2024 اقوام متحدہ کی موت کا سال

اگر اقوام متحدہ کو اس غیر مؤثر حالت سے نکال کر دوبارہ فعال اور مؤثر بنانا ہے، تو پہلا قدم ویٹو کے اس فرسودہ اور جمہوریت مخالف حق کو ختم کرنا ہوگا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ عیسوی سال کی جو کل اختتام پذیر ہوا، سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ تصورات جن پر نئی دنیا کی بنیاد رکھی جانی تھی، نئے انداز اور تعبیرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے تصورات جیسے کہ امن، سلامتی، انصاف اور جمہوریت۔ اگر دنیا کے دانشور اور آزاد فکر رکھنے والے ان خوبصورت الفاظ پر اعتماد نہیں کرتے اور انہیں دھوکہ سمجھتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بنیادی اور درست تصورات کو دنیا کے موجودہ طاقتور افراد (جو کہ ایک متکبر ٹولہ ہیں) کے استحصال سے نجات نہیں ملی ہے۔

اس مقام پر چند باتیں قابل غور ہیں:

1-دنیا کے فیصلہ سازی کے نظام میں سیاستدانوں کی مہلک غلطیوں کی اصلاح کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی، اور عالمی برادری میں خوداحتسابی اور خوداصلاح کا کوئی قانون نافذ نہیں ہے۔ اس سخت گیر نظام میں پالیسیاں اور فیصلے آسانی سے مسلط اور نافذ کیے جاتے ہیں، لیکن انہیں تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ جنگیں، قتل و غارت، سزائیں، پابندیاں اور آزاد اور خودمختار اقوام کے خلاف ظالمانہ اقدامات، جو مغرب کی غلامی قبول نہیں کرنا چاہتیں، یہ سب کام آسانی سے انجام دیے جاتے ہیں اور دنیا کے کئی لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ فلسطین، لبنان، اور حالیہ برسوں میں شام جیسے ممالک بربادی کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں، بین الاقوامی حکم جاری ہوتا ہے کہ ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا جائے جو ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل ہے، لیکن نہ صرف یہ حکم نافذ نہیں ہوتا بلکہ واشنگٹن کی جانب سے حکم دینے والے جج کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ عالمی طاقتوں کے کلب کا کوئی رکن کسی مجرمانہ فیصلے یا اقدام کی وجہ سے جوابدہ ہوا ہو، چہ جائیکہ سزا دی جائے! اقوام متحدہ میں صیہونی حکومت کے خلاف تمام قراردادوں کے مسودے مسترد کر دیے جاتے ہیں، اور جو قراردادیں منظور ہو بھی جائیں، وہ ویٹو کر دی جاتی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں باراک اوباما، جمی کارٹر (جو حال ہی میں کوچ کر گئے)، ہنری کسنجر، اور اسحاق رابین جیسے صیہونی امن کے نوبل انعام کے حقدار ٹھہرتے ہیں، اور وہ قوم (فلسطینی) جو اپنی زمین کو آزاد کرانا چاہتی ہے، دہشت گرد قرار دی جاتی ہے، اور وہ قوم (ایرانی) جو شیطانوں کے ظالمانہ نظام میں شریک نہیں ہونا چاہتی اور جس کا واحد جرم آزادی ہے، مفلوج کر دینے والی پابندیوں کا نشانہ بنتی ہے، آخر کیا کیا جائے؟

2- اقوام متحدہ ایک بے اثر ادارہ

اقوام متحدہ عملاً ایک بے اثر ادارہ بن چکا ہے۔ اس کی ساختی کمزوریوں کو بھی ابھی تک دور نہیں کیا گیا۔ دنیا کی سب سے اہم بین الاقوامی تنظیم، جو جنگوں کو روکنے اور امن قائم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، پانچ ممالک کے لیے ایک غیر منصفانہ حق رکھتی ہے جسے ویٹو کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں انصاف قائم کرنے کا پہلا راستہ ویٹو کا خاتمہ ہے۔

گوٹیرش کے دور کی ناکامیاں

جناب گوٹیرش اس وقت اقوام متحدہ کے بڑے دفتر کی کنجی اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں، لیکن ان کی سیکرٹری جنرل کی مدت کے دوران، اقوام متحدہ کی حیثیت میں شدید گراوٹ آئی ہے۔ خود وہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ عالمی تعلقات میں طاقت کی حکمرانی کو بدلنے کی امیدیں نیویارک کے دروازے کے پیچھے ہی رک گئی ہیں۔ یقیناً، کوئی بھی گوٹیرش کی ناکامی پر خوش نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی دراصل دنیا کی اقوام کی ناکامی کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کو بین الاقوامی بے رحم حقائق کے میدان میں ظلم سے بچاؤ کی ایک پناہ گاہ ہونا چاہیے تھا، لیکن حالیہ غزہ کے واقعات میں ہم نے دیکھا کہ اقوام متحدہ کے تمام اسکولوں اور کیمپوں پر قابض فوج نے حملہ کیا، اور اس کے جواب میں صرف رسمی مذمت اور اظہارِ تشویش کے سوا کچھ نہیں ہوا۔

3- ویٹو کے حق کا خاتمہ

پہلا مسئلہ ویٹو کے حق کا خاتمہ ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے کہ پانچ ممالک کو ایسا اختیار دیا جائے کہ ان میں سے ایک 200 دیگر ممالک کے فیصلے کو بے اثر کر سکے۔ یہ ایک بڑی ناانصافی ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پانچ ممالک سے یہ نام نہاد حق واپس لینا تقریباً ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایسا فیصلہ کیا جائے تو یہ ممالک خود اسے ویٹو کر دیں گے!
رہبر انقلاب نے سال 1376 (1997) میں تہران میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں فرمایا تھا کہ اسلامی ممالک کو بھی ویٹو کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اسی طرح ابھرتی ہوئی طاقتیں جیسے بھارت، برازیل، اور جنوبی افریقہ بھی مستقل رکن ممالک کی فہرست میں شامل ہونے اور ویٹو کے حق کے خواہاں ہیں۔ جرمنی بھی، جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے کئی دہائیوں بعد، دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دوبارہ ایسی تباہ کن جنگ شروع نہیں کرے گا اور اسے بھی یہ حق دیا جانا چاہیے۔

بہرصورت، اگر اقوام متحدہ کو اس غیر مؤثر حالت سے نکال کر دوبارہ فعال اور مؤثر بنانا ہے، تو پہلا قدم ویٹو کے اس فرسودہ اور جمہوریت مخالف حق کو ختم کرنا ہوگا۔ اگرچہ اس کے باوجود بھی بڑے پیمانے پر لابنگ کی وجہ سے اقوام متحدہ کی قراردادیں ممکنہ طور پر جانبدار ہوں گی، اور ممالک کا اجماع بھی غلط فیصلوں کی منظوری کا سبب بن سکتا ہے، لیکن کم از کم اقوام متحدہ کے معاملات 5 ممالک، بالخصوص ایک مخصوص ملک (امریکہ) کے قبضے میں نہیں ہوں گے۔