فرعونوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ایران کی ایٹمی طاقت
فاران: پہلے مرحلے پر ایران کے جوہری پروگرام میں سرگرم ایک اہم ذمہ دار، بریگیڈیئر جنرل احمد حق طلب نے 19 اپریل کے دن خبردار کیا کہ اگر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے تہران پر دباو ڈالنے کی غرض سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا ہتھکنڈہ استعمال کیا تو جوہری پروگرام سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کی ڈاکٹرائن اور پالیسیوں میں “نظرثانی” انجام پانے اور ماضی میں اعلان کردہ تحفظات سے عبور کر جانے کا امکان پایا جاتا ہے۔ ایران کے اس ذمہ دار کا یہ بیان عالمی حلقوں کی جانب سے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا فیصلہ کرنے کے طور پر قرار دیا گیا ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات کی سیکورٹی کے ذمہ دار بریگیڈیئر جنرل احمد حق طلب کا یہ بیان ایسے حالات میں سامنے آیا تھا جب ایران شام میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی میزائل حملے کا منہ توڑ جواب دے چکا تھا۔
ایسے حالات میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کسی قسم کی شرارت کا امکان پایا جاتا تھا۔ اس کے بعد جب اصفہان کے ایک فوجی مرکز پر اسرائیل کا ناکام کواڈکاپٹر حملہ انجام پایا تو حالات بدل گئے اور یہ خطرہ تقریباً ٹل گیا لیکن ایران کی جانب سے اپنی جوہری پالیسی کے بارے میں نیا موقف سامنے آنا جاری رہا۔ تقریباً تین ہفتے پہلے ایران کی جوہری سرگرمیوں کے ذمہ دار سید کمال خرازی، جو خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کاونسل کے سربراہ بھی ہیں، نے الجزیرہ نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے اس نئے موقف کی مزید وضاحت کی۔ سید کمال خرازی، جو رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے خصوصی مشیر بھی ہیں، نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر غاصب صیہونی رژیم نے کوئی گستاخانہ اقدام کیا اور ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچایا تو ہماری جانب سے ڈیٹرنس کی سطح مختلف ہو گی۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایران کا وجود خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں ہم اپنی جوہری ڈاکٹرائن تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کاونسل کے سربراہ کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات پر حملے جیسے اقدامات کے مقابلے میں اپنی جوہری ڈاکٹرائن تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کو درپیش خطرات کے بارے میں بھی تحفظات رکھتا ہے۔ خطرے کا یہ احساس بلاوجہ نہیں ہے بلکہ اس کا خطے میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں سے گہرا تعلق ہے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم امریکہ کی بھرپور حمایت کے ذریعے اب تک غزہ کی پٹی میں 34 ہزار کے لگ بھگ فلسطینیوں کا قتل عام کر چکی ہے جن میں 14 ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ مزید برآں، 1 لاکھ زخمیوں کے ساتھ ساتھ 23 لاکھ فلسطینی شہری گذشتہ سات ماہ سے شدید محاصرے کا شکار ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر فضائی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اس دوران غاصب صیہونی حکام اہل غزہ سمیت خطے کے کئی ممالک کو جوہری حملوں یا ان کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی دھمکی دے چکے ہیں۔ یہ صورتحال طاقت کے ایسے کھلے استعمال کو ظاہر کرتی ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جو بہت تیزی سے مغربی ایشیا کے دیگر حصوں تک پھیل سکتا ہے۔ ان مجرمانہ اقدامات کا براہ راست ذمہ دار تل ابیب ہے لیکن ایک طاقتور حامی سے برخوردار ہے جس نے صیہونی حکمرانوں کی مدد سے خطے کی ایسی تیسی کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔ یہ منصوبہ صیہونی حکمرانوں کی جانب سے امریکہ کی مدد سے غزہ سے لے کر شام اور لبنان تک اسلامی مزاحمتی گروہوں کی مرحلہ وار نابودی پر مشتمل تھا۔ لیکن 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن سے یہ منصوبہ قبل از وقت پیدائش کا شکار ہو گیا جس کے باعث بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے۔
جوہری پروگرام سے متعلق ڈاکٹرائن میں تبدیلی ایران کی ڈیٹرنس طاقت کی سطح میں تبدیلی ضرور ہے لیکن اس کی آخری حد نہیں ہے۔ وہ حکمران جو ایران کو عظیم نقصان کے ہمراہ حملوں کی دھمکیا دیتے ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ جوابی اقدام میں انہیں جو نقصان پہنچے گا وہ یقیناً اس سے زیادہ ہو گا۔ شام میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی جارحیت کے جواب میں انجام پانے والے “وعدہ صادق” آپریشن نے ثابت کر دیا ہے کہ ایران ہر جارحیت کے مقابلے میں جارح طاقت کو زیادہ بڑا نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ لہذا اگر صیہونی دشمن ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا کر جوہری آلودگی پیدا کرے گا تو ایران جوابی کاروائی میں زیادہ وسیع پیمانے پر آلودگی پیدا کر دے گا۔ سید کمال خرازی کی زبان سے بیان ہونے والی ایران کی وارننگ کو صرف جوہری ہتھیاروں کی تیاری تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر مدمقابل نے کوئی بھی ایسا غیر معمولی اقدام انجام دیا تو جس سے ایران کے وجود کو خطرہ لاحق ہوتا ہو تو ایران بھی اس کے وجود کو خطرے میں ڈال دے گا۔
ایران کسی صورت جوہری ہتھیاروں کی تیاری، تجربات اور ذخیرہ اندوزی کے درپے نہیں ہے لیکن یہ کہ حالات اسے اس کام پر مجبور کر دیں اور اسے جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک کی جانب سے غیر معمولی خطرہ درپیش ہو جائے۔ ایسی صورت میں اسے بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا قانونی جواز حاصل ہو جائے گا۔ روایتی طور پر جوہری ہتھیار ایران کی ڈیٹرنس ڈاکٹرائن میں شامل نہیں ہیں لیکن غاصب صیہونی رژیم کی دھمکیوں نے فضا تبدیل کر دی ہے اور جوہری ڈیٹرنس کی ضرورت پیدا کر دی ہے۔ یہ مسئلہ اسرائیل کے حامیوں کیلئے اہم ہونا چاہئے کیونکہ کوئی بھی ملک اپنی پراکسی کو خاص ہتھیاروں سے لیس کر کے اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس وقت پوری دنیا جانتی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ لہذا اب ابہام صرف ایران کے “ارادے” کے بارے میں ہے اور یہ کہ ایران کن حالات میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کا فیصلہ کرے گا؟
تبصرہ کریں