اہل غزہ نہیں پوری امت بے لباس ہے

ہر روز کوئی نہ کوئی تباہ کن خبر ملتی ہے کہ دل پسیج جاتا ہے۔ غزہ کی اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر کو اسرائیلی افواج نے بمباری میں پورے خاندان سمیت شہید کر دیا ہے۔ وہ انگلش زبان کے ماہر تھے اور فلسطین کا مقدمہ بڑی خوبصورتی سے دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے۔ افسوس اس خالص اکیڈمک شخصیت کو بھی شہید کر دیا گیا۔
فاران: ہم جذباتی بھی ہیں اور حساس بھی، دنیا میں جہاں کہیں کسی پر ظلم و جبر ہو، بے چین ہو جاتے ہیں۔ یہ کربلا سے نسبت کا اثر ہے کہ مظلوم کا مذہب، قوم قبیلہ یا رنگ دیکھ کر اس کا تعین نہیں کرتے بلکہ مظلوم جو بھی ہو، اس کی حمایت کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ابو غریب امریکی ماتھے پر لگا وہ کلنک ٹیکہ ہے، وہ جب بھی انسانی حقوق یا آزادی کی بات کرے گا، وہ تصاویر اس کی بربریت کو بے نقاب کرتی رہیں گی۔ اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کی غاصب افواج نے اقوام متحدہ کے سکولوں کا محاصرہ کیا، جہاں نہتے فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے اور پھر اعلان کیا کہ یہاں سے مرد باہر آجائیں، ورنہ انہیں گولی مار دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی جان بچانے کے لیے عام آدمی باہر آنے لگے۔ ان لوگوں نے انہیں اغوا کر لیا اور اپنی ہی بربریت کا شکار عمارات کے سامنے  ننگا کرکے انہیں اسلحہ پکڑوا کر یہ ڈرامہ رچایا گیا کہ یہ حماس کے مجاہد ہیں، جنہوں نے ہتھیار ڈالے ہیں۔
اتفاق دیکھیے کہ ان بے گناہوں میں غزہ کے ایک معروف صحافی بھی ہیں، جنہیں لوگ پہنچاتے ہیں۔ ان کی تصویر آنے سے پورے ڈرامے کا پول کھل گیا اور جہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا، وہاں ان کے لواحقین نے دنیا کو بتایا کہ انہیں یہاں سے اٹھایا گیا ہے۔ کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ اپنے ورلڈ آرڈر کی تکمیل کے لیے انسانیت کا اتنا بڑا دشمن ہوسکتا ہے کہ اسے ملینز کی  تعداد میں بے گھر لوگ نظر نہیں آتے اور نہ ہی اسے وہ سات ہزار بچے نظر آتے ہیں، جنہیں اسرائیلی افواج نے شہید کر دیا ہے۔ امریکہ کی اپنی سڑکوں پر ہزاروں لوگوں کی آوازیں بھی امریکی پالیسی سازوں پر اثر انداز نہیں ہو رہیں، جو جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے آرٹیکل نوے کے تحت بلایا جانے والا سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ناکام ہو گیا ہے۔ اس اجلاس میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے سب اراکین نے اس کے حق میں ووٹ دیئے، بس امریکہ نے اس کی مخالفت کی اور اسے ویٹو کر دیا۔اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ اس اجلاس سے غائب رہا اور ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ نے چالیس سے زائد مرتبہ اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کیا۔ جب بھی کوئی قرارداد اہل فلسطین کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں سے اقوام متحدہ میں آتی ہے تو اسے امریکہ ویٹو کر دیتا ہے۔ اس بار تو امریکی نمائندے نے اپنی تقریر میں بار بار ہمارے لوگ کا استعمال کیا اور اس سے مراد فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے والوں کو لیا۔ ویسے بھی رپورٹس گردش کر رہی ہیں کہ وہاں امریکی کمانڈوز عملی طور پر اسرائیل کی مدد کے لیے موجود ہیں۔
ہر روز کوئی نہ کوئی تباہ کن خبر ملتی ہے کہ دل پسیج جاتا ہے۔ غزہ کی اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر کو اسرائیلی افواج نے بمباری میں پورے خاندان سمیت شہید کر دیا ہے۔ وہ انگلش زبان کے ماہر تھے اور فلسطین کا مقدمہ بڑی خوبصورتی سے دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے۔ افسوس اس خالص اکیڈمک شخصیت کو بھی شہید کر دیا گیا۔ ویسے غزہ کی اسلامک یونیورسٹی کو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کی عمارت کے اکثر حصے گرا دیئے گئے ہیں۔ ویسے بھی قابض قوتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ محکوم قوم کے تہذیبی تحفظ کی تمام علامات کو مٹا دے، تاکہ محکوم قوم ہیروز اور روایات سے خالی ہو جائے۔
استادوں کو قتل کرنا، سپریم کورٹ کی بلڈنگ کو اڑا دینا، پارلیمنٹ کو بلڈوز کر دینا، یہ سب بتاتا ہے کہ دشمن صرف انسانوں کو نہیں بلکہ ہر علامت کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اسے دنیا کے کسی قاعدے قانون کی پرواہ نہیں ہے۔ جسے امریکہ بہادر کی ویٹو پاور اور متواتر گولہ بارود کی سپوٹ حاصل ہو، وہ قاعدے قانون کی پرواہ کیوں کرے گا۔؟َ اس سب میں امت کہاں کھڑی ہے؟ ان برہنہ تصویروں کے سامنے آنے کے بعد مغربی ممالک میں احتجاج ہوئے ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگوں نے اسے انسانیت کی تذلیل قرار دیا ہے، مگر امت کہاں ہے؟ آپ کو سعودی عرب، ترکی یا قطر کا کوئی تہدیدی بیان ہی نظر آیا ہو؟ یہ سب خاموش ہیں بلکہ دل ہی دل میں راضی ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ ایسا ہوتا رہے، تاکہ آخر میں ہم جیسا بھی فیصلہ ان پر مسلط کریں، وہ اسے رحمت سمجھ کر قبول کر لیں۔
امت کے اس کردار پر پروفیسر ڈاکٹر جمیل اصغر جامی صاحب نے خوب لکھا ہے۔ گاندھی جی برطانیہ میں تھے اور شاہ برطانیہ جارج پنجم سے ان کی ملاقات طے تھی۔ گاندھی جی کا اصرار تھا کہ وہ تو لنگوٹ میں ہی ملیں گے، لیکن شاہی دستور کے مطابق یہ لباس قطعاً مناسب نہیں تھا۔ شاہ کے مصاحبوں نے جب بہت اصرار کیا تو گاندھی جی نے کہا کہ وہ اُوپر ایک چادر اُوڑھ لیں گے، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لہذا گاندھی جو جب لنگوٹ کے اُوپر چادر اُوڑھے، دربارِ شاہی میں داخل ہوے تو شاہ نے خوش آمدید کہنے کے بعد پہلا سوال کیا: ?Ghandhi Sahib, How is India. جواباً گاندھی جی نے چادر نیچے گِرا دی اور کہا: Excellency, India is like this۔ آج اگر کوئی متجسس ہو کہ اُمہ کس حال میں ہے، تو وہ بے کسی اور لاچاری کی یہ تصویر دیکھ لے، جس میں اہل فلسطین کو برہنہ کھڑا کیا گیا ہے۔