یورپ؛ جنگ خیز براعظم / یورپی جنگوں کی مختصر تاریخ

اگرچہ دنیا کے تمام نظآمات پر ان ہی کا قبضہ ہے جو اسے تباہ کررہے ہیں اور اقوام متحدہ بھی ان ہی ممالک کی باندی کا کردار ادا کرنے پر مامور و مجبور ہے؛ چنانچہ عالمی اداروں کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے توقع کی جاتی ہے کہ امن پسند ممالک آگے بڑھیں متفقہ کوششوں اور ضروری اقدامات کے ذریعے دنیا بھر میں جنگ کے منفی اثرات کم کرنے کی سعی کریں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اگرچہ یورپ میں ہلاکت خيزوں کا پرانا سلسلہ 1950ع‍ کے عشرے میں بند ہؤا لیکن یورپی حکمرانوں نے اپنے ہی عوام پر ظلم و ستم اور اندرونی اور بیرونی سطحوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھا اور بیسویں صدی عیسوی یورپ میں تشدد کی صدی قرار پائی۔
رہبر انقلاب امام خامنہ ای (رحمہ اللہ) نے مورخہ 28 مئی سنہ 2022ع‍ کو مجلس شورائے اسلامی (پارلیمان) کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “یورپ دنیا بھر میں سب سے زیادہ جنگیں جنم دینے والا خطہ ہے، میں اپنی تحقیق و مطالعے کی رو سے – جو ممکن ہے کہ زیادہ مکمل بھی نہ ہو – دنیا میں کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں پہچانتا جس میں یورپ جتنی جنگیں لڑی گئی ہوں، دنیا کے کسی بھی نقطے میں بھی [ایسا] نہیں [ہؤا ہے] یورپ بنیادی طور پر جنگیں جنم دینے والا خطہ ہے”۔ 28 مئی سنہ 2022ع‍
یورپی جنگوں کے پس منظر پر غور کیا جائے تو ہخامنشی عہد میں ایران پر یونانی حملے کو اگرچہ یورپی-ایشیائی جنگ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سنہ 800ع‍ سے سنہ 1050ع‍ تک رومی سلطنت کی تین صدیوں پر محیط جنگ، یورپ میں ہونے والی جنگوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگرچہ شام اور بین النہرین کے مسلمان بھی مشرقی روم کی جنگجویانہ سرگرمیوں سے محفوظ نہیں تھے۔ اس زمانے میں یورپ سے اٹھنے والی جنگیں کشور کشائی اور عیسائیت کی ترویج کی غرض سے شروع ہوئیں۔
سنہ 1337ع‍ میں برطانوی بادشاہ ایڈورڈ سوئم نے اپنی عملداری کی توسیع کے لئے فرانسیسی بادشاہ فلپ ششم کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ ایڈورڈ اپنے آپ کو فرانس کا مالک سمجھتا تھا اور اسی بنا پر ان دو یورپی ممالک کے درمیان 116 سالہ جنگوں کا آغاز ہؤا۔ اس طویل جنگ میں برطانویوں نے کریسی، پوٹیئرز، اگینکورٹ (Crécy, Poitiers, Azincourt) کے علاقوں میں فتح حاصل کی؛ لیکن فرانسیسیوں نے جوآن آف آرک یا ژان ڈارک (Jeanne d’Arc) کی کمان میں حملہ کرکے انگریز یلغاریوں کو سنہ 1453ع‍ میں مار بھگایا۔
سنہ 1095ع‍ میں مذہبی جنگوں کے آغاز پر پوپ اربن دوئم (Pope Urban II) نے یورپی عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف اٹھان پر مجبور کیا اور انہیں حکم دیا کہ فلسطین کے شہر اورشلیم (بیت المقدس) کو مسلمانوں سے آزاد کرائیں۔ اسی سال اربن دوئم ایک عظیم لشکر تیار کرکے پہلی صلیبی جنگ کے لئے نکلا۔ ہزاروں صلیبی جنگجو مارے گئے۔ گوکہ چار سال بعد سنہ 1099ع‍ میں صلیبی یلغاریوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا۔ سنہ 1099ع‍ سے 1250ع‍ تک مبینہ طور پر عیسائیت کی ترویج کے لئے چھ مزید صلیبی جنگیں لڑی گئیں اور عیسائی حملہ آوروں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امن پسندی اور صلح جوئی کو نظر انداز کیا۔
مذہبی جنگیں پھر بھی جاری رہیں اور فرانس میں سنہ 1562ع‍ اور 1598ع‍ کے درمیان کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان خونریز جنگیں ہوئیں۔ یہ جنگیں در حقیقت فرانس کے اشرافیہ خاندانوں – بوریون خاندان اور گیز خاندان – کے درمیان شروع ہوئیں اور اگرچہ جانی نقصان کی صحیح تعداد اور ان جنگوں کا دورانیہ مکمل طور پر واضح نہيں ہے لیکن مؤرخین نے ان جنگوں میں ہلاکت کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے۔
