یہودی ریاست کا معاشی بحران

غاصب ریاست سائنس اور ٹیکنالوجی پر استوار صنعتوں، سائنسی تحقیق کے نجی اور جامعاتی مراکز کی حمایت کرتی ہے اور یہ بھی معاشی ترقی میں مؤثر ہے۔ یہ سرکاری حمایت اور امداد اس قدر زیادہ تھی کہ اس ریاست میں مجموعی ملکی پیداوار میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات کا حصہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

فاران؛ فلسطین پر یہودی-اسرائیلی قبضے سے قبل، اس ملک کی معیشت کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن بالفور اعلامیے کے بعد اور اس سرزمین کی طرف یہودیوں کے بہاؤ کے بعد حالات رفتہ رفتہ بدل گئے۔ پناہ گزین یہودی صاحب ثروت تھے، برطانیہ کی فوجی اور سرکاری حمایت سے بہرہ ور تھے چنانچہ مسلم کاشتکار اور تاجر آہستہ آہستہ منظر عام سے ہٹ گئے یا پھر کرایہ دار بن گئے۔ بالفاظ دیگر، معاشی صورت حال کچھ ہی مدت بعد اور بہت تیزی کے ساتھ یہودیوں کے حق میں بگڑ گئی۔
البتہ اس حقیقت سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے کہ بےتحاشا بیرونی امداد اور جرمن حکومت کی طرف سے ہالوکاسٹ کے پسماندگان کو ملنے والا سالانہ تاوان – جو ہنوز جاری ہے – بھی یہودی ریاست کے معاشی نُمُو میں اضافے کا مؤثر ہے؛ مثال کے طور پر امریکہ اسرائیل کو ہر سال تین ارب ڈالر امداد دیتا ہے اور یہ امیر یہودیوں کی مالی اعانت اور چندوں کے علاوہ ہے جو وہ ٹیکس سے بچنے کے لئے اسرائیل کی مدد کرنے والے خیراتی اداروں کو ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ سے بڑی رقوم بطور عطیات اور قرضہ جات وصول کیے ہیں جو ابھی تک ادا نہیں ہوئے ہیں؛ یہ وہ [خفیہ] عطیات اور واجب الادا قرضے ہیں جن کی امریکی عوام کو خبر نہیں ہے۔ چنانچہ یہودی ریاست نے ان کمیاب مالیاتی مواقع سے فائدہ اٹھا اور ان کی مدد سے اپنے معاشی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور اسے تقویت پہنچائی اور قابل توجہ ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ (1)
یہودی ریاست کی معیشت کا تاریخچہ
اسرائیلی ریاست کو ذرائع کی قلت کے پیش نظر خام تیل، غلات، خام مواد، کچھ درمیانی سازوسامان (Intermediate Goods) درآمد کرنے کی ضرورت ہے؛ لہذا بھاری مقدار میں درآمدات کے لئے زرمبادلہ کی ضرورت ہے اور زرمبادلہ کمانے کے لئے ضروری تھا کہ یہ ریاست برآمدات میں اضافہ کرتی۔ چنانچہ اس نے بھاری اور ہلکی مصنوعات، فوجی سازوسامان اور معدنیات پر سرمایہ کاری کرلی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1950ء کے عشرے میں یہ مقدار صرف 10 فیصد رہی لیکن 1960ء کے عشرے میں 25 فیصد اور 1980ء کے عشرے میں 55 فیصد تک پہنچی اور کوشش یہ ہے کہ اس مقدار میں مزید اضافہ ہوجائے۔ (2)
لیکن چونکہ مخالف عرب ممالک کے درمیان اس کی صورت حال کچھ زیادہ مناسب نہ تھی اور ان کی طرف کی سازشوں! سے بچنے کے لئے اس نے ابتداء میں غذائی مواد اور زراعت میں خودکفالت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ غاصب ریاست نے اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے فلسطینیوں کے زرخیز اراضی کو غصب کیا اور شام اور لبنان پر حملے کرکے آبی ذخائر پر قبضہ کیا تاکہ پانی کی قلت کا ازآلہ کرسکے۔ یہ ظالمانہ کوششیں اور یہودی ریاست کی دوراندیشی باعث ہوئی کہ بہت کم عرصے میں یہ ریاست ترشاوہ پھلوں (Citrus)، زیتون، انجیر، انار، بادام، کیلے، کیرے، ٹماٹر میں خودکفیل ہوئی اور ان میں سے کچھ مقدار کو برآمد کیا۔ غاصب ریاست سے یہ زرعی اشیاء، معیار کے لحاظ سے دنیا میں مشہور ہیں۔ (3)
اسرائیل ریاست کا معاشی بحران
اس ریاست کی معیشت نے اس قدر ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار ہر پانچ سال بعد دو گنا ہوجاتی تھی۔ حالات اچھے تھے کہ اچانک بیسویں صدی کی معاشی کسادبازاری نے اسے آلیا اور پڑوسیوں کے ساتھ مسلسل جنگوں نے اس ریاست پر بھاری اخراجات کا بوجھ لاد لیا اور اسے 12 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ (4)
