔
آج ہندوستان میں ذات پات، مذہب، اور زبان کی بنیاد پر جو تفریق برتی جا رہی ہے، اسے ختم کرنے کے لیے ہم سب کو حسینیت کے پیغام کو اپنانا ہوگا، جو سب کے لیے مساوات اور انصاف کی ضمانت ہے۔

ہندوستان میں حسینیت کو عام کرنے کی ضرورت کیوں؟۔۔۔۔

آج ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو دنیا کی سترہ فیصد آبادی کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے
یکم جنوری 2025 کو دنیا کی مجموعی آبادی تقریباً 8 ارب 9 کروڑ 20 لاکھ 34 ہزار 511 تھی۔
جبکہ جولائی 2024 تک، ہندوستان کی آبادی تقریباً 1 ارب 41 کروڑ بتائی گئی ہے، جو عالمی آبادی کا تقریباً 17.4 فیصد بنتا ہے۔
کیا اتنی بڑی آبادی بغیر حسینی تعلیمات کے ترقی کی راہوں کو امن و بھائی چارے کے ساتھ طے کر سکتی ہے؟
اس لئے ضروری ہے اس فلسفہ حیات کو پیش کیا جائے جہاں “میں” کی جگہ “وہ” ہو اتنی بڑی آبادی اگر “میں” “میں” کی جنگ میں شریک ہو گئی تو کیا ہوگا سب پر واضح ہے
لہذا پورے ملک میں امام حسین ع کے فلسفے کو عام کرنے کی ضرورت ہے وہ فلسفہ جو ہر طرح کی “میں ” کی نفی کر کے ہرچیز کو “رب” سے جوڑتا ہے یہی اس ملک کے لئے وہ نسخہ کیمیا ہے جس پر عمل ہو جائے تو یہ ملک نفرت اور فرقہ واریت کے اندھیروں سے نکل کر ایک پُرامن، ہم آہنگ اور متحد سماج کی طرف بڑھ سکتا ہے اس لئے کہ

حسینیت کا مطلب ہے:

ہر مظلوم کی حمایت اور ہر ظالم کی مخالفت

-ہر مذہب، فرقے اور قوم کے درمیان اتحاد کا قیام

-ظلم، ناانصافی اور تعصب کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنا

-مساوات اور بھائی چارے کو فروغ دینا
اور حسین ع

-حسین ع 61 ہجری میں ظلم کے خلاف پہاڑ کی طرح کھڑے ہونے والے فرزند زہرا و علی سلام اللہ علیہھما کا نام نہیں، بلکہ صبر، قربانی اور حق کی لازوال پہچان کو حسین ع کہتے ہیں
-حسین ع اللہ کی اس کائنات میں اسکے حسن و جمال کی بہترین منظر کشی “کربلا” کی شکل میں کرنے والے اس مصور کا نام ہے جس نے اپنے لہو سے تصویر کربلا میں ایسا رنگ بھرا کہ آدم سے لیکر اب تک اسکا کوئی جواب نہ کوئی لا سکا نہ لا سکتا ہے ۔ وہ کربلا جو درسگاہِ عشق ہے، جہاں حسین ع نے ہمیں جینا سکھایا۔

-حسینؑ وہ چراغ ہے جو رہتی دنیا تک حق کے متلاشیوں کو راستہ دکھاتا رہے گا حتی دشمنوں کے لئیے بھی راستوں کو روشن رکھے گا کہ لوگ ” حر” بنتے رہیں اور نجات پاتے رہیں
-حسین ع وہ ذات ہے جس نے زمینوں پر نہیں دلوں پر قبضہ کرنے کا ہنر سکھایا یزیدیت ممکن ہے طاقت میں رہے زمینوں اور ملکوں کو طاقت کے پل پر روند دے کسی کا گھر اجاڑ دے کسی کی زمیں پر قبضہ کر لے مگر حسینیت ہمیشہ دلوں پر راج کرے گی۔

-حسین ع نے کربلا میں اپنی جان دے کر ہمیں یہ سکھایا کہ حق کے لیے مرنا، باطل کے ساتھ جینے سے بہتر ہے۔
-حسین ع کی محبت وہ روشنی ہے جو ہر اندھیرے کو ختم کر کے دلوں تابندگی عطا کرتی ہے۔
-حسین معمار کربلا کا نام ہے
زمانہ بدل سکتا ہے دنیا بدل سکتی ہے، وقت گزر سکتا ہے، مگر کربلا کا درس ہمیشہ زندہ و پایندہ رہے گا۔ اس لئیے کربلا صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ صبر، استقامت اور وفاداری کا وہ نصاب ہے جس کی ضرورت دنیا کو ہمیشہ رہے گی ۔
حسین ع کی یہ قربانی قیامت تک مظلوموں کی ڈھال بنی رہے گی۔
سو امام حسینؑ کی تعلیمات ہندوستان جیسے متنوع ملک کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اگر ان کے صبر، قربانی اور انصاف کے اصولوں کو اپنایا جائے، تو فرقہ وارانہ منافرت کا خاتمہ ممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم امام حسین ع کے پیغام کو فرد فرد تک پہنچائیں، تاکہ ہندوستان ایک بار پھر امن و محبت کا گہوارہ بن سکے۔ حسینیت کسی ایک فرقے یا قوم کی میراث نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے روشنی کا مینارہ ہے، اور اس روشنی کو عام کرنا آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