اسرائیل میں سول نافرمانی

مخالفین اس منصوبے کو نیتن یاہو کے لیے قانونی الزامات سے بچنے کے راستے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ نیتن یاہو کے مجوزہ منصوبے کی منظوری کنیسٹ کے اراکین کو بغیر کسی نگرانی کے نیتن یاہو کے بدعنوانی کے الزامات کے کیس کو بند کرنے کی اجازت دے گی اور اراکین پارلیمنٹ انہیں بدعنوانی کے الزامات سے بری کرنے کے لیے ووٹ دیں گے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عبرانی ویب سائٹ والا نے صیہونی حکومت کے وزیر جنگ کی جانب سے ایک متنازعہ عدالتی منصوبے کی منظوری کے لیے نیتن یاہو اور اس سے منسلک کیمپ پر دباؤ کے بعد صیہونیوں کے اندرونی مظاہروں میں شدت نیز فوجیوں اور پائلٹوں کی عام ہڑتال کی وجہ سے اس حکومت کی نازک صورت حال کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ گیلنٹ نے کہا کہ عدالتی اصلاحات کے منصوبے کو روک دیا جانا چاہیئے، کیونکہ ریزور فورسز میں استعفوں کی لہر کے بعد صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ عدالتی تبدیلیوں سے متعلق مسلسل قانون سازی کے خلاف جمعہ سے 1,140 پائلٹوں اور فضائیہ کے افسروں نے اپنی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ ان صہیونی افسران نے اپنی درخواست اپنے ناموں اور دستخطوں کے ساتھ ایک تحریری پیغام کی صورت میں صیہونی حکومت کے فوجی کمانڈروں کو بھیجی تھی۔

عبرانی ذرائع نے اس کارروائی کو “فضائی فوج کے ڈھانچے میں زلزلہ” سے تعبیر کیا اور اس حکومت کے رہنماؤں کو خانہ جنگی کے خطرے سے خبردار کیا۔ عبرانی چینل 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے صہیونی فوج کے ریزرو جنرل اور آپریشنل یونٹس کے سابق کمانڈر اسرائیل زیو نے نیتن یاہو کے عدالتی منصوبے کے خلاف خبردار کیا اور اعتراف کیا کہ اس اندرونی تنازعے کے جاری رہنے اور فضائیہ کے ایک ہزار سے زائد اہلکاروں کی فوجی خدمات سے انکار کے خطرے کے پیش نظر ہمیں ایک انتہائی خطرناک بحران کی توقع کرنی چاہیئے۔ Yediot Aharanot اخبار کے مطابق سیاسی اور سماجی بحران نے اسرائیلی فوج کو، جس پر تقریباً تمام صہیونی معاشرہ متحد تھا، ایک مایوسی اور منحرف ادارے میں تبدیل کر دیا ہے۔

صیہونی حکومت کے بہت سے باشندے ہتھیاروں سے لیس ہیں اور ایسی حالت میں جب انتہاء پسند نیتن یاہو کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں اور ضدی مخالفین اس منصوبے پر عمل درآمد کو روکنا چاہتے ہیں تو یہ سول نافرمانی حامیوں اور مسلح مخالفین کے درمیان سڑکوں پر جھڑپوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ریزرو فورسز کی فوجی نافرمانی چند ماہ قبل اس حکومت کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کے نام نہاد “عدالتی اصلاحات” کے منصوبے کے اعلان کے بعد شروع ہوئی تھی، لیکن نیتن یاہو کے اس منصوبے کو بالآخر منظور کرنے کے فیصلے کے بعد، اسی وقت جب آباد کاروں کے مظاہروں کی لہر تیز ہوئی، وہاں فوج نے بھی کام کرنے سے انکار کر دیا۔

