اسرائیل کا ڈوبتا ہؤا ستارہ؛ ۷

یعقوب شاریت اسرائیل گناہ کی پیداوار ہے

میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم نے اس وقت عرب اسرائیل جنگ کی داستان گھڑ لی جب صہیونیت یہودیوں کو مقبوضہ سرزمین میں آنے کی دعوت دے رہی تھی۔ ہم نے یہ جعلی داستان گھڑ لی تا کہ قوم یہود کے لئے ایک متحدہ سرزمین اور ایک خودمختار ملک کا انتظام کر سکیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

عرب پوسٹ نے لکھا کہ جس شخص کے باپ (موشے شاریت) نے پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ کے طور پر اسرائیل کی تاسیس کے اعلامیے پر دستخط کئے تھے اپنی زندگی کے آخری دنوں سے گذر رہا ہے جبکہ وہ ایک صہیونیت دشمن اور اسرائیل دشمن کہلا سکتا ہے۔ وہ ارض موعود! کی طرف یہودیوں کی ہجرت کو غلط سمجھتا ہے اور لوگوں کو مقبوضہ فلسطین سے چلے جانے کا مشورہ دے رہا ہے اور صہیونی ریاست کے لئے تاریک دنوں کی پیش گوئی کر رہا ہے اور ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کر رہا ہے۔
عارضی ریاست کے پہلے وزیر خارجہ کے بیٹے کے خیالات بھی بہت دلچسپ ہیں۔ سنہ 1948ع‍ میں جعلی اسرائیلی ریاست کی تاسیس کے اعلامیہ پر دستخط کرنے والے، اسرائیل کے پہلے [بانی] وزیر خارجہ اور دوسرے وزیر اعظم موشے شاریت (Moshe Sharett) کے بیٹے 95 سالہ یعقوب شاریت (Yaakov Sharett) – جو اس وقت صہیونیت دشمنی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ـ نے کہا ہے کہ “اسرائیل کی پیدائش ایک گناہ کا نتیجہ اور یہ ناجائز کھوکھ سے ناجائز اولاد کے طور پر متولد ہؤا ہے! میں ایک مجرم ریاست کے ساتھ تعاون کرتا رہا ہوں۔۔۔ ہم تلوار کے زور پر جی رہے ہیں۔۔۔ میں اسرائیل کے مستقبل کو بہت زیادہ تاریک سمجھتا ہوں اور ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کرتا ہوں۔۔۔ یہودیوں پر لازم ہے کہ مقبوضہ فلسطین کو چھوڑ کر چلے جائیں، فلسطین میں ان کے لئے روشن مستقبل کی کوئی امید نہیں ہے۔
یعقوب شاریت جو اسرائیل کی تاسیس سے قبل صہیونیوں کی ریپڈ رسپانس بریگید کے رکن تھے اور دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج کی یہودی بریگیڈ میں جرمنی کے خلاف لڑے ہیں اور کیبٹز گروپ (Kibbutz) کے قیام میں حصہ لے چکے ہیں، اور شاباک (Shabak or the Shin Bet) اور نیٹِو (Native) کے رکن رہے ہیں، نے صہیونی اخبار ہاآرتص کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے تصریح کی ہے کہ صہیونی ریاست ایک ناجائز مولود ہے جس نے ایک گنہگار کھوکھ سے جنم لیا ہے۔
اسرائیل کا مستقبل
شاریت کا کہنا تھا کہ یہ سب سے پہلا گناہ ہمیں ستا رہا ہے اور یہ ہمیشہ ہمارا تعاقب کرتا رہے گا اور اس کا سایہ ہمارے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ ہم اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ اب خوف کی صورت میں ہمارے اندر منتقل ہؤا ہے اور یہ ہماری زندگی میں مختلف شکلوں میں آشکار ہوجاتا ہے اور یہ ہمیشہ کے لئے راکھ تلے آگ کے مترادف ہے۔
میں 95 سال کا آدمی ہوں اور سکون کے ساتھ اس عمر تک پہنچا ہوں، میری مالی حالت مناسب ہے لیکن میں مستقبل اور اپنے پوتوں اور اپنی اگلی نسلوں کے انجام سے خوفزدہ ہوں۔
میں ایک مجرم ریاست (اسرائیل) کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہؤا ہوں؛ میں مقبوضہ سرزمین میں رہتا ہوں اور میرے پاس جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں اور ظلم و ستم کی وجہ سے نقل مکانی بھی نہیں کر سکتا، یہ میرے لئے تکلیف دہ ہے اور یہ اعتراف ایک لمحے کے لئے مجھ سے دور نہیں ہوتا۔ اس بات کا اعتراف کہ اسرائیل ایک ایسی غاصب ریاست ہے جو دوسرے لوگوں پر حملہ اور جارحیت کرتی ہے۔
