یمن کی عسکری کاروائیاں واشنگٹن اور تل ابیب کے لیے ایک بڑا انتباہ

من کے فوجی آپریشنز، چاہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کو ناکام بنانے والے آپریشنز ہوں یا تل ابیب کے قلب میں مسلسل میزائل حملے، دشمنوں کے لیے کئی اسٹریٹجک پیغامات کے حامل ہیں۔ یہ کاروائیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یمن اپنی مزاحمتی حکمت عملی دشمن پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یمن کے فوجی آپریشنز، چاہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کو ناکام بنانے والے آپریشنز ہوں یا تل ابیب کے قلب میں مسلسل میزائل حملے، دشمنوں کے لیے کئی اسٹریٹجک پیغامات کے حامل ہیں۔ یہ کاروائیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یمن اپنی مزاحمتی حکمت عملی دشمن پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
تسنیم نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق، یمن، جو لبنان کی حزب اللہ کے بعد مزاحمتی محور کا دوسرا بڑا محاذ ہے، گزشتہ ایک سال سے فلسطینی عوام اور غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی حمایت میں “طوفان الاقصی” جنگ میں شامل ہے۔ یمن نے غزہ کی حمایت کے اپنے مؤقف سے کبھی پیچھے قدم نہیں ہٹایا، جب تک کہ صہیونی ریاست کی غزہ پر نسل کشی کی جنگ رک نہ جائے۔
یمن نے صہیونی ریاست کی بحری ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف اپنے میزائل اور ڈرون حملے بھی جاری رکھے ہیں، اور حالیہ دنوں میں یہ حملے اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔

یمن کے میزائل حملے: تل ابیب کے قلب میں مسلسل کارروائیاں

یمن کی جانب سے مقبوضہ فلسطین، خاص طور پر تل ابیب پر گزشتہ ایک ہفتے کے دوران میزائل حملوں کی تعداد پانچ تک پہنچ چکی ہے۔ عبرانی ذرائع کے مطابق، یمن کے ان حملوں نے تل ابیب میں لاکھوں اسرائیلیوں کے لیے پناہ گاہوں میں بھاگنے کو ایک معمول اور بار بار دہرایا جانے والا واقعہ بنا دیا ہے۔

اسی تناظر میں، گزشتہ کل ہی یمنی مسلح افواج کے ترجمان یحییٰ سریع نے ایک بیان میں صبح کے ابتدائی گھنٹوں میں تل ابیب پر میزائل حملے کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ یمن کی میزائل یونٹ نے مقبوضہ یافا (تل ابیب) میں ایک صہیونی فوجی مرکز کو “فلسطین 2” ہائپرسونک میزائل سے نشانہ بنایا، اور یہ حملہ اپنے تمام اہداف کو کامیابی سے حاصل کر گیا۔

یحییٰ سریع نے اپنے سابقہ ​​بیانات کی طرح اس بار بھی تاکید کی: “یمن کی جانب سے صہیونی حکومت کے خلاف فوجی کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک کہ غزہ پر جارحیت، نسل کشی کی جنگ، اور اس کا محاصرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا۔ اس سے پہلے یہ کارروائیاں نہیں رکیں گی۔”
علاقائی امور کے مبصرین کا کہنا ہے کہ یمن نے جو مثال پیش کی ہے وہ عرب دنیا کے لیے باعثِ فخر ہونی چاہیے۔ یہ ملک، جو امریکی-عرب جارح اتحاد کے ساتھ آٹھ سال سے زیادہ جنگ کے باوجود مختلف سطحوں پر خاص طور پر اقتصادی طور پر شدید دباؤ کا سامنا کرتا رہا، اب بھی ایک سال سے زیادہ کے عرصے سے مظلوموں کے دفاع کی جنگ کے مرکز میں کھڑا ہے۔ یمن کسی بھی بڑی طاقت، بشمول امریکہ، برطانیہ، اور ان کے اتحادیوں کی دھمکیوں کی پروا نہیں کرتا۔