جب نیتن یاہو کے عدالتی منصوبے کے خلاف مظاہرے فوجی دستوں کی صفوں میں بڑھتے گئے تو عبرانی میڈیا نے تل ابیب کے رہنماؤں کو خبردار کیا کہ نیتن یاہو کے عدالتی منصوبے کے خلاف احتجاج میں فوجی خدمات سے انکار کرنے والی ریزرو فورسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے نہ صرف فضائیہ کے کمانڈر کی نیندیں حرام ہوں بلکہ آرمی چیف، چیف آف آرمی سٹاف اور تمام افسروں کو بھی اس پر پریشان ہونا چاہیئے، کیونکہ فوج کی فضائیہ مستقبل میں دشمنوں سے لڑائی نہیں لڑ سکے گی۔ صیہونی حکومت کی فوج کی نافرمانی اور مقبوضہ فلسطین کی گلیوں میں صیہونیوں کے زبردست مظاہروں اور عمومی طور پر اس عظیم داخلی بحران سے دوچار ہونا ایک ایسے وقت شروع ہوا ہے، جب لبنان اور فلسطین کی سرحد پر کشیدگی بڑھی ہوئی ہے اور یہ وہ وقت ہے، جب اسرائیلیوں نے لبنان اور سرحد دونوں کے اندر حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے ابھی تک کوئی راستہ نہیں ڈھونڈا ہے۔

مختلف سرویز کے مطابق نیتن یاہو کی کابینہ روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے اور ان کے مخالفین میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کے علاوہ ٹرینوں کی آمدورفت جیسی اہم سہولیات بھی کئی بار بری طرح متاثر ہوئی ہیں، جبکہ حال ہی میں ڈاکٹروں نے بھی ہڑتالوں میں شامل ہونے کا وعدہ کیا ہے اور مقبوضہ علاقوں کے کچھ رہائشی بھی بینکوں سے اپنی جمع پونجی واپس لینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس سے نیتن یاہو حکومت پر معاشی دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ 28 ہفتوں سے زائد عرصے سے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کے عدالتی اصلاحات کے متنازع منصوبے کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہروں کی لہر دیکھی جا رہی ہے، لیکن وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹتی نظر نہین آرہی ہے اور یہ بل پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

نیتن یاہو کے زیر غور عدالتی نظام میں وسیع تر تبدیلیوں کے پروگرام میں کئی اہم شقیں ہیں، جن کی علیحدہ طور پر Knesset (صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ) سے منظوری دی جائے گی۔ گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے “غیر معقولیت کا فیصلہ جاری کرنے” کے اختیار کو منسوخ کرنے سے متعلق شق کو Knesset کے نمائندوں نے ووٹ دیکر منظور کر لیا۔ نیتن یاہو کی حمایت کرنے والے دائیں بازو کے نمائندوں کی منظوری کے مطابق، “اسرائیل” کی سپریم کورٹ اب “غیر معقولیت” کے فیصلے کے ساتھ کابینہ کی منظوریوں کو ویٹو نہیں کرسکتی۔ ایک بار جب یہ بل منظور ہو جائے گا تو نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کے پاس عدالت سے ماورا اختیارات ہوں گے اور ان کے فیصلوں کو کوئی بھی نہیں، حتیٰ کہ سپریم کورٹ بھی نہیں چیلنج کرسکے گی۔حالانکہ عدالت نے برسوں سے حکومت کے غیر معقول فیصلوں پر نگرانی اور روک تھام کا کردار برقرار رکھا ہوا ہے۔

مخالفین اس منصوبے کو نیتن یاہو کے لیے قانونی الزامات سے بچنے کے راستے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ نیتن یاہو کے مجوزہ منصوبے کی منظوری کنیسٹ کے اراکین کو بغیر کسی نگرانی کے نیتن یاہو کے بدعنوانی کے الزامات کے کیس کو بند کرنے کی اجازت دے گی اور اراکین پارلیمنٹ انہیں بدعنوانی کے الزامات سے بری کرنے کے لیے ووٹ دیں گے۔ اس لیے مظاہرین میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ نیتن یاہو اپنے ذاتی مفادات کے لیے اسرائیل کی قربانی دے رہے ہیں اور اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ اگر سول نافرمانی کا نتیجہ سامنے نہیں آتا ہے تو اپوزیشن نیتن یاہو کی برطرفی کو ایک آپشن سمجھ سکتی ہے۔