غزہ کی ہولناک تباہی کے مناظر اور اسرائیل نواز میڈیا کا منفی پروپیگنڈہ

کتنی عجیب بات ہے ایک طرف اپنی سرزمین کے لئے لڑنے والے جانباز و مجاہدین ہیں جنکی کاروائی کو دہشت گردانہ قرار دیا جاتا ہے دوسری طرف انسانیت کے قاتل ہیں بچوں کے قاتل ہیں ، ایسے لوگ ہیں جنکے مظالم کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے یہ لوگ بچوں کو قتل کر تے ہیں پھر سوشل میڈیا پر تصاویر بھی وائرل کرتے ہیں۔

فاران: فلسطین کی تاریخ یوں تو خون و قیام کی تاریخ ہے ، ارض بیت المقدس کی گلی کوچوں میں نہ جانے کتنے شہیدوں کے خون یادوں کی خوشبو رچی بسی ہے لیکن حالیہ چند دنوں سے جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے ناقابل بیان و نا قابل برداشت ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے پانی کے نلکوں کے نیچے ہاتھ لگائے زندگی کی گہار لگا رہے ہیں ، تو کتنے ہی بچے ماں کی کوکھ سے دنیا میں آنے کے بعد اس ماں کی چھاتی کو تلاش کر رہے ہیں اپنی امانت کو اپنے ہم وطنوں کو سپرد کر کے ہمیشہ کے لئے آغوش موت میں سو گئی ۔جنگ بندی کے سلسلہ سے ہونے والے مذاکرات کی کامیابی تک چودہ ہزار سے زیادہ بے گناہ لوگ جاں بحق ہوچک
ے ہیں ایک بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے ۶۲ فیصد زخمی ہونے والے اور جاں بحق ہونے والوں میں عورتیں اور بچے ہیں اسرائیل نے ۷۰۰۰ سے زائد جگہوں پر تباہ کن بمباری کر کے غزہ کو تباہ و برباد کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ہر سمت ویران مساجد ، مدرسے اسکول اور اسپتال ہیں جہاں چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہیں
غزہ میں اس وقت جو ہو رہا ہے اسے دیکھ ہر صاحب احساس تڑپ تڑپ جا رہا ہے ، کتنے ایسے ہیں جو راتوں کو صحیح سے سو نہیں پاتے انہیں کانوں میں غزہ کے بچوں کی فریادیں ، عورتوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں ، دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں آزاد ضمیر لوگ بلا قید مذہب و ملت اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے سڑکوں پر ہیں اس کے باوجود اسرائیل کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ، غزہ میں بجلی پانی اور غذا کی سپلائی بند ہیں جنگ بندی کے مذاکرات کی کامیابی کے بعد بھی اسرائیل کی طرف سے یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ جنگ بندی محض چار دنوں کے لئے ہے ہم آگے بھی غزہ کو نشانہ بناتے رہیں گے حماس کی جانب سے پچاس اسرائیلی غیر فوجی باشندوں کی رہائی کی ڈیل کو قبول کرنے کے بعد بھی ابھی اسرائیلی جارحیت کے خطرات غزہ پر منڈلا رہے ہیں دنیا کی نظریں اسرائیل و حماس کی جزوی جنگ بندی کی خبروں پر ہیں جبکہ غزہ کے اسپتالوں میں مریضوں کے لئے جگہ نہیں وہ مردہ خانوں میں بدل چکے ہیں اقوام متحدہ کی جانب سے بار بار بڑے انسانی المیہ کا انتباہ دیا جا رہا ہے ، لیکن افسوس کچھ بڑی طاقتوں کی ایماء پر اسرائیل فلسطینیوں اور غزہ کے نہتھوں پر ٹنوں بم بر ساتا رہا ہے ، کتنے افسوس کا مقام ہے روس کی جانب سے جنگ بندی کے لئے سلامتی کونسل میں قرار داد پیش کی جاتی ہے لیکن امریکہ کے ساتھ برطانیہ اور فرانس مل کر اسکے خلاف وو ٹنگ کر کے اسرائیل کے ہاتھ غزہ پر ظلم ڈھانے کے لئے کھلے چھوڑ دیتے ہیں ، یہ وہ ممالک ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ حقوق انسانی کا شور مچاتے ہیں سب سے زیادہ دنیا میں جنگ و خونریزی کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں دنیا کو امن کا سبق سکھاتے ہیں ، اب جب ایک ملک جنگ بندی کی بات کرتا ہے تو اسکا ساتھ دینے کو تیار نہیں اس کا مطلب یہ ہے جنگ کے سلسلہ سےبھی یہ پہلے