95 ہزار حزب اللہ کے جنگجو صہیونیوں کے سر پر سایہ کی طرح موجود
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اگر اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کرنے سے انکار کرتا ہے یا اس کے کسی حصے کو نظرانداز کرتا ہے، تو حزب اللہ کے پاس تین بنیادی آپشنز ہوں گے۔
گروپ فارس پلس: گزشتہ چند ہفتوں میں، خاص طور پر اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 60 روزہ جنگ بندی کے خاتمے کے قریب، شمالی مقبوضہ فلسطین اور لبنان کے محاذ پر ممکنہ تنازع اور اس کے اثرات پر متعدد تجزیے اور مضامین لکھے گئے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حزب اللہ کمزور ہو رہا ہے اور پسپائی اختیار کر رہا ہے، خاص طور پر اس کے مرکزی رہنماؤں کو نشانہ بنا کر شہید کرنے کے بعد، جن میں شہید سید حسن نصراللہ بھی شامل ہیں۔
یہاں تک کہ بعض معروف اور سینئر تجزیہ کاروں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حزب اللہ کے پاس مستقبل کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آنے والے مرحلے میں، خاص طور پر شام میں ہونے والی تبدیلیوں اور دمشق کے سقوط کے بعد، حزب اللہ مزید پسپائی اختیار کرے گا۔
ان تجزیہ کاروں کا استدلال ہے کہ حزب اللہ نے اپنے صدارتی امیدوار سلیمان فرنجیہ سے دستبردار ہو کر، لبنانی فوج کے سربراہ ژوزف عون کو قبول کر لیا، جو کہ سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت یافتہ شخصیت ہیں۔
حزب اللہ کے 60 روزہ اقدامات
صہیونی اور مغربی تجزیوں کے باوجود، حزب اللہ کی خاموش حکمت عملی تیزی کے ساتھ عمل پذیر ہو رہی ہے
اسرائیلی میڈیا، بڑے ٹی وی نیٹ ورکس، اور سرکاری حکام بشمول نتن یاہو اور سابق و موجودہ وزرائے جنگ کی مسلسل قیاس آرائیوں کے باوجود، حزب اللہ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس نے دوسروں کو ان کے اندازوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جو چاہیں لکھیں اور کہیں، جبکہ خود پس پردہ حالات کا گہرا مشاہدہ اور تجزیہ کر کے اپنی تیاری کے تمام پہلوؤں کو مضبوط کر رہا ہے۔
اس دوران، حزب اللہ نے دو بنیادی اقدامات کیے ہیں :
جنگی نقصانات کا جائزہ اور متاثرین کی مدد:
اسرائیلی جارحیت سے متاثرہ علاقوں میں نقصانات کا تخمینہ لگایا۔
متاثرہ افراد کو امداد فراہم کی اور زیادہ سے زیادہ نقصان کی تلافی کی کوشش کی۔
اپنی مجموعی طاقت کی بحالی اور مضبوطی:
سیاسی، عسکری، سیکیورٹی، میڈیا، اور سماجی ڈھانچے کو از سر نو ترتیب دیا۔
ان تمام چیلنجوں کو دور کیا، جو پچھلی سرگرمیوں کی بحالی میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔
آگے کیا ہوگا؟
جنگ بندی کے 60 دن مکمل ہو چکے ہیں، اور معاہدے کے مطابق، اسرائیل کو جنوبی لبنان کے ان دیہاتوں اور بستیوں سے مکمل انخلا کرنا تھا، جو اس نے اب تک نہیں کیا ہے اور مقبوضہ علاقوں کو نہیں چھوڑا ہے
اس معاملے میں وہ ممالک جو جنگ بندی کے ضامن تھے، اسرائیل کے اقدامات کے لیے جوابدہ ہیں۔
بعض لیک شدہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے ان اقدامات کے چلتے آنے والا مرحلہ مزید حیرت انگیز اور کشیدہ ہو سکتا ہے
اسرائیل کی سابقہ روش کو مدنظر رکھتے ہوئے اور خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ ممکنہ آمد کے تناظر میں – جسے صہیونی اپنا قابل اعتماد دیرینہ دوست سمجھتے ہیں – حزب اللہ ہر ممکنہ منظرنامے کے لیے تیار ہے۔
حزب اللہ کے ممکنہ اقدامات اگر اسرائیل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرے
اگر اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے پر عمل نہ کرے، تو حزب اللہ کے پاس تین بنیادی آپشنز ہوں گے:
1- معاملہ لبنان کی حکومت اور ثالثوں کے سپرد کرنا
بعض علاقائی اور مغربی طاقتیں، بشمول امریکہ، اور لبنان کے اندر حزب اللہ مخالف قوتیں (خاص طور پر 14 مارچ اتحاد) اس بات کے حامی ہیں کہ لبنان کی حکومت کو ملک کا انتظام سنبھالنے کا موقع دیا جائے اور لبنانی فوج کو جنوبی علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہو تاکہ مزاحمتی قوتوں کے کھل کر سامنے آنے کی ضرورت نہ رہے۔
لیکن سب پر واضح ہے کہ یہ صرف زبانی دعوے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ قوتیں خود بھی جانتی ہیں کہ اسرائیل کبھی کسی معاہدے کا پابند نہیں رہا اور وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، خاص طور پر اب جب کہ صہیونی حکومت کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ حمایت حاصل ہو سکتی ہے، جو کہ اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ کا کھلا دشمن ہے۔
