گریہ و زاری تحفظ مکتب حسینیت کا سبب
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہيں:اس گریہ و زاری اور نوحہ و ماتم کے ذریعے ہم حسینی مکتب کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ اب تک کرتےآئے ہيں۔
مکتب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کا تحفظ، اہل بیت کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے ذریعے کیا گیا ہے اور اس لحاظ سے کہ ظالم حکمرانوں نے پیہم اس ثقافت کو محو اور نیست ونابود کرنے کی کوشش کی ہے اس لئے مظلوم کربلا کی عزاداری نے خود بہ ہمہ جہت جہادی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ عزاداری اور گریہ کا ایک خاص پہلو، ظلم و ستم مخالف جذبے کو زندہ رکھنا ہے۔
مکتب ع کربلا میں عبادت کو اسلامی معاشرے کے معنوی و اخلاقی فضائل اور دینی تعلیمات میں سر فہرست قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی عزت و سربلندی ان کے ایمان اور معنویت کی مرہون منت ہے ۔
عزاداری پاسبان مقصد سید الشہداء:
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد، اسلامی معاشرے کو درپیش خطروں کو دور کرنا تھا ۔ روح کی بالیدگی اور معنویت کی طرف رجحان کربلا کا وہ عظیم سرمایہ ہے جو کسی اور کے پاس نہیں اسی لئیے ہماری تہذیب میں اس غم کی بہت قیمت ہے اور ہماری ثقافت ميں مذہبی پیشواؤں اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار کی مجالس اور عزاداری کا انعقاد، عبادت ہے ۔ اس لئے کہ عزاداری، معنویت میں فروغ کا باعث ہوتی ہے اور انسان کو انسانیت کے اعلی ترین مدارج تک پہنچانے میں مدد دیتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری اور حزن واندوہ، باطنی تغیر وجود ميں آنے اور اس کے ساتھ ہی انسان کے روحانی کمال کا باعث ہوتا ہے ۔اور اس سے انسان میں تقوی اور انسان کو خدا سے نزدیک کرنے کے مقدمات فراہم ہوتے ہيں۔ اسی طرح، عوام بھی اس مظلوم کے ساتھ، جو عقیدے کی راہ میں موت کو سعادت اور ستمگر کے سامنے تسلیم ہو جانے کو باعث ننگ و عار قرار دیتا ہے، اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہيں اور ظلم کے خلاف جدو جہد کرنے اور ظالموں سے کوئی ساز باز نہ کرنے کو اپنا شعار بناتے ہيں ۔ اور یہی وفاداریاں ہی ہیں جو قوموں کو، استعمار گروں کے حرص و طمع کے مقابلے میں محفوظ رکھتی اور سامراج کے اثرو رسوخ کی راہوں کو بند کردیتی ہیں۔
سید الشہداء کی تحریک کی کامیابی اور انقلاب اسلامی:
کیایہ اس انقلابی تحریک کی کامیابی نہیں کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے ذریعہ سے لڑی گئی جنگوں کے بعد آج تاریخ میں نہ ان کے کمانڈروں کا تذکرہ ہے نہ نامور شہسواروں کا لیکن حسین کے ۷۲ جانثار ہر صاحب احساس کے دل کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں ۔
کیوں نہ ہو توحید و حق گوئی اس انقلابی تحریک میں عملی طور پرنمایاں نظر آتے ہیں اور اسی سبق نے ایران کے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کو یقینی طور پر کربلا کے درس سے الہام لینے اور اس واقعہ کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے کیونکہ اسلامی انقلاب نے کربلاسے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اسی کو اپنے لئے نمونہ قرار دیا ایران کے عوام نے اسلامی انقلاب کو آسانی سے کامیاب نہيں بنایا ہے اس نے اپنے ملک ميں جو اسلامی نظام قائم کیا ہے وہ آسانی سے ممکن نہيں ہوا ہے ۔ گذشتہ ۳۹برسوں ميں ایران کے عوام نے اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہيں اور جب تک قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا کوئی طاقت نہیں ہے اس انقلاب کو گزند پہنچا سکے اس لئیے کہ کربلا قربانیوں کے تسلسل کا نام ہے۔
تبصرہ کریں