یورپ کی 30 سالہ جنگ بھی 1618ع‍ سے 1648ع‍ کے درمیان لڑی گئی۔ یہ جنگ سلطنت روم کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان مذہبی جنگ تھی۔ اس جنگ میں براہ راست ہلاکتوں اور قحط اور بیماریوں کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 80 لاکھ تک پہنچی۔ یہ جنگ انسانی تاریخ کی طویل ترین اور وحشیانہ ترین جنگ تھی۔
انقلاب فرانس کے افسر نپولین بوناپارٹ کی جنگیں بھی بھی کشورکشائی کی غرض سے شروع ہوئیں اور یہ جنگیں بھی یورپ میں لڑی جانے والی جنگوں میں سے ہیں۔ نپولین کی فرمانروائی کے آخری سالوں میں روس نے برطانیہ کی اقتصادی ناکہ بندی کے حوالے سے فرانس کے حکم کو مسترد کیا اور نپولین نے سات لاکھ کی فوج – جس کی اکثریت غیر فرانسیسی فوجیوں پر مشتمل تھی – کو لے کر روس پر حملہ اور ماسکو پر قبضہ کیا۔ نپولین کی فوج ماسکو کی شدید سردی کے باعث فرانس پلٹ کر آئی اور نپولین نے متحدہ یورپی ملکوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور اس جنگ میں اس کو شکست ہوئی۔
انیسویں صدی کے اواخر میں سلطنت پروشیا (1) کے چانسلر بسمارک اوتو فون بسمارک (2) – جس کی قیادت میں جرمنی نے فرانس-پروس جنگ میں نپولین سوئم کو شکست دی اور جرمنی کے 39 صوبوں کو متحد کرکے متحدہ جرمنی کی بنیاد رکھی تھی – نے ایک وسعت پسندانہ فیصلہ کرکے جرمنی کے اتحاد کو نصب العین بنا کر ڈنمارک، آسٹریا اور فرانس کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور نپولین کو مغلوب کیا اور 1871ع‍ میں جرمنی کو متحد کیا۔ اس دور میں فرانس خانہ جنگی میں الجھ گیا اور اس تباہ کن جنگ میں بےشمار انسانی جانوں کا ضیاع ہؤا۔
بیسویں صدی کے آغاز پر مئی 1914ع‍ میں یورپ میں جرمنی کی قیادت میں تہرے اتحاد (3) اور یورپی اتحادیوں کے درمیان پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہؤا۔ یہ جنگ چار سال تک جاری رہی۔ جنگ کے آغاز پر کروڑوں یورپی باشندوں نے بڑے شہروں کی سڑکوں پر ناچ گانے اور جشن کا اہتمام کرکے اس جنگ میں اپنے ممالک کی شرکت کا خیرمقدم کیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد یورپ کے بڑے شہر تباہ ہوئے اور بے شمار یورپی ہلاک ہوئے جس کی وجہ سے یورپی عوام کا ذائقہ ایک بار پھر تلخی سے دوچار ہؤا اور فطری طور پر وہ اپنے ابتدائی جشن سے نادم ہوئے! پہلی عالمی جنگ نے چار یورپی سلطنتوں – جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور روس – کو شکست و ریخت سے دوچار کیا۔ روس پر بالشویک پارٹی (4) مسلط ہوئی۔ اس جنگ میں تقریبا ایک کروڑ (10000000) لوگ مارے گئے۔
ستمبر 1939ع‍ میں جرمن راہنما آڈولف ہٹلر نے یورپ کی پہلی طاقت بننے کا ارادہ کیا اور دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی؛ لیکن سنہ 1943ع‍ کے بعد امریکہ، سوویت اتحاد اور برطانیہ کی افواج پر مشتمل اتحادی افواج نے جرمنی پر غلبہ پایا۔ اس جنگ میں دو کڑوڑ سے بھی زیادہ یورپی ہلاک ہوئے۔
مورخین کے مطابق، بیسویں صدی کا نصف اول یورپی تاریخ کا سب سے پرتشدد دور تھا اور یہ جنگوں، قتل و غارت، لوٹ مار اور نسلی اور ثقافتی برادریوں کی جان بوجھ کر تباہی سے بھرپور تھا۔ اگرچہ یورپ میں ہلاکت خيزوں کا پرانا سلسلہ 1950ع‍ کے عشرے میں بند ہؤا لیکن یورپی حکمرانوں نے اپنے ہی عوام پر ظلم و ستم اور اندرونی اور بیرونی سطحوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھا اور بیسویں صدی عیسوی یورپ میں تشدد کی صدی قرار پائی۔