حزب اللہ یہ بھی جانتا ہے کہ لبنانی حکومت کمزور ہے اور بڑی طاقتوں کے مفادات اس کی سیاسی قوتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود، حزب اللہ نے کسی بھی ممکنہ بہانے کو ختم کرنے کے لیے یہ معاملہ لبنانی حکومت، فوج، اور ثالث ممالک پر چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ 60 دن کی جنگ بندی کی مدت کے بعد اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔
حزب اللہ کی حکمت عملی:
لبنانی حکومت اور فوج کو موقع دینا تاکہ وہ اسرائیل سے معاہدے پر عمل کرانے کے لیے اقدامات کریں۔
ثالث ممالک پر دباؤ ڈالنا کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کے احترام پر مجبور کریں۔
اپنا دباؤ برقرار رکھنا تاکہ اسرائیل پر معاہدے کی پاسداری کے لیے زبردست دباؤ پڑے۔
2- باقی ماندہ مقبوضہ علاقوں میں جھڑپوں کا دوبارہ آغاز
یہ آپشن داخلی اور بین الاقوامی حلقوں میں انتہائی ممکنہ سمجھا جا رہا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے تمام مقبوضہ علاقوں سے انخلا میں تاخیر کرتا ہے اور نئی سیاسی یا زمینی حقیقتیں حزب اللہ پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو حزب اللہ اسے معاہدے سے انحراف اور اس کی شقوں پر عمل نہ کرنے کے مترادف سمجھے گا۔
ممکنہ ردعمل:
حزب اللہ اور دیگر لبنانی مزاحمتی گروہ جنگ بندی کے پابند نہیں رہیں گے۔
کسی بھی مناسب وقت پر کارروائی شروع کریں گے اور اسے اپنا حق سمجھیں گے۔
لڑائی صرف ان علاقوں تک محدود رہے گی جو اب بھی اسرائیلی قبضے میں ہیں۔
اہمیت رکھنے والے مقبوضہ علاقے:
اسرائیلی اور امریکی میڈیا کے مطابق، جنوبی لبنان میں تین علاقے اسرائیل کے لیے انتہائی اہم ہیں، کیونکہ وہاں سے صہیونی بستیوں اور فوجی اڈوں پر مکمل نگرانی رکھی جا سکتی ہے۔
کیوں یہ آپشن زیادہ محتمل ہے؟
حزب اللہ کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ محمود قماطی نے حالیہ دنوں میں واضح طور پر کہا:
“اگر اسرائیل 60 روزہ معاہدے کے تحت جنوبی لبنان سے پیچھے نہیں ہٹتا، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ علاقے اب بھی مقبوضہ ہیں، اور حزب اللہ انہیں اسی بنیاد پر دیکھے گا۔”
یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر اسرائیل نے وعدے کی خلاف ورزی کی، تو حزب اللہ لڑائی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
3- مکمل اور ہمہ گیر جنگ کا آپشن
چونکہ اسرائیل کی انتہا پسند دائیں بازو کی حکومت اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں اور نتن یاہو کے سیاسی مفادات کی وجہ سے خطے میں تنازعات کو جاری رکھنا چاہتی ہے، اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگر حزب اللہ دوسرے آپشن (باقی ماندہ مقبوضہ علاقوں میں جھڑپوں) کا انتخاب کرے، تو اسرائیل اس کے ردعمل میں جنگ کے دائرے کو وسیع کر دے۔
اسرائیل کی ممکنہ حکمت عملی:
حزب اللہ کی پہلی جنگ میں ہونے والے نقصانات اور شام کے ممکنہ طور پر کمزور ہونے کو بنیاد بنا کر جنگ کا دائرہ بڑھانا۔
لبنانی مزاحمت کو کمزور سمجھ کر مکمل حملے کا فیصلہ کرنا۔
حزب اللہ کی حکمت عملی:
اگر اسرائیل نے جنگ چھیڑی، تو حزب اللہ بھی مکمل جنگ میں داخل ہو جائے گا، جیسا کہ پچھلے مراحل میں دیکھا گیا تھا۔
صہیونی بستیاں دوبارہ اور اس بار زیادہ شدت سے خالی کروائی جائیں گی۔
اسرائیلی شہری پہلے ہی واپسی سے خوفزدہ ہیں، جنگ کی صورت میں مزید بستیوں سے انخلا ہوگا۔
کیا اسرائیل کامیاب ہوگا؟
چاہے جنگ محدود ہو یا وسیع، اسرائیل جیت نہیں سکے گا۔
حزب اللہ کی طاقت کے بارے میں اسرائیلی پروپیگنڈہ صرف اندرونی سیاست کے لیے ہے اور اس میں حقیقت نہیں۔
شہید سید حسن نصراللہ کے مطابق، حزب اللہ کے 1 لاکھ جنگجو تربیت یافتہ اور ہر صورتِ حال میں لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
اگر حالیہ لڑائیوں میں 4 ہزار یا بدترین صورت میں کچھ ہزار جنگجو شہید بھی ہوئے ہوں، تب بھی حزب اللہ کے پاس 95 ہزار جنگجو موجود ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر مزاحمتی قوتوں کے ہزاروں جنگجو بھی حزب اللہ کے ساتھ ہوں گے، جو اسے مزید طاقتور اور ناقابل تسخیر بنا دیں گے۔
حتمی نتیجہ:
اگر اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور کسی بھی آپشن پر عمل کرتا ہے، تو خطہ ایک وسیع جنگ کی طرف بڑھے گا، جس میں حزب اللہ مکمل تیاری کے ساتھ داخل ہوگا۔
تبصرہ کریں