یمن کی فوجی طاقت کے سامنے امریکہ کا بڑا چیلنج

ایک نئی پیشرفت میں، جو خطے میں امریکی افواج کے سامنے موجود چیلنجوں کی شدت کو ظاہر کرتی ہے، چند روز قبل یمن کی فضائی حدود میں بحیرہ احمر کے اوپر ایک امریکی جنگی طیارہ مار گرایا گیا۔ اس واقعے کے بعد، امریکہ کو ایک تشویشناک اور شرمناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ واشنگٹن نے اس واقعے کو یمن کی فوجی طاقت سے منسلک نہ کرنے کی کوشش کی، لیکن یمنی مسلح افواج کے ترجمان یحییٰ سریع نے اتوار کے روز ایک رسمی بیان میں اعلان کیا کہ:
“یمنی مسلح افواج نے امریکی طیارہ بردار بحری جہاز ‘یو ایس ایس ہیری ٹرومین’ اور امریکہ و برطانیہ کے متعدد جنگی جہازوں کو نشانہ بنایا اور ان کے یمن پر حملے کو ناکام بنا دیا۔”
یحییٰ سریع نے مزید کہا: “اس کارروائی کے دوران ایک امریکی ایف-18 جنگی طیارہ اس وقت مار گرایا گیا جب وہ یمنی ڈرونز اور میزائلوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کارروائی کے بعد دشمن کے زیادہ تر جنگی طیارے یمن کی فضائی حدود سے نکلنے پر مجبور ہو گئے۔”

یمن کی کارروائیوں کا امریکی محور کے خلاف اسٹریٹجک پیغام

یہ ایسے وقت میں ہے جب یمن کے میزائل حملے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مقبوضہ فلسطین کے اندر تک صہیونیوں کو حیران کر چکے ہیں۔ صہیونی حکومت کے مہنگے اور کثیر سطحی دفاعی نظام، جو امریکی دفاعی نظاموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، یمنی میزائلوں کے سامنے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں، یمن کی حالیہ کارروائیوں کی اسٹریٹجک اہمیت پر روشنی ڈالنا ضروری ہے، چاہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کے خلاف ہوں یا اسرائیل کے خلاف میزائل حملے:

1. یمن کا دفاع سے حملے کی طرف سفر: یمن نے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف دفاعی پوزیشن پر نہیں ہے بلکہ ایک ایسی طاقت بن چکا ہے جو دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتا ہے اور اپنی مزاحمتی صلاحیت کو مضبوطی سے قائم رکھ سکتا ہے۔

2. منظم میزائل اور ڈرون آپریشنز: یمن کی جانب سے امریکی اور برطانوی افواج کے خلاف بیک وقت منظم میزائل اور ڈرون حملے یمن کی عسکری حکمت عملی اور حربی مہارت میں نمایاں پیش رفت کا مظہر ہیں۔

3. سمندری جنگ میں نیا رجحان: یمن کے امریکی بحری بیڑے پر حملے نے عالمی جغرافیائی سیاست میں سمندری جنگ کے تصور میں ایک بڑی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔

4. امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کے لیے چیلنج: یمن کی یہ کارروائیاں امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کے خلاف یمن کی مؤثر مزاحمت کو ظاہر کرتی ہیں، جس نے امریکہ کو ایک اسٹریٹجک چیلنج میں ڈال دیا ہے، خاص طور پر جب تین امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یمن کے آپریشنل علاقے سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔

5. امریکی بالادستی کے خاتمے کا اشارہ: یمن کی یہ کامیابیاں اس بات کی واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کے دور کا خاتمہ قریب ہے اور شاید اس خطے پر امریکہ کی بالادستی بھی اختتام پذیر ہو رہی ہے۔

