فاران تجزیاتی ویب سائٹ:
بقلم حسین شریعتمداری
1- کیمپ بوکا (Bucca Camp)، امریکی فوج کا ایک فوجی مرکز تھا، جو 2003 میں عراق پر قبضے کے بعد بندر امالقصر میں، کویت کی سرحد کے قریب بنایا گیا تھا۔ بظاہر، یہ کیمپ ایک حراستی مرکز تھا، لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ اس کا اصل مقصد تکفیری دہشت گردوں کی تیاری تھا۔ داعش اور تحریر الشام کے کئی اہم رہنما اسی کیمپ میں تربیت یافتہ ہیں ۔ جیسے کہ ابوبکر البغدادی (داعش کا سابقہ سربراہ)، ابومحمد جولانی (تحریر الشام کا سربراہ)، سمیر الخلیفاوی المعروف حاجی بکر (عراقی فوج کا انٹیلی جنس افسر جو قتل عام کے لیے مشہور تھا)، ابو احمد (داعش کا کمانڈر اور البغدادی کا نائب) وغیرہ۔ امریکیوں نے 2009 میں یہ کیمپ عراق کی نئی حکومت کے حوالے کر دیا، لیکن اہم ترین قیدی، جن میں مذکورہ افراد شامل تھے، وہاں موجود نہیں تھے! جب عراقی فوج کے کمانڈر نے اس بارے میں سوال کیا تو کیمپ کے امریکی انٹیلی جنس افسر نے جواب دیا: “ہمارے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے ہم نے انہیں رہا کر دیا!”
2- لندن کے اخبار “الحیاۃ” نے 23 نومبر 2015 کے شمارے میں “گارڈین” کے صحافی مارٹن گلف کا ایک انٹرویو شائع کیا، جو انہوں نے ابو احمد (داعش کے ایک کمانڈر) سے کیا تھا۔ یہ انٹرویو داعش کی تاریخ اور ابوبکر البغدادی کے کردار کے بارے میں تھا، لیکن سب سے زیادہ حیران کن انکشاف عراق میں امریکی حراستی مرکز “بوکا” کے بارے میں تھا۔ ابو احمد نے لاشعوری طور پر اس ہولناک حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ کس طرح یہ قید خانہ، تکفیری دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر داعش کے لیے ایک تربیتی اڈہ بن چکا تھا۔
3- امریکہ نے ان دہشت گردوں کو تربیت دینے کے بعد انہیں افغانستان بھیج دیا۔ ابو مصعب الزرقاوی، جو انتہائی سفاک دہشت گرد تھا، پہلے سے افغانستان میں موجود تھا۔ تکفیری دہشت گرد ابو مصعب کی قیادت کو قبول کرنے پر آمادہ تھے، لیکن امریکیوں کو اپنے پروردہ اور زیادہ وفادار ایجنٹ، ابوبکر بغدادی پر بھروسہ تھا۔ چنانچہ، ابو مصعب الزرقاوی کو قتل کر دیا گیا، اور جلد ہی ابوبکر بغدادی کو داعش کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ قتل دراصل البغدادی کی قیادت کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
4- ہیلری کلنٹن، جو صدر اوباما کے دور میں وزیر خارجہ تھیں، نے اپنی کتاب “Hard Choices” (مشکل فیصلے) میں امریکہ کی جانب سے داعش کے قیام کا بالواسطہ اعتراف کیا۔ 2016 کے انتخابی مباحثے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن پر زور دے کر الزام لگایا کہ داعش، امریکی تخلیق ہے۔ حیرت انگیز طور پر، کلنٹن اس الزام کا کوئی جواب نہ دے سکیں!
5- ابومحمد جولانی، جو کہ دہشت گرد گروہ تحریر الشام کا سربراہ ہے، اسی کیمپ بوکا میں تربیت یافتہ ہے جس نے CIA اور موساد کے براہ راست زیر نگرانی تربیت حاصل کی ہے۔ جولانی نے داعش کے فتنے کے دوران کم از کم 24 افراد کے سر قلم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ تحریر الشام کے دہشت گردوں کو امریکہ، اسرائیل اور ترکی کی مدد سے شام میں داخل کیا گیا، جبکہ بشار الاسد کے بعد فورا ہی اسرائیل نے شام کے فوجی، سائنسی اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جولانی نے ایک پریس کانفرنس میں صاف الفاظ میں کہا کہ وہ کسی بھی گروہ کو شام کی سرزمین سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا!
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ داعش کے شدید زخمی دہشت گردوں کو اسرائیل کے حیفا اور تل ابیب کے اسپتالوں میں علاج کے لیے منتقل کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت نے تو وزیر اعظم نیتن یاہو کی داعش کے زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے تصاویر بھی جاری کیں!
