تھنک ٹینکس میں صہیونیت کا اثر و رسوخ 

اس فصل کے سرسری مطالعے سے قارئین امریکی ابلاغیاتی اداروں پر یہودیوں کے مکمل کنٹرول پر مبنی حقیقت کو بخوبی جان لیتے ہیں؛ اور حقیقت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر یہودی تسلط نہ صرف امریکیوں بلکہ پوری دنیا والوں کی زندگی کی اہم ترین حقیقت ہے۔

فاران؛ صہیونی لابی یا یہودی لابی اور بطور عام تھنک ٹینکس یا امریکہ کے فکری مراکز میں اسرائیل کی حامی قوتیں، جو عمومی مباحثات نیز عملی پالیسیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، ان اداروں میں بالادستی رکھتی ہیں۔ اس لابی نے اپنا فکری مرکز یا انسٹی ٹیوٹ سنہ 1985ء میں قائم کیا اور اسی زمانے میں امریکی سفارتکار مارٹن اینڈیک (Martin Indyk) نے “واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ برائے مشرق قریب پالیسی (WINEP) (1) کی تاسیس میں مدد کی۔
اگرچہ یہ ادارہ اسرائیل کے ساتھ اپنے قریبی رشتوں کو صیغہ راز میں رکھتی ہے، اور دعوی کرتی ہے کہ اس نے اپنی کوششوں کو مشرق وسطی سے متعلق مسائل میں متوازن اور حقیقت پسندانہ پالیسی پر مرکوز کیا ہؤا ہے، لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کے منتظمین اور مالی سہولت کار وہ لوگ ہیں جو شدت کے ساتھ، اسرائیلی مقاصد آگے بڑھانے کے پابند ہیں۔ امریکی تھنک ٹینکس کی دنیا میں یہودی-صہیونی لابی کا اثر و رسوخ صرف اسی ادارے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے حالیہ 25 برس کے عرصے میں، اسرائیل کی حامی؛ قوتیں امریکن تجارتی ادارے، (2) بروکنگز انسٹی ٹیوشن، (3) سلامتی کی پالیسی کے مرکز، (4) خارجہ پالیسی کے تحقیقاتی ادارے، (5) ہیریٹیج فاؤنڈیشن، (6) ہڈسن انسٹی ٹیوٹ، (7) خارجہ پالیسی کے تجزیاتی انسٹی ٹیوٹ، (8) اور قومی سلامتی امور کے یہودی انسٹی ٹیوٹ (JINSA)، (9) میں آمرانہ کردار ادا کرنے کا مؤثر اہتمام کیا ہے۔ یہ تھنک ٹینکس قطعی طور پر یہودی ریاست (اسرائیل) کے حامی ہیں اور اگر ہم مان بھی لیں کہ اس میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے یہودی ریاست کی حمایت پر تنقید بھی ہوتی ہے تو ایسے ناقدین کی تعداد بہت کم ہے۔ (10)
اس فصل کے سرسری مطالعے سے قارئین امریکی ابلاغیاتی اداروں پر یہودیوں کے مکمل کنٹرول پر مبنی حقیقت کو بخوبی جان لیتے ہیں؛ اور حقیقت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر یہودی تسلط نہ صرف امریکیوں بلکہ پوری دنیا والوں کی زندگی کی اہم ترین حقیقت ہے۔ خبروں اور ابلاغیاتی پروگراموں پر یہودی کنٹرول امریکی سیاسی نظام میں ایک نہایت اہم اوزار یہودیوں کو عطا کرتا ہے جس کے ذریعے وہ امریکہ کے مختلف شعبوں پر اپنا تسلط جما لیتے ہیں۔ یہ مسئلہ صہیونی یہودیوں کو یہ امکان فراہم کرتا ہے کہ امریکی بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں اور افکار پر گہرا تسلط پا سکیں۔

یہ وہی “ثقافتی استعمار” (11) ہے جس کی طرف مشہور امریکی ماہر عمرانیات و مفکر ” ایمانوئل والیرسٹائن” (12) اپنی کاوشوں میں، اشارہ کرتے ہیں۔ (13)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] .Washington Institute for Near East Policy (WINEP)
[2] Foundation for American Business.
[3] Brookings Institution.
[4] Centre for Security Policy
[5] Foreign Policy Research Institute
[6] Heritage Foundation
[7] . Hudson Institute
[8] Institute for Foreign Policy Analysis
[9] Jewish Institute for National Security Affairs(JINSA)
[10] میرشایمر و والت. لابی اسرائیل و سیاست خارجی آمریکا، ص36.
[11] Cultural Imperialism
[12] Immanuel Wallerstein
[13] ہربرٹ شیلر (Herbert Schiller) ایمانوئل والیرسٹائن کے حوالے سے ثقافتی استعمار کے لئے ذیل کے کوائف بیان کرتے ہیں: “ثقافتی استعمار کا لفظ در حقیقت ایک قسم کے سماجی اثر و رسوخ (نفوذ) پر دلالت کرتا ہے، جس کے ذریعے ایک ملک اپنے تصورات، اقدار، معلومات، رویوں کے اصولوں نیز اپنی زندگی کی روشوں کو دوسرے ممالک پر ٹھونس دیتا ہے”۔ جب ایک ملک دوسرے ملک میں سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، فطری طور پر یہ توقع رکھنا پڑتی ہے کہ وہ اس ملک میں اپنا ثقافتی نفوذ بھی بڑھائے گا۔ اگر یہ نفوذ یا اثر و رسوخ دوطرفہ ہو تو اس کو ثقافتی تبادلہ کہا جائے گا لیکن اگر ایک مرکزی حیثیت پانے والے ملک کی ثقافت، اس کے زیر تسلط ممالک پر یکطرفہ طور پر – اور ان ملکوں کی ثقافتی سالمیت کے خلاف، – مسلط کی جائے تو یہ ثقافتی استعمار کا مصداق ہے۔ (رجوع کریں: کاظم معتمدنژاد، سہ ماہی مجلہ “رسانہ” (ابلاغیات)، سال ہفتم، 1375ہجری شمسی، شمارہ 2، صفحہ 3)۔