یمن کے فلسطین کے مقبوضہ علاقے میں فوجی کارروائیوں کا پیغام

یمن کے تخلیق کردہ حالات صرف سمندری واقعات اور امریکہ و برطانیہ کے حملوں کی ناکامی تک محدود نہیں ہیں؛ بلکہ یمن کی مسلح افواج نے سپر سونک میزائلوں کے ذریعے فلسطین کے مقبوضہ علاقے کے مرکز، یعنی تل ابیب کو نشانہ بنا کر، اور اسرائیلی دفاعی نظام کی آنکھ سے اوجھل رہ کر خاص طور پر حالیہ دنوں میں جو حملے کیے ہیں، وہ یمن کے لیے اسٹریٹجک سطح پر ایک بڑی کامیابی شمار ہوتے ہیں۔

یمن کی حالیہ میزائل کارروائیاں اس بات کی واضح علامت ہیں کہ یمن نے انٹیلی جنس اور فوجی ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں ترقی کی ہے۔ یہ حقیقت کہ یمن سپر سونک بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے تل ابیب کے قلب کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اسرائیل کے کثیر سطحی دفاعی نظام کو عبور کر سکتا ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ یمن ایک علاقائی مزاحمتی طاقت کے طور پر ابھرا ہے، جو امریکہ اور اسرائیل کی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے۔

اسی سلسلے میں، صہیونی حکام یمن کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیتوں کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، یمن نے 12 ماخ سے زیادہ رفتار والے سپر سونک میزائل تیار کیے ہیں، ایک ایسی ٹیکنالوجی جسے امریکہ بھی حاصل نہیں کر سکا۔

یمن کی حالیہ فوجی کارروائیاں، خصوصاً صہیونی حکومت کے خلاف، بڑی طاقتوں کے لیے ایک واضح پیغام ہیں کہ یمن نہ صرف اپنی سرزمین کی حفاظت کے قابل ہے بلکہ کسی بھی جارحیت کے خلاف سخت جواب دے سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں سید عبدالملک بدرالدین الحوثی کے اس بیان کی عملی تصدیق ہیں کہ یمن امریکی-صہیونی محور اور ان کے اتحادیوں کی کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یمن کی ان فوجی کارروائیوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یمن کسی بھی دشمن کے لیے آسان ہدف نہیں ہے اور اپنے دشمنوں کو ان کی جارحیت کا بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
یمن، جو آٹھ سال سے زیادہ عرصے تک امریکی-عربی اتحاد کی سخت جارحیت اور محاصرے کا سامنا کر رہا تھا، آج اپنی عزت، خودمختاری، اور طاقت کے ساتھ کھڑا ہے۔ یمن کا یہ کردار عرب دنیا کے لیے فخر کا باعث ہے، اور عرب حکومتوں کو یمن کے شجاعانہ موقف سے سبق لینا چاہیے، خاص طور پر ان حکومتوں کو جو صہیونیوں کے ساتھ تعلقات قائم کر کے فلسطینی کاز سے خیانت کر رہی ہیں۔
جب بہت سے عرب ممالک نے فلسطین کی حمایت کا صرف دعویٰ کیا لیکن عملی طور پر انہوں نے خیانت کی، یمن نے خود کو ایک اہم عرب فوجی طاقت اور ایک حقیقی اصولی موقف کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ عرب دنیا کی قیادت کا حق یمن کو حاصل ہے، نہ کہ ان ممالک کو جو صہیونی قابضین کے ساتھ خفیہ یا علانیہ تعلقات رکھتے ہیں۔
آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک بڑی اسٹریٹجک مشکل میں پھنس چکے ہیں، اور یمن کی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ واشنگٹن اور تل ابیب کے لیے امکانات کو محدود کر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں امریکی-صہیونی محور کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ یمن اور غزہ کے حوالے سے اپنی فوجی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ کیونکہ غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا تسلسل اس حکومت اور اس کے حامیوں کے لیے بھاری قیمت کا سبب بنے گا۔

www.tasnimnews.com/fa/news/1403/10/05/3225846/