33 روزہ جنگ کی کچھ یادیں

عبرانی میڈیا نے اعتراف کیا کہ لبنان میں اسرائیل کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ 33 روزہ جنگ کے 17 سال گزرنے کے باوجود حزب اللہ کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہوا ہے اور کوئی اقدام اس طاقت کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: 2006ء کی 33 روزہ جنگ میں لبنان کی حزب اللہ کی فتح، جس کا آغاز صیہونی حکومت نے لبنان پر حملہ کرکے کیا، گویا اس سے صیہونی دشمن کے خلاف مزاحمتی فتوحات کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوا۔ اس جنگ کے دوران لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے دھمکی دی کہ اگر بیروت کے جنوبی مضافات پر بمباری جاری رہی تو وہ حیفہ پر میزائلوں سے بمباری کریں گے۔ اس دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے حزب اللہ نے صیہونی حکومت پر تقریباً 120 راکٹ فائر کیے اور 20 شہروں کو نشانہ بنایا، پہلی بار حیفہ ان شہروں میں سے ایک تھا۔ آخرکار سید حسن نصر اللہ نے اسرائیلی جنگی جہاز ساعر 5 پر حملے کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے صیہونی حکومت کو اپنے بحری یونٹوں کو میزائلوں سے بچانے کے لیے اپنے بحری جہازوں کو ساحل سے ہٹانا پڑا۔ 33 دن کے بعد 14 اگست 2006ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 میں موجود جنگ بندی پر عمل درآمد ہوا۔

صہیونی حملے کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی، جس نے تل ابیب کو انتہائی درست گائیڈڈ بم بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ جنگ کے دوران اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے فوری جنگ بندی کے بین الاقوامی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی کارروائی پہلے سے منصوبہ بند تھی اور دنیا نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا انتظار کر رہی ہے۔ رائس کے اس بیان کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتیں نئے بچے کی پیدائش کا درد ہے۔ نیا مشرق وسطیٰ جنم لے رہا ہے۔ اس آپریشن کے حوالے سے صیہونی حکومت کے مختلف اہداف تھے، جن میں دو اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، حزب اللہ کے ڈھانچے کو نشانہ بنانا اور حزب اللہ کے میزائلوں کو روکنے کے لیے دریائے لطانی تک پہنچنا شامل تھا۔ اسرائیلی لیڈر جنگ کے ہر روز ایک نیا ہدف بناتے، لیکن بہت سے اہداف کے باوجود یہ جنگ اسرائیل کے مقاصد حاصل کیے بغیر ختم ہوگئی۔

2000ء میں مزاحمت کے ہاتھوں صیہونی فوج کی شکست اور جنوبی لبنان سے غاصبوں کے ذلت آمیز بے دخلی کے بعد جولائی 2006ء کی جنگ، جسے 33 روزہ جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، صیہونیوں کی سابقہ شکست کی تلافی کے لئے شروع ہوئی تھی، لیکن یہ حزب اللہ کی دوسری حیرت انگیز کامیابی اور قابض حکومت کی ناکامی کا باعث بنی۔ 2004ء میں اسرائیل نے حزب اللہ کے ساتھ معاہدے کے برعکس تین لبنانی قیدیوں کو رہا نہیں کیا۔ ان کی رہائی کے لیے جولائی 2006ء میں حزب اللہ نے “الوعد الصادق” آپریشن میں دو اسرائیلی فوجیوں کو پکڑ لیا۔ اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے لبنان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ محققین کا خیال ہے کہ اسرائیل لبنان پر فوری حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا، لیکن حزب اللہ کی کارروائی نے اس حملے کو روک دیا۔

اسرائیل 40,000 سے زیادہ فوجیوں کے ساتھ اس جنگ میں داخل ہوا۔ اسرائیل نے روزانہ اوسطاً 270 جنگی پروازیں کیں اور بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ اسرائیل نے اس جنگ میں 4,800,000 کلسٹر بم استعمال کیے، جن میں سے 1,100,000 بم جنگ کے آخری 72 گھنٹوں میں استعمال کیے گئے۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 15 ہزار مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ 31 اہم مقامات بشمول ہوائی اڈے، تجارتی اور ماہی گیری کی بندرگاہیں، واٹر ہائیڈرولک اسٹیشن، آئل ریفائنری اور پاور پلانٹس مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ 80 پلوں اور تقریباً 90 کمپنیوں کو شدید نقصان پہنچا۔ دو ہسپتال مکمل طور پر تباہ اور تین ہسپتالوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اس جنگ میں 1183 لبنانی شہری شہید ہوئے، جن میں سے ایک تہائی بچے تھے۔