اپنے مفاد کو دیکھتے ہیں ، اگر انہیں نظر آتا ہے کہ ہمارا مفاد جنگ میں ہی ہے جنگ رک جائے گی تو ہمارے اسلحوں کو کون خریدے گا جنگ رک جائے گی تو لوگ چین و سکون سے رہیں گے پھر اسلام ہراسی کیسے ہوگی تو یہ لوگ جنگ بندی کے خلا ف ہو جاتے ہیں ، ان تین ممالک نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں روس کی قردار داد کی مخالفت کر کے واضح کر دیا غزہ اگر اسرائیل کے محاصرے میں ہے تو سلامتی کونسل ہمارے محاصرے میں ہیں ہم نے اسے یرغمال بنایا ہوا ہے جیسا ہم چاہیں گے ویسا کریں گے چونکہ ہم خود صہیونیوں کے یرغمالی ہیں ۔
مشرق وسطی کے سنگیں حالات :
مشرق وسطیٰ اس وقت آگ کی خندق بنا ہوا ہے ، ہر طرف سے آگ برس رہی ہے ، لبنان کی سرحدوں پر گولہ باری ہو رہی ہے تو اسرائیل کی جانب سے شام کے بعض علاقوں پر بھی بمباری ہو رہی ہے ، غزہ میں روز بروز ہلاکتیں بڑھتی جا رہی ہے اب۱۴ہزار سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے لیکن افسوس ہندوستانی میڈیا میں بس یہی دکھانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اسرائیل پر ظلم ہوا ہے اور وہ اپنے اوپر ہونےوالے ظلم کا بدلہ لے رہا ہے اس وقت مشرق وسطی اپنے خطرناک ترین دور سے گزر رہا ہے ، اگر ہم ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ حماس نے جو کچھ کیا وہ ایک دبا ہوا لاوا تھا جو ابل گیا مسلسل اسرائیل کی جانب سے غزہ پر اندھا دھند بمباری کا ہونا ، فلسطینیوں کو ہرا ساں کرنا ، جب چاہے دندناتے ہوئے فلسطین کے پناہ گزیں کیمپوں پر حملہ کر دینا روز روز کی ایک طرفہ کاروائیوں سے فلسطینی تھک چکے تھے یہی وجہ ہے کہ مزاحمتی محاذ نے کرو اور مرو کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایسا کچھ کر دیا جس کے بارے میں صہیونیوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا ، جو کچھ ہوا اس کے بعد نیتن یاہو کی جانب سے جو کہا جا رہا ہے ایک نیا مشرق وسطی وجود میں آئے گا یہ سچ لیکن یہ ویسا مشرق وسطی ہرگز نہیں ہوگا جیسا امریکہ و اسرائیل نے سوچا ہے یہ مشرق وسطی ویسا ہوگا جیسا فلسطینی چاہیں گے ۔
جھوٹی خبروں کا بازار اور منفی پروپیگنڈہ :
اس وقت غزہ میں اسرائیل کی جارحیت و کھلی بہیمیت کے باوجود بعض چینلوں پر اس قسم کی گفتگو دیکھنے کو مل رہی ہے جیسے اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس کی مجبوری ہے جبکہ چین سے لیکر کینڈا تک اعلی عہدے دار واضح طور پر کہہ رہے ہیں یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے محض دفاع کا نام نہیں دیا جا سکتا ہے یہ فلسطینی عوام کی نسل کشی ہے ایسے میں بعض ملکی نیوز ایجنسیوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے بعض اسرائیلی بستیوں میں حماس کے جنگجووں نے گھس کر عام لوگوں کا قتل عام کیا بچوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں چھوڑا بی بی سی نے بھی اس رپورٹ کو شایع کیا ہے ہندوستانی میڈیا میں خاص کر یہ بات زور شور سے اٹھائی جا رہی ہے کہ ہندوستانی مسلمان حماس کی دہشت گردانہ کاروائی کی تو مذمت نہیں کر رہے ہیں لیکن حماس کے حملے کے بعد اب جب اسرائیل انتقامی کاروائی کر رہا ہے تو ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی اس قسم کی باتیں کرنے والے ایک طرفہ طور پر رپورٹنگ کر رہے ہیں جبکہ جتنی بھی خبریں حماس کی انتقامی کاروائی کے سلسلہ سے گردش کر رہی ہیں انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کہاں سے آ رہی ہیں جتنی بھی باتیں ہیں سب مغربی میڈیا کی جانب سے بیان ہو رہی ہیں اور خود مغربی میڈیا کا انداز کبھی بھی خبروں کے سلسلہ سے منصفانہ نہیں رہا ہے آپ دیکھیں کہ کس طرح امریکہ میں ایک ۶ سالہ فلسطینی بچے کا قتل بیمانہ قتل ہوتا ہے اسے مغربی میڈیا کس انداز سے پیش کرتا ہے ؟ یہ قتل جس کی تصدیق خود امریکہ کے صدر جمہوریہ بائڈن کا بیان کرتا ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے بالکل یقینی و صحیح خبر ہے اس کے بارے میں مغربی میڈیا کی کوریج کو آپ دیکھیں اس خبر کو مغربی میڈیا نے اپنے اخبارات و جرائد میں کہاں رکھا اس پر کتنے ٹاک شو ہوئے کتنی گفتگو ہوئی کتنے تجزیے ہوئے اس کے برخلاف ایک ایسی جھوٹی خبر جس کی تردید خود وائٹ ہاووس نے کی جو اسرائیلی بچوں کے حماس کی جانب سے قتل کے سلسلہ سے تھی اسے دیکھیں مغربی میڈیا نے کس طرح اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جبکہ اسکی کوئی حقیقت نہ تھی یہ تومغرب کا دہرا رویہ ہے ابھی غزہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد کو دیکھ لیں لیکن مغربی میڈیا کس طرح پیش کر رہا ہے یہ آپ دیکھ رہے ہیں ، اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے کہہ کر طفل کشی کا جو جواز مغربی حکومتیں فراہم کر رہی ہیں اسی جواز کو تسلیم کر کے جب مغربی میڈیا رپورٹنگ کرے گا تو انداز یہی ہوگا جو ہے ، جہاں تک ہا ہا کار مچنے کی بات ہے احتجاج کی بات ہے تو یہ احتجاج اس بات کا بیان گر ہے کہ ہم زندہ ہیں ہمارے پہلو میں دل دھڑک رہا ہے اس لئے ہم غزہ کے محاصرہ اور اسرائیل کی جانب سے قتل عام کی مذمت کر رہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے بعض یہودی رہنما کر رہے ہیں ، آپ ہارتز اخبار اٹھا کر دیکھ لیں مختلف کالمز اسرائیلی صحافیوں کے روز ہی آپ کو مل جائیں گے جس میں اسرائیل کی غزہ پر بمباری کی با قاعدہ مذمت کی جا رہی ہے ہندوستان کے منصف مزاج صحافی جناب رویش کمار نے اس سلسلہ سے ایک ویڈیو بھی بنائی ہے جو کافی حد تک اس مسئلہ کی وضاحت کر رہی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جو کاروائی ہو رہی ہے اس کی مخالفت خود اسرائیل کا پڑھا لکھا طبقہ بھی کر رہا ہے یہ تو بس ہندوستان کے کچھ نام نہاد صحافی ہیں جو چیخ چیخ کر ایک طرفہ طور پر اسرائیل کی حمایت میں بول رہے ہیں جس سے خود انہیں کے جنرلزم و پیشہ کی دھجیاں اڑ رہی ہیں ۔
کتنی عجیب بات ہے ایک طرف اپنی سرزمین کے لئے لڑنے والے جانباز و مجاہدین ہیں جنکی کاروائی کو دہشت گردانہ قرار دیا جاتا ہے دوسری طرف انسانیت کے قاتل ہیں بچوں کے قاتل ہیں ، ایسے لوگ ہیں جنکے مظالم کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے یہ لوگ بچوں کو قتل کر تے ہیں پھر سوشل میڈیا پر تصاویر بھی وائرل کرتے ہیں آپکے علم میں ہوگا کہ کس سال قبل ح مشرقی بیت المقدس میں ایک یہودی لیڈر نے دو فلسطینی بچوں کو اپنی گاڑی سے کچل دیا اور فرار ہو گیا جسکی خبر خود مغربی میڈیا نے بھی دی لیکن بس ایک خبر کی حد تک بچوں کو مارنا عورتوں کو ستانا مردوں کو اسیر کرنا اور قتل و غارت گری صہیونیوں کے وحشی پن کوبیان کرنے کے لئے کافی ہے اسکے باوجود دنیا انکے مظالم پر آنکھ بند کئے بیٹھی ہے کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے ؟، اسرائیل نواز میڈیا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہو ساری دنیا کو وہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے جو اسرائیل چاہتا لیکن کچھ زندہ ضمیر لوگ ہر طرح کے مفادات سے اوپر اٹھ کر حقائق کو بیان کر رہے ہیں ایسے میں ہم سب کوکسی بھی خبر کی پر اعتبار سے پہلے ضروری ہے کہ اس کی تصدیق کر لیں جہاں جنگ و خونریزی کے شعلے بلند ہیں وہیں جھوٹ و فریب کے شعلے بھی بلند ہیں یہ اور بات ہے کہ فلسطینیوں کی مظلومیت نے دنیا کے سامنے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا ہے ۔