6- ابومحمد جولانی کی منحوس شخصیت پر باندھی گئی ٹائی، کوٹ اور پینٹ اور سوٹ بوٹ کی نقاب زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ تکفیری دہشت گرد، جنہیں امریکہ، اسرائیل اور ترکی کے شیطانی اتحاد نے “تحریر الشام” کے نام سے میدان میں اتارا تھا، بہت جلد اپنی اصلیت ظاہر کر بیٹھے۔ ان دہشت گردوں نے شام میں علوی مسلمانوں کا بے رحمانہ قتلِ عام شروع کر دیا۔ صرف دو دن میں 1600 سے زائد علوی مرد، عورتوں اور بچوں کو محض اس جرم میں ذبح کر دیا گیا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے پیروکار تھے۔ ان قتلِ عام کی سفاکیت اس قدر شدید تھی کہ خود ان کے سرپرست ممالک بھی (محض دکھاوے کے لیے!) ان کے خلاف بیان دینے پر مجبور ہوگئے۔
7- ذیل میں چند مثالیں، جو ان کے وحشیانہ جرائم کا ایک مختصر حصہ ہیں، دیکھیے۔ ان کے ویڈیوز اور تصاویر خود دہشت گردوں نے ہی جاری کیے:
ایک ویڈیو میں ایک دہشت گرد علوی والدین کو قتل کرنے کے بعد ان کے تین معصوم بچوں سے، جو خوف کے مارے لرز رہے ہوتے ہیں، پوچھتا ہے: “بتاؤ! پہلے کس کا سر قلم کروں؟”
ایک اور ویڈیو میں ایک سرکردہ دہشت گرد اپنے گروہ کو ہدایت دیتا ہے: “علویوں کو قتل کرنا عبادت ہے! جو چاہے کرو، تم پر کوئی پابندی نہیں!”
ایک جرمن نژاد داعشی دہشت گرد، ایک انٹرویو میں کہتا ہے: “شیعوں کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا وہ ہمارے ساتھ مل جائیں یا قتل کر دیے جائیں۔ تیسرا راستہ کوئی نہیں!”
تحریر الشام کے چند دہشت گردوں کی ویڈیو میں ان کا سرغنہ کہتا ہے: “یہاں شام کا شہر بنیاس ہے۔ پہلے یہاں دو گروہ تھے، سنی اور علوی! اب بھی دو گروہ ہیں، سنی، جو زندہ ہیں، اور علوی، جو قتل کر دیے گئے!”
8- دو دن پہلے (15 مارچ 2025)، امریکی اخبار “وال اسٹریٹ جرنل” نے ایک مستند رپورٹ میں انکشاف کیا کہ امریکہ، تحریر الشام اور ابومحمد جولانی کا اصل سرپرست ہے اور عرب ممالک نے جولانی کی دہشت گرد حکومت کو امریکی احکامات پر تسلیم کیا ہے۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں، کیونکہ خطے کے کئی ممالک امریکی اجازت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے!
9- شام میں تکفیری دہشت گردوں کی حکمرانی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی، کیونکہ انہیں شروع سے ہی مستقل حکمران بنانے کا منصوبہ نہیں تھا۔ امریکہ شام میں کسی آزاد حکومت کو برداشت نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اسے کسی کٹھ پتلی حکومت کی ضرورت ہے، جیسا کہ کچھ عرب ممالک میں قائم ہے۔ تکفیری دہشت گردوں کا اصل مشن یہ تھا کہ انقلابی مسلم قوتوں کو قتل کریں، عوام میں خوف و ہراس پھیلائیں اور آخر میں کسی امریکی کٹھ پتلی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں۔ یہ مشن تقریباً مکمل ہو چکا ہے، اسی لیے جولانی کی “افادیت” اب ختم ہونے کو ہے۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ اس کا انجام بھی بن لادن اور ابوبکر بغدادی کی طرح ہوگا۔
10- تاریخ گواہ ہے کہ جب امریکی تخلیق شدہ دہشت گرد گروہ اپنی “مدتِ کارآمد” پوری کر لیتے ہیں تو امریکہ خود ہی ان کا صفایا کر دیتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ واشنگٹن اپنے ریکارڈ پر ان دہشت گردوں کے وحشیانہ جرائم کا داغ نہیں لگنے دینا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ان کی ضرورت ختم ہوتی ہے، ان کے سرغنوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
یہی حال اسامہ بن لادن کا ہوا، جو زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا لیکن قتل کر دیا گیا، حتیٰ کہ اس کی لاش بھی سمندر برد کر دی گئی۔ ابوبکر بغدادی کو بھی محاصرے میں لینے کے بعد “گرفتار” کرنے کے بجائے قتل کر دیا گیا۔ ابومحمد جولانی کے ساتھ بھی بہت ممکن ہے کہ یہی کچھ ہو، کیونکہ اگر وہ زندہ رہا تو امریکی دہشت گردی کے اصل چہرے کو بے نقاب کر سکتا ہے۔
یہ امکان یاد رکھیں اور اس پیش گوئی کو سنجیدگی سے لیں…
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں