حالات حاضرہ، 29 نومبر 2024

29 نومبر فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن/ اظہار یکجہتی کے بجائے مکمل خاموشی انتہائی افسوسناک: علامہ جواد نقوی

اس جنگ بندی سے حزب اللہ کو ایک فرصت ملی ہے کہ وہ اپنی توانائی کو دوبارہ بحال کر سکے اس لیے جنگ کے دوران جہاں حزب اللہ کا بے حد مالی نقصان ہوا ہے وہاں جانی نقصان بھی بہت ہوا ہے اتنے عظیم کمانڈروں کی جانیں چلی گئی ہیں ان نقصانات کی بھرپائی کے لیے حزب اللہ کو ایک فرصت کی ضرورت تھی
29 نومبر فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 1977 کے مطابق 29 نومبر فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن مقرر کیا گیا تھا اصولی طور پر جب اقوام متحدہ نے فلسطین کی مظلومیت کا دن مقرر کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فلسطین کی مظلومیت کو سمجھتے تھے اور انہیں فلسطین کی ساری صورتحال معلوم تھی۔ آج ہم 29 نومبر 2024 میں فلسطین کے بارے میں بات کر رہے ہیں یعنی 1977 میں بھی فلسطین ایسی ہی صورتحال سے گزر رہا تھا کہ اس کو عالمی حمایت اور یکجہتی کی ضرورت تھی۔ چونکہ اس وقت بھی جو طاقتیں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی تھیں ان کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے پاس بھی کوئی چارہ کار نہیں تھا اور وہ طاقتیں کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ، کچھ مغربی ممالک اور یہودی لابی ہے جو فلسطینیوں کا خاتمہ اور صہیونی ریاست کا تحفظ چاہتے ہیں۔ تو ایسے موقع پر اقوام متحدہ نے دیگر تمام ممالک سے کہا کہ اگر تم فلسطینیوں کی زمینیں واپس نہیں کروا سکتے تو کم سے کم ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرو۔ اس لیے یہ ایک عالمی دن مقرر ہوا۔
اظہار یکجہتی کے بجائے مکمل خاموشی انتہائی افسوسناک
آج 29 نومبر ایک بار پھر ایسے موقع پر آیا ہے جب فلسطینیوں کے ساتھ ایسی ناانصافی ہوئی ہے کہ پوری دنیا جانتی ہے۔ کس قدر انہیں گزشتہ ایک سال میں مسلسل قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا لیکن نہ صرف اقوام عالم نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی نہیں کیا بلکہ مکمل خاموشی اختیار کی اور گزشتہ سال سے جاری اتنے مظالم کے باوجود بھی آج 29 نومبر کو پوری دنیا میں خاموشی ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک مکمل خاموش ہیں۔ یہ اقوام متحدہ علامہ اقبال کے بقول کفن چوروں کی انجمن ہے مظلوموں کو لتاڑنے اور ظالموں کو جواز دینے کی انجمن ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری جب گزشتہ سال غزہ پر بمباری شروع ہوئی تھی تو انہوں نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطین کی حمایت میں کافی اچھے بیانات دینے شروع کئے تھے لیکن جب صہیونیوں کی دھمکیاں انہیں ملنا شروع ہوئیں تو وہ بھی ایسے خاموش ہوئے جیسے کما میں چلے گئے ہوں۔ اب ان کا کوئی بیان نہیں آتا۔
اقوام متحدہ میں ایک بڑی تعداد مسلم ممالک ہے 58 مسلم ممالک ہیں جو اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ ان پر بھی فلسطین کی حمایت فرض ہے، ان کا دین، ایمان، رسول سب انہیں فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ ہمدردی کا حکم دیتے ہیں لیکن کہیں بھی دنیا میں نہ عوام نے اور نہ ہی حکمرانوں نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی کو ہمدردی ہے گرچہ صرف زبانی اور ظاہری حد تک ہی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اسرائیل اور لبنان کے مابین جنگ بندی
فرانس اور امریکہ کی وساطت سے اسرائیل اور لبنان کے مابین جنگ بندی ہوئی ہے۔ اس جنگ بندی کو سب سراہنا دے رہے ہیں کہ لبنان میں جو قتل و غارت ہو رہی تھی وہ بند ہوئی، تاحال 4ہزار افراد شہید اور اس کے دس گنا زیادہ زخمی ہو چکے ہیں فی الحال وہ سلسلہ بند ہوا اس حد تک تو یہ ٹھیک ہوا ہے۔
لیکن یہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس منظر کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اس جنگ بندی کی قیمت جو بعد میں وصول کی جانی ہے وہ اس قتل و غارت سے کہیں بڑا نقصان ہے۔ اس کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ جنگ شروع کیوں ہوئی تھی اور جنگ کس کے درمیان چل رہی تھی؟ شروع کیوں ہوئی سب کو معلوم ہے اور کس کے درمیان جنگ ہو رہی تھی یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ تھی۔ اب چونکہ حزب اللہ لبنان میں ہے لہذا حکومت لبنان اس کی ذمہ دار ہے دوسری طرف امریکہ چونکہ اسرائیل کا وکیل ہے بلکہ اس کا سرپرست ہے اور اس جنگ میں جتنی ضروری چیزیں ہیں وہ سب امریکہ فراہم کرتا ہے۔ اس جنگ کا سارا خرچہ یا اس نے خود دیا ہے یا خطے میں موجود امریکی چیلوں جیسے عرب ملکوں سے لے کر دیا ہے۔
امریکہ نے ڈھنکے کی چوٹ پر اس جنگ میں اسرائیل کی حمایت کی اور بھرپور طریقے سے قاتل کا ساتھ دیا لیکن اس کے باوجود تمام مسلمان چاہے وہ حکمران طبقہ ہو یا عوام ہو سب کے دلوں میں امریکہ کا احترام باقی ہے اور امریکہ سے خوف بھی ہے اور اس سے طمع اور لالچ بھی ہے۔
جنگ میں زیادہ نقصان کس کا ہوا؟
پہلی مرتبہ اس جنگ میں اسرائیل کو اتنا نقصان ہوا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے حزب اللہ نے اسرائیل کا آئرن ڈوم بالکل ناکارہ کر دیا اور تل ابیب تک تمام شہروں کو نشانہ بنایا۔ اور حزب اللہ اور حماس کے علاوہ حوثیوں نے جہاں چاہا وہاں نشانہ بنایا۔ یہ چیز یہودیوں کے لیے ناقابل تصور تھی۔ چونکہ انہیں آئرن ڈوم پر بہت بھروسہ تھا۔ اور انہیں یہ باور کروایا گیا تھا کہ آئرن ڈوم سے مچھر تک اندر نہیں گھس سکتا، لیکن جب حزب اللہ اور حوثیوں کے سینکڑوں راکٹ، ڈرون اور میزائل روزانہ اسرائیل کے شہروں میں گرنا شروع ہوئے تو انہیں یہ احساس ہوا کہ اسرائیل ان کے لیے کتنا ناامن ہے۔ لہذا نیتن یاہو پر سخت دباؤ تھا کہ جنگ بندی کی جائے۔ اس لیے امریکہ نے اسرائیل کی وکالت کی اور جنگ بندی کروائی اور فرانس نے حزب اللہ کی وکالت کی۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ فرانس نے لبنان کی وکالت کی، امریکہ کی وکالت تو واضح ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لبنان استعماری دور میں فرانس کے زیر تسلط تھا جیسے فلسطین برطانیہ کے زیر قبضہ تھا۔ فرانس ایک طرح کا لبنان کا سرپرست ہے۔ فرانس کے لیے لبنان بہت اہمیت والا ملک ہے۔ اس وجہ سے فرانس چاہتا ہے کہ بیشک حزب اللہ کے خلاف جنگ ہو لیکن لبنانیوں کے ساتھ کچھ نہ ہو۔ یہاں تک کہ لبنان میں جو حکومت بنتی ہے اس میں فرانس کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ تین ملک ہیں جو لبنان کی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں عیسائی طبقے میں فرانس، سنی طبقے میں سعودی عرب اور شیعہ طبقے میں ایران، ان تینوں ملکوں کا لبنان میں سیاسی اثر و رسوخ بہت گہرا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ کردار فرانس کا ہوتا ہے۔
جنگ بندی اور اسرائیلی مفادات
اب جو یہ جنگ بندی ہوئی ہے اس میں اسرائیلی مفادات کو مکمل ترجیح دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے لبنانی فوج اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں تھی بلکہ صرف حزب اللہ کے ساتھ جنگ تھی اور حزب اللہ نہ لبنان کی حکومت ہے نہ لبنان کی فوج۔ اگرچہ حکومت کے اندر حزب اللہ کے نمائندے بھی ہوتے ہیں لیکن بڑے حکومتی عہدے حزب اللہ کے پاس نہیں ہیں۔ حزب اللہ ایک عسکری طاقت ہے جو اسرائیل کے مقابلے کے لیے بنی ہے۔ لبنان پر اسرائیل کا قبضہ تھا جو حزب اللہ نے ختم کروایا، اور اب لبنان کے تمام عوام عیسائی سنی شیعہ سب کو معلوم ہے کہ اگر کوئی اسرائیل سے لبنان کو محفوظ رکھ سکتا ہے تو وہ صرف حزب اللہ ہے۔ اس وجہ سے جو لبنان کے دوسرے فریق ہیں انہیں حزب اللہ سے بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے جس طرح سعودی عرب کے نزدیک حزب اللہ سب سے ناپسندیدہ گروہ ہے۔ چونکہ حزب اللہ کی وجہ سے لبنان میں سعودیہ کی کوئی چال نہیں چل سکتی، اسی طرح فرانس کے نزدیک بھی حزب اللہ ناپسندیدہ گروہ ہے لیکن وہ حزب اللہ کو ایک طاقت ہونے کی وجہ سے تحمل کرنے پر مجبور ہے۔ امریکہ حزب اللہ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ حزب اللہ کا واحد حامی ایران ہے۔ اس وجہ سے فرانس، سعودی عرب اور امریکہ سب چاہتے ہیں کہ حزب اللہ ختم ہو۔ لیکن حزب اللہ کو ختم کرنا چونکہ اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے لہذا حزب اللہ کے حوالے سے ان کا پرانا فارمولہ ہے اور یہ کہ حزب اللہ کو عسکری جماعت کے بجائے سیاسی جماعت میں تبدیل کر دیا جائے۔ ان کو غیر مسلح کر دیا جائے اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ان کو بھی سیاست میں لایا جائے گرچہ ان کے مخالف رہیں چونکہ سیاسی جماعت ہونے سے انہیں پھر کوئی خطرہ نہیں ہے۔
حزب اللہ کو خلع سلاح کرنا ناممکن
حزب اللہ پر اس طرح کا دباؤ اس سے پہلے بھی کئی بار آچکا ہے اور کئی بار یہ کوشش کی جاچکی ہے کہ حزب اللہ کو خلع سلاح کیا جائے فرانس امریکہ سعودی عرب اور دیگر علاقائی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جائے۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ اگر حزب اللہ نہیں ہوگی تو اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کو کوئی بچا نہیں سکتا حزب اللہ جب سے بنی ہے اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ سوائے اسرائیل کے کسی کے لیے بھی خطرہ نہیں ہے۔
اب جنگ میں بھی ان سب کی یہی کوشش ہے کہ حزب اللہ کو خلع سلاح کیا جائے جبکہ اس جنگ میں لبنان کی جانب سے صرف حزب اللہ نے اسرائیل کا مقابلہ کیا بہت نقصان بھی اسے اٹھانا پڑا مالی نقصان جانی نقصان اور سب سے بڑھ کر حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کی شہادت سب سے بڑا نقصان ہے۔ اس جنگ میں امریکہ اور فرانس نے اسرائیل کو ہر طرح کی امداد فراہم کر کے اسرائیل کے ذریعے حزب اللہ کو کمزور کروانے کی کوشش کی اور ان کے گمان کے مطابق حزب اللہ بہت کمزور بھی ہو چکی ہے۔ لیکن حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے جو اسرائیل پر حملے کئے وہ پہلے سے کہیں زیادہ ٹھوس حملے تھے پہلے کبھی اسرائیل کے تمام شہروں کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا لیکن شہادت کے بعد اسرائیل کا کوئی شہر حزب اللہ کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا۔ یہاں تک کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا گھر بھی محفوظ نہیں رہا۔ اس لیے انہیں حزب اللہ کی طاقت کا اندازہ ہو گیا۔ لہذا یہ سب لوگ جنگ بندی کے لیے مجبور ہوئے تاکہ اسرائیل کو حزب اللہ کے حملوں سے بچائیں اس جنگ بندی میں لبنان کو نہیں بچایا گیا بلکہ اسرائیل کو بچایا گیا ہے۔
لیکن اس جنگ بندی کی قرارداد میں پہلی شرط امریکہ نے یہ رکھی کہ حزب اللہ اپنا اسلحہ ڈال دے لیکن فرانس کو یہ معلوم تھا کہ حزب اللہ یہ کام کبھی نہیں کر سکتی، جب حزب اللہ کے سیاسی میدان بالکل ہموار تھا اور اسے سیاست میں جانے کا آفر دیا گیا تب حزب اللہ نے قبول نہیں کیا آج تو وہ کسی صورت میں یہ شرط قبول نہیں کر سکتے۔
حزب اللہ پر لبنانی حکومت کو مسلط کرنا
دوسری چیز جو اس قرارداد میں لائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حزب اللہ کے مقابلے میں لبنانی حکومت اور لبنانی فوج کے اختیارات بڑھائے جائیں اور حزب اللہ کے اختیارات کم کئے جائیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے قبل لبنان کا سارا دفاعی نظام حزب اللہ کے اختیار میں تھا۔ اس شرط کو حزب اللہ نے قبول کیا ہے گرچہ یہ بھی حزب اللہ کی ساخت پر ایک بڑی چوٹ ہے ۔ حزب اللہ حکومت کے اختیارات کے وسیع ہونے پر معترض نہیں تھی لیکن چونکہ وہاں کی حکومت کے اندر مختلف طاقتوں کا ہاتھ ہے لہذا حکومت لبنان کے تحفظ میں کامیاب ثابت نہیں ہو سکتی اور دوسری بات اس قرارداد کے بعد حزب اللہ کو حکومت کے ماتحت کر دیا گیا ہے اور حزب اللہ کو اپنی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑے گی۔
سرحدی علاقوں سے حزب اللہ کو پیچھے دھکیلنا
تیسری شرط جو اس جنگ بندی میں رکھی گئی ہے اور حزب اللہ کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ لبنان اور اسرائیل کے مابین سرحدی علاقے سے حزب اللہ کو پیچھے ہٹا دیا گیا ہے جہاں پر حزب اللہ کی چھاونیاں تھیں اور جہاں بیٹھ کر حزب اللہ اسرائیل پر اپنا رعب اور دبدبہ جماتے تھے وہ علاقہ خالی کروا لیا گیا ہے۔ اس علاقے میں اقوام متحدہ کی فوج بٹھائی جائے گی یہ علاقہ نہ لبنان کے زیر قبضہ ہو گا نہ اسرائیل کے۔
جنگ بندی طاقت کی بحالی کے لیے ایک فرصت
اس جنگ بندی سے حزب اللہ کو ایک فرصت ملی ہے کہ وہ اپنی توانائی کو دوبارہ بحال کر سکے اس لیے جنگ کے دوران جہاں حزب اللہ کا بے حد مالی نقصان ہوا ہے وہاں جانی نقصان بھی بہت ہوا ہے اتنے عظیم کمانڈروں کی جانیں چلی گئی ہیں ان نقصانات کی بھرپائی کے لیے حزب اللہ کو ایک فرصت کی ضرورت تھی لہذا جنگ بندی سے وہ بھی خود کو دوبارہ سنبھالنے کی کوشش کرے گی۔ اور پھر بہتر طریقے سے اپنی مزاحمت جاری رکھے گی۔ اس جنگ بندی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ حزب اللہ نے مزاحمت چھوڑ دی ہے۔ بلکہ اسی طریقے سے قائم ہے اور اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔
پ