غزہ و لبنان کے لوگوں کو آپ کی امداد کی اشد ضرورت ہے: علامہ سید جواد نقوی
فاران: موجودہ ہفتے کا سب سے زیادہ افسوسناک واقعہ حزب اللہ کے متوقع سربراہ سید ہاشم صفی الدین کی شہادت کا اعلان ہے گرچہ شہادت ان کی سید حسن نصر اللہ کے دوسرے دن ہی شدید بمباری کی وجہ سے واقع ہو چکی تھی لیکن ان کے جسد تک رسائی ممکن نہیں تھی جس کی وجہ سے شہادت کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔
ان کی شہادت کی کیفیت بھی وہی تھی جو سید مقاومت حسن نصر اللہ کی تھی یعنی جسم پر کسی زخم کا نشان نہیں تھا ظاہرا دھماکوں کی شدت سے یہ شہادتیں واقع ہوئی ہیں یا جب بلڈگیں گریں تو نیچے موجود بنکروں تک آکسیجن کا پہنچنا ناممکن ہوا جس کہ وجہ سے یہ دونوں بزرگوار اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے ہیں۔
اور یہ تمام مجاہدین کے لیے بالخصوص مجاہدین مقاومت کے لیے بہت دردناک خبر تھی۔
اور مزاحمت کے ہمفکر دیگر لوگوں کے لیے بھی یہ افسوسناک خبر تھی۔
یہ شہادتیں ہمارے لیے غیر متوقع اور ناگہانی عمل ہیں لیکن مجاہدین کے لیے شہادت جہاد کا لازمی مرحلہ ہے، وہ اس کی انتظار میں رہتے ہیں اور اس کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔
ہم اس شہادت کے موقع پر تمام مجاہدین مزاحمت کو تعزیت و تسلیت عرض کرتے ہیں۔ ان کے اہل خانہ اور خصوصا رہبر معظم کو بھی تسلیت عرض کرتے ہیں اور خود شہید صفی الدین کو اس فوز عظیم پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ان کی شہادتوں سے دیگر مجاہدین کے حوصلے پست نہیں ہوں گے بلکہ مزید مضبوط ہوں گے۔
جہاں پر بھی مبارزہ اور معرکہ کارزار ہے وہاں پر شہادتیں یقینی امر ہیں جس طرح قرآن کریم کا فرمانا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
ان شہادتوں سے نقصان ضرور ہوتا ہے لیکن ناکامی نہیں ہوتی، ارادے اور حوصلے پست نہیں ہوتے اور ہدف پر ایمان سست نہیں ہوتا۔ یہ شہادتیں اس پہلووں سے مثبت اثر ڈالتی ہیں ھرچند ان شخصیات کے جانے سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے ۔
ان شہادتوں سے ہم جیسے لوگ یہ تاثر لیتے ہیں کہ ان قائدین کی شہادتوں کے بعد مقاومت میں کمزوری آجائے گی جبکہ ایسا