یورپ میں ایک “جنگ خیز براعظم” کے طور پر خانہ جنگیوں، توسیع پسندانہ جنگوں، مذہبی جنگوں اور نوآبادیوں پر قبضہ کرنے کے لئے ہونے والی جنگوں کا یہ سلسلہ جاری رہا جیسا کہ ترکی اور یونان کی جنگ، ہسپانیہ کی خانہ جنگی، سابق یوگوسلاویہ اور بلقان کی جنگیں اور دوسرے براعظموں میں یورپی نوآبادیاتی جنگیں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ روانڈا کی نسل کشی، فلسطین میں مغرب کی حمایت سے غاصب صہیونی ریاست کی 75 سالہ جنگ، وغیرہ بھی یورپی جنگوں ہی کا تسلسل ہے۔ لیبیا، شام، یمن، افغانستان اور عراق کی جنگوں کو بھی یورپی جنگوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا تاہم ویکیپیڈیا انگریزی میں “Category:Wars involving the states and peoples of Europe” کے تحت 105 جنگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ان جنگوں نے یورپیوں کی اس تشہیری مہم کو بیچ راستے ناکام بنایا کہ “یورپ ایک جدید اور جمہوری براعظم ہے”۔ ان جنگوں نے یورپی جنگ پرستوں اور خونخواروں کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا۔ بےشک ان جنگوں میں انسانی حقوق کے جھوٹے علمبرداروں نے بنی نوع انسان کو نابود کیا اور حرث و نسل کو تباہ کیا اور انسانی حقوق کو بین الاقوامی سطح پر اپنے بنیادی مسئلے کے طور پر متعارف کروا کر اپنے تاریخی جرائم اور کروڑوں انسانوں کے قتل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اور واضح کردیا کہ یورپ بنی نوع انسان کا اصل دشمن ہے۔
واضح رہے کہ آج کا امریکہ بھی درحقیقت یورپیوں کے قبضے میں ہے اور اس کے حکمران وہی یورپی ہیں جنہوں نے 10 کروڑ سے زیادہ مقامی باشندوں کا قتل عام کرکے اس بر اعظم کے شمالی حصے یعنی موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا پر تسلط جمایا ہؤا ہے۔ یورپیوں کی درندگی کے لئے دیکھئے:
دنیا کی آزادی کی ضرورت یورپیوں کے تسلط سے http://abna.cc/8fkm
آج بھی امریکہ اور یورپی ممالک کے اکسانے پر یوکرین نے روس کو جنگ پر مجبور کیا اور روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے جس کو 100 دن گذر چکے ہیں۔ اور یوگوسلاویہ، کرویشیا، البانیہ اور بوسنیا ہرزگوینا کی جنگوں کے بعد دنیا کا جنگ خیز خطہ ایک بار پھر ایک طویل اور خونریز جنگ میں کود پڑا ہے اور پوری مغربی دنیا اس آگ پر تیل چھڑک رہی ہے۔ دنیا کو غذائی اور ایندھن کے بحران کا سامنا ہے، وسیع پیمانے پر قحط کا خطرہ انسانوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ یوکرین کا غلہ نکال کر یورپی گوداموں میں جمع کررہے ہیں اور دوسرے ممالک کو ایک بار پھر نئے امتحان کا سامنا ہے۔ درایں اثناء دوسرے علاقوں میں جنگ کی آگ بھڑکنے کا خطرہ بھی نظر سے دور نہیں رکھا جا سکتا، اور جو ممالک دنیا کا امن محفوظ رکھنے کے دعویدار ہیں وہی ممالک ایک بار پھر عالمی امن کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں۔ آج ایک بار پھر مغرب کی طرف عالمی امن کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہے۔
اگرچہ دنیا کے تمام نظآمات پر ان ہی کا قبضہ ہے جو اسے تباہ کررہے ہیں اور اقوام متحدہ بھی ان ہی ممالک کی باندی کا کردار ادا کرنے پر مامور و مجبور ہے؛ چنانچہ عالمی اداروں کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے توقع کی جاتی ہے کہ امن پسند ممالک آگے بڑھیں متفقہ کوششوں اور ضروری اقدامات کے ذریعے دنیا بھر میں جنگ کے منفی اثرات کم کرنے کی سعی کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: محسن پاک آئین، ایم فل سیاسیات، سابق سفیر اور کئی کتابوں کے مصنف

۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ Kingdom of Prussia
2۔ اوتو ایڈورڈ فون بسمارک (Otto Eduard Leopold von Bismarck) جرمن تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور سیاست دان جسے جدید جرمنی کا بانی کہا جاتا ہے۔
3۔ تہرا اتحاد یا تین شہنشاہوں کا اتحاد (Dreikaiserbund OR Three Emperors’ Alliance)
4۔ بالشویک ها Bolsheviks = (روسی: большевик)، (بمعنی: “اکثریت“) بالشویک پارٹی روس کی انقلابی جماعت تھی جس نے 1917ء کے کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے روسی قیصروں کی حکومت کا خاتمہ کیا اور سوویت روس کی بنیاد رکھی۔ کمیونسٹ انقلاب کا قائد سوویت روس کا بانی، ولادیمیر الیچ لینن (Vladimir Ilyich Lenin = Vladimir Ilyich Ulyanov) تھا۔ لینن کی محنتوں کا ثمرہ “سوویت اتحاد” 1980ع‍ کے دہائی کے آخر میں زوال سے دوچار ہؤا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