یہودی ریاست نے اس بحران کے بموجب معاشی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا۔ اس ریاست کے ابتدائی اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد یہودی بانیوں اور پناہ گزینوں نے رکھی تھی اور اس کو انتظام و انصرام کا اندازی اشتراکی (Socialistic) تھا جس کو معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا۔ کیونکہ معیشت کا انتظام حکومت اور ہستادروت (5) کے ہاتھوں میں تھا اور بعض شعبوں میں حکومت اور بعض افراد شریک تھے۔
اسی بنا پر 1970ء کی دہائی کے بعد 100 بڑی صنعتی کمپنیوں میں سے 12 کمپنیاں نجی شعبے کے سپرد کی گئیں۔ ٹریڈ یونین کوآپریٹو سے وابستہ کمپنیوں کو – جو اسرائیل کی 35 بڑی کمپنیوں پر مشتمل تھیں – بھی نجی شعبے کے حوالے کیا گیا۔ لیکن بڑے بینکوں کی نجی شعبے کو تفویض بعض مسائل کی وجہ سے سست رفتار رہی۔ (6)
ادھر اسرائیلی ریاست کا اقتصادی نمو بیرونی امداد اور ظلم و جارحیت کے علاوہ دوسرے عوامل پر بھی استوار رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ تین عوامل ایسے تھے جو اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر تھے:
1۔ اس ریاست نے اندرون خانہ جامعاتی اور سائنسی اداروں کی ترقی کے لئے مختلف معاشی امور کو نجی شعبوں کے سپرد کرکے، معیشت کو آزاد کردیا اور معاشی سرگرمیوں کو پوری آزادی عطا کی۔
2۔ مختلف صہیونی حکومتوں نے خود کو پابند کیا کہ صحت و حفظان صحت، تعلیم اور معاشی سلامتی (Social Security) جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے، انسانی وسائل کے ارتقاء کے لئے، کوشاں رہیں جس کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ ماہر افرادی قوت معرض وجود میں آئی۔
3۔ امریکہ کے ساتھ بہت قریبی تعلق بجائے خود، سائنس اور ٹیکنالوجی بہت تیز رفتاری کے ساتھ اس ریاست کو منتقل ہوئی۔ (7)
مذکورہ حقائق کے علاوہ، غاصب ریاست سائنس اور ٹیکنالوجی پر استوار صنعتوں، سائنسی تحقیق کے نجی اور جامعاتی مراکز کی حمایت کرتی ہے اور یہ بھی معاشی ترقی میں مؤثر ہے۔ یہ سرکاری حمایت اور امداد اس قدر زیادہ تھی کہ اس ریاست میں مجموعی ملکی پیداوار میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات کا حصہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ (8)
………
ترجمہ: ابو اسد
………
حوالہ جات:
1۔ رژیم صهیونیستی (صہونی ریاست)، احدی، محمد، طبع اول: 1389ہجری شمسی، تہران، مرکز آموزش و پژوہشی شہید سپہبد صیاد شیرازی، ص69۔
2۔ وہی ماخذ، ص77۔
3۔ وہی ماخذ، ص74۔
4۔ https://www.avapress.com/fa/article/5899
5۔ لفظ ہستادروت (histadrut) ایک عبرانی اصطلاح ہے جس کا مطلب “ہیستادروت ہاکلالیت شل ہاعوودیم ہاعوریم بایرتس یسرائیل” (HaHistadrut HaKlalit shel HaOvdim B’Eretz Yisrael) یعنی ارض اسرائیل پر عبرانی مزدوروں کی عمومی تنظیم (The General Organization of Hebrew Workers in the Land of Israel) ہے۔ سنہ 1969ء میں لفظ عبرانی (Hebrew) کو اس عنوان سے حذف کیا گیا۔ اس مزدور تنظیم کی بنیاد باضابطہ طور پر 1920ء میں رکھی گئی؛ لیکن اس کی ابتدائی شکل سنہ 1911ء میں معرض وجود میں آئی تھی، جب فن و حرفت کی انجمنوں کی بنیاد فلسطین میں رکھی گئی تھی اور ہستادروت کے قیام تک یہودی مزدوروں کا اجتماع اسی مقام پر منعقد ہؤا کرتا تھا۔ ہستادروت کو کئی صنعتی اداروں نے قائم کیا تھا اور یہ خود بھی ایک مرکزی کمپنی بنام “حفرات ہعوفدیم (لیبر کمپنی)” کے ماتحت کام کرتی تھی۔ ہستادروت کا سب سے اہم فاؤنڈیشن “کور” کہلاتا ہے جس کے مزدوروں کی تعداد 23000 ہے جو 100 کارخانوں میں کام کررہے ہیں اور یہ انجمن تقریبا تمام الیٹکرانک کمپنیوں کی مالک ہے۔ اسرائیلی ریاست نے ایک طویل المدت پروگرام کے تحت فیصلہ کیا کہ تمام وسائل اور ذرائع کو نجی شعبے کے سپرد کیا جائے اور حکومت اس شعبے کی سنجیدہ حمایت کرے۔
6۔ ساختار دولت صہیونیستی اسرائیل (اسرائیل کی صہیونی ریاست کا ڈھانچہ)، ج2، موسسۃ الدراسات الفلسطینیۃ، فارسی ترجمہ: علی جنتی، طبع اول: 1385ہجری شمسی، تہران، موسسۂ مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص129۔
7۔ وہی ماخذ، ص143۔
8۔ وہی ماخذ، ص145۔