شاریت نے کہا: قوم یہود کی زندگی المناک ہے، یہودی وہ لوگ ہیں جو مطیع نہیں ہیں اور ایک حکومت اور ریاست کے تحفظ کا گر نہیں جانتے، چنانچہ یہ لوگ ہمیشہ ایک قومی حیات سے محروم تھے، بلکہ ہمیشہ محروم اور قابل نفرت اقلیت کے طور پر – بغیر کسی ادارے اور تنظیم کے- جیتے رہے ہیں۔
متبادل وطن
میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم نے اس وقت عرب اسرائیل جنگ کی داستان گھڑ لی جب صہیونیت یہودیوں کو مقبوضہ سرزمین میں آنے کی دعوت دے رہی تھی۔ ہم نے یہ جعلی داستان گھڑ لی تا کہ قوم یہود کے لئے ایک متحدہ سرزمین اور ایک خودمختار ملک کا انتظام کر سکیں۔
صہیونیت کا نظریہ یہ تھا کہ ایک ایسی سرزمین پر قدم رکھے جس کی باگ ڈور کسی دوسری قوم کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہودیوں سے بالکل مختلف مذہب کی پیروی کرتے ہوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے دنیا کے کسی بھی حصے میں دیکھا ہے کہ ایک جارحیت زدہ قوم نے ایسے غیر ملکی حملہ آوروں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہوں جو دعوی کرتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد یہاں رہتے تھے! اور پھر وہ [غیر ملکی] ان کی سرزمین میں داخل ہوئے ہوں اور اس پر حکومت کرنا چاہتے ہوں اور اس قوم نے ان کی خواہش سے اتفاق کیا ہو؟ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے جرم کا ارتکاب کیا اور ایک پرائی سرزمین پر قبضہ کیا اور جنگ آج بھی جاری ہے اور اس جنگ کی جڑیں اسرائیل کی تشکیل میں جا ملتی ہیں؛ لیکن صہیونیت نے اس حقیقت کا انکار کیا اور اس کی نفی کی۔ [لیکن ان کے انکار سے جنگ رکی نہیں بلکہ شدت اختیار کرتی رہی اور آج اس خطرناک مرحلے پر پہنچ گئی ہے]۔
فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کےبعد یہودیوں کی آبادی میں [غیر ملکی یہودیوں کی وسیع نقل مکانی کی وجہ سے] تیزی سے اضافہ ہؤا۔ عربوں نے دیکھ لیا کہ ان کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور یہ سب یہودیوں کے مفاد میں ہے، تو ایسی صورت حال کو کون برداشت کرسکتا ہے اور کون اس سے متفق ہو سکتا ہے؟ یہی وجوہات ہی جن کی بنا پر 1920ع‍، 1921ع‍، 1929ع‍، 1936ع‍ سے 1939ع‍ تک تشدد آمیز جھڑپیں اور بغاوتیں ہوئیں اور اس کے بعد ہر جنگ کے بعد دوسری جنگ آئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
بہت سے لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس سرزمین (فلسطین) کے حقدار ہیں، کیونکہ عرب ہمیں یہاں آنے سے روک سکتے تھے لیکن وہ ہمیں نہیں روک سکے اور سب کچھ اچھے انداز سے آگے بڑھ رہا تھا لیکن جنگوں کا آغاز عربوں نے کیا تو اب ان کو شکایت کا حق حاصل نہیں ہے! لیکن میں اس کے باوجود عرب اکثریت کی اقلیت میں تبدیلی اور یہودی اقلیت کی اکثریت میں تبدیلی کو ایک غیر اخلاقی عمل سمجھتا ہوں۔
بے شک اگر اسرائیلی ریاست بری ہے تو میں بھی برا ہوں کیونکہ میں ہنوز اس ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہوں؛ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ صہیونیت نے اپنے لوگوں کو جو وعدے دیئے تھے وہ وعدے مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں اور وہ یہودی قوم کو خونرزی، قتل و غارت اور تشدد کی راہ میں استعمال کررہی ہے۔
آخری بات
میں زور دے کر کہتا ہوں کہ جو پرچم آج ہماری سرزمین (مقبوضہ فلسطین) پر لہرا رہا ہے، یہ ایک خواب کی علامت تھا، لیکن اسرائیل آج تلوار کی دھار پر جی رہا ہے اور میں اس کے تمام جہتوں اور پہلؤوں سے دور اور بیزار ہوں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