بوڑھے حکمران امریکیوں کے لئے وبال جان

یہ ایسے مسائل ہیں جن کا شکار ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ بھی نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ عمر رسیدہ امریکی صدر ہونے کا اعزاز ٹرمپ کو حاصل تھا جو بعد میں جوبائیڈن کو ملا۔ عام امریکی کی رائے میں امریکہ کا آنے والا صدر نوجوان ہونا چاہیئے۔ اس کے لیے قانون سازی کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ نئے امریکی صدر کے سامنے بہت سے چیلنج بھوت بن کر کھڑے ہوں گے۔

فاران: ایسے میں جہاں ایک طرف امریکی عوام کے سر پر آنے والا امریکی صدارتی انتخاب کھڑا ہے وہاں دوسری جانب امریکی عوام کے ذہنوں پر جو شے اس وقت مسلط ہے وہ اس کے صدارتی امیدواروں کا بڑھتا ہوا بڑھاپا ہے۔ امریکہ کی گزشتہ چالیس سالہ تاریخ میں امریکہ کی لیلیٰء اقتدار کو اس قدر عمر رسیدہ اہل اقتدار کا وصل نصیب نہیں ہوا جس قدر آج ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا موجودہ صدر جوبائیڈن، دونوں ہی ایسے چراغِ سحر ہیں جو بجھا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں بزرگان اپنی ڈھلتی عمر کے پیش نظر اپنے دور اقتدار میں کئی بار کیمرے کی آنکھ کے سامنے تماشا بن چکے ہیں لیکن اقتدار کی جنگ میں عمر کو نہیں بلکہ جذبے کو دیکھا جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر بھی اپنی پیرانہ سالی کے باوجود عمر کی آخری شب تک اقتدار سے لپٹا رہنا چاہتے تھے۔ ان کے ایک معروف شعر ”عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن۔۔۔۔ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں“ کے بارے میں بعض ناقدین کا خیال ہے کہ یہ ان کا شعر نہیں ہے بلکہ ان کی حدود شاعری میں کسی کی دراندازی ہے۔

ہمارے خیال میں بھی ان کا یہ شعر امرِ واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کے اس شعر کا ایک مصرعہ حقیقت میں کچھ یوں ہوگا کہ ”جو بھی ملے ہیں دن وہ کٹیں اقتدار میں“ یہی حال ان دو امریکی بزرگوں کا ہے۔ لٹکی ہوئی بھنووں کے نیچے سے ان کی آنکھیں اب بھی اقتدار کے رنگین خواب دیکھتی ہیں۔ جوبائیڈن صاحب کی نیم وا آنکھوں کے چرچے تو عام ہیں۔ کئی بار اس میر محفل کو سر محفل غنودگی کے عالم میں دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں ”نیو یارکر“ نے اپنے ایک شمارے میں ایک کارٹون شائع کیا ہے جس میں امریکی صدارتی امیدواروں کو بیساکھیوں کے سہارے کرسیء اقتدار کی طرف بے تابانہ بڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس وقت 2024ء کے الیکشن کی دوڑ میں 17 صدارتی امیدوار وسل بجنے کے انتظار میں ہیں۔ اس مقابلے میں 80 سالہ جوبائیڈن، 77 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ، 81 سالہ نینسی پولیسی اور ایوان نمائندگان کے 83 سالہ ایک ڈیموکریٹک رکن شامل ہیں۔ صدر بائیڈن کی وہ حرکتیں جو ان کے بڑھاپے کا شاخسانہ اور ان پر تمسخر کا بہانہ ہیں، ان میں سے چند ایک ان کی معروف حرکتیں کچھ اس طرح ہیں:-

1: اسکاٹ لینڈ کے ایک اہم سربراہی اجلاس میں ان کا اونگھنا اور سو جانا۔
2: وائیٹ ہاؤس کے باغ میں کھو جانا یعنی گم ہو جانا۔
3: خودکلامی کرنا اور ہاتھوں سے اشارے کرنا گویا کسی خلاٸی مخلوق سے باتیں کر رہے ہوں۔
4: اپنے قریبی دوستوں کے نام بھول جانا۔
5: ستمبر 2022ء میں اپنی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں ریاست ”انڈیانا“ کے نمائندے ”جیکی والورسکی“ کو بھیڑ میں تلاش کرنا۔ ایسے میں جب کہ وہ ایک ہفتے قبل ٹریفک کے ایک حادثے میں ہلاک ہو چکے تھے اور موصوف ان کی تعزیت کر چکے تھے۔
6: کئی اہم تقریبات میں سیڑھیوں سے منہ کے بل گر جانا وغیرہ وغیرہ۔

یہ ایسے مسائل ہیں جن کا شکار ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ بھی نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ عمر رسیدہ امریکی صدر ہونے کا اعزاز ٹرمپ کو حاصل تھا جو بعد میں جوبائیڈن کو ملا۔ عام امریکی کی رائے میں امریکہ کا آنے والا صدر نوجوان ہونا چاہیئے۔ اس کے لیے قانون سازی کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ نئے امریکی صدر کے سامنے بہت سے چیلنج بھوت بن کر کھڑے ہوں گے۔ عالمی اکھاڑے میں اس وقت بہت سے سورما اپنے مسلز (Muscles) دکھا رہے ہیں۔ جن میں مارشل آرٹ کے ماہر روس کے پوٹن بھی ہیں۔ اس تمام صورت حال کے باوجود ایسے لگتا ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت امریکی صدارتی ہاؤس کے لیے ”اولڈ ہاؤس“ کے کسی مکین پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