اس جنگ میں بڑے پیمانے پر جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود اسرائیل نے اپنے اعلان کردہ اہداف میں سے کوئی بھی حاصل نہیں کیا۔ اسرائیل ابتدا میں حزب اللہ کو غیر مسلح اور تباہ کرنا چاہتا تھا۔ جنگ کے خاتمے اور اس مقصد کے حصول میں ناکامی کے بعد اسرائیل دریائے لیطانی تک لبنان کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ تاہم وہ اس میں بھی ناکام رہا اور بالآخر اسے سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کو قبول کرنا پڑا، جس کے مطابق لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کی افواج کو اسرائیلی سرحد سے دریائے لیطانی تک تعینات کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل، جنگ کے پہلے ہی ہفتے میں جنگ کے خاتمے کا اعلان کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اسرائیلی فوج حزب اللہ سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی، لیکن امریکیوں کا اصرار تھا کہ اسرائیلی حکومت کچھ کامیابی حاصل کرے، تاکہ جنگ بندی کا اعلان کیا جائے۔امریکیوں کے اصرار سے جنگ جاری رہی، لیکن آخرکار امریکہ نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔

حزب اللہ نے جدید اسرائیلی ہتھیاروں کے خلاف گوریلا جنگ کا ماڈل استعمال کیا۔ حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں کئی سرنگیں بنائی تھیں اور جنگ کے دوران ان کا بہت اچھے انداز سے استعمال کیا تھا۔ حزب اللہ نے ان سرنگوں کو کمانڈ یا گولہ بارود کے ڈمپ کے لیے استعمال کیا۔ اس جنگ میں حزب اللہ اسرائیل پر 4000 راکٹ فائر کرنے میں کامیاب رہی۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں حزب اللہ نے جدید اسرائیلی فریگیٹ Sa’ar 5 پر میزائل حملہ کیا۔ سید حسن نصر اللہ نے آپریشن کا لائیو اعلان کیا اور اسی تقریر میں راکٹ مارنے کا اعلان کیا۔ اس آپریشن کے کامیاب نفاذ سے اسرائیلی فوج کے حوصلے میں ایک منفی لہر جبکہ مزاحمتی قوتوں میں خوشی اور حوصلہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس دوران ایک جدید فوجی کشتی پر بھی حزب اللہ کے میزائلوں سے حملہ کیا گیا۔

حزب اللہ حیفا کی اہم بندرگاہ پر میزائل حملہ کرنے میں کامیاب رہی اور کچھ عرصے بعد اس نے حیفہ سے مزید دور کے علاقوں اور قصبوں پر بھی حملہ کیا۔ اسرائیلی فوج مرکاوا ٹینک سے لیس تھی اور اسے ایک مضبوط قلعہ سمجھتی تھی۔ حزب اللہ ان ٹینکوں کو میزائلوں سے تباہ کرنے اور اپنے دشمن کا بہت زیادہ جانی نقصان کرنے میں کامیاب رہی۔ جنگ کے دوران 56 مرکاوا 4 ٹینکوں پر حملہ کیا گیا۔ پچھلی جنگوں کے برعکس اس جنگ میں نہ صرف فوج بلکہ پورا اسرائیل شامل تھا۔ اس جنگ میں پہلی بار صیہونی حکومت کے فوجیوں کا نقصان دوسری طرف کے نقصانات سے زیادہ ہوگیا اور لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک کے 74 افراد کے مقابلے میں صیہونی حکومت کے 117 فوجی اور اعلیٰ افسران مارے گئے۔ یقیناً اسرائیلیوں کا جانی نقصان اس سے زیادہ تھا اور 33 روزہ جنگ کے خاتمے کے دو سال بعد فرانس کے ایک مرکز نے ایک سرکاری رپورٹ شائع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس جنگ میں 2300 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے۔

33 روزہ جنگ لبنان کی حزب اللہ کی ایک منفرد کامیابی تھی۔ اس جنگ میں اپنے تخلیقی طریقوں اور مہارتوں کو یکجا کرکے لبنانی حزب اللہ نے غاصب صیہونی حکومت کی فوج کو شکست دی اور انہیں حزب اللہ کے خلاف اپنے فوجی نظریئے کو تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔ 2006ء کی 33 روزہ جنگ نے لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان ایک نئی مساوات اور طاقت کا توازن پیدا کیا۔ ایک ایسی مساوات جس کے بعد صیہونی حکومت کو دوبارہ لبنان پر حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ 33 روزہ جنگ کا پہلا نتیجہ صہیونی دشمن کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پر لبنانی عوام کا اعتماد تھا۔ یہ اعتماد 2006ء میں جنگ کے بعد لبنان میں ہونے والے دوسرے پارلیمانی انتخابات میں ثابت ہوا۔ اس جنگ کے بعد لبنان میں پہلے پارلیمانی انتخابات 2009ء اور دوسرے 2018ء میں ہوئے تھے۔ 2018ء کے انتخابات میں مزاحمتی اتحاد نے 68 سیٹیں حاصل کیں۔ اس نے پارلیمنٹ کی 128 نشستوں میں سے قطعی اکثریت حاصل کی۔

اس جنگ کی دوسری کامیابی جنگ سے پہلے کے مقابلے میں جنوبی لبنان میں امن و سکیورٹی میں اضافہ ہے، جبکہ اس جنگ سے پہلے اسرائیل وقتاً فوقتاً جنوبی لبنان پر حملہ کرتا، اس جنگ کے بعد جنوبی لبنان پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔ امریکہ اور اسرائیل کی مزاحمت کے بلاک سے شکست 33 روزہ جنگ کی تیسری کامیابی اور نتیجہ تھا۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا خیال ہے: “لبنان میں مزاحمت کے خلاف اس جنگ کو روکنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ امریکی اور صیہونی اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ یہ جنگ ہار چکے ہیں۔” اسرائیلی ذرائع کے جائزے کے مطابق جولائی 2006ء کی جنگ کے دوران حزب اللہ کے پاس تقریباً 15000 راکٹ تھے، جن میں سے 33 دنوں کے دوران تقریباً 4000 راکٹ اسرائیلی بستیوں اور ٹھکانوں پر فائر کیے گئے۔ لیکن اس جنگ کے خاتمے کے بعد سے، حزب اللہ نے 200,000 مختصر فاصلے، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے ساتھ اپنے میزائل ہتھیاروں کو بڑھا دیا ہے۔

عبرانی میڈیا نے اعتراف کیا کہ لبنان میں اسرائیل کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ 33 روزہ جنگ کے 17 سال گزرنے کے باوجود حزب اللہ کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہوا ہے اور کوئی اقدام اس طاقت کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ 33 روزہ جنگ کی 17 ویں سالگرہ کے موقع پر یدیعوت احرونوت اخبار کے فوجی رپورٹر نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: “حزب اللہ ایک طاقتور انٹیلی جنس سروس رکھتی ہے اور ہر چیز پر اس کا کنٹرول ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حزب اللہ کو مزید کامیابی حاصل ہو رہی ہے اور گذشتہ 17 سالوں میں حزب اللہ کی روز افزوں طاقت اسرائیل کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس صہیونی تجزیہ نگار نے عبرانی بولنے والے مخاطبین کو بتایا ہے کہ “گذشتہ ہفتے کے دوران پانچ محاذ سرگرم تھے۔ پچھلے ہفتے غزہ، شام، لبنان، مغربی کنارے میں جنین کیمپ اور تل ابیب کے خلاف حملوں نے اسرائیل کے لیے ایک نیا چیلنج بنا دیا ہے، لیکن ان سب میں لبنان کو اب بھی سب سے خطرناک اور دھماکہ خیز جگہ سمجھا جاتا ہے۔”

دوسری جانب صیہونی حکومت کے کان چینل 11 نے اپنی ایک رپورٹ میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی ڈیٹرنس پاور کے شدید زوال پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے: “ڈیٹرنس پاور میں اس کمزوری اور کمی نے حزب اللہ کو ماضی کے مقابلے میں مزید حوصلے کے ساتھ اسرائیل کے خلاف زیادہ کھلے عام اقدامات کرنے پر آمادہ کر دیا ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے مطابق اس جماعت کے پاس ایسے میزائل ہیں۔ جو مقبوضہ فلسطین کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے، جو اسرائیلیوں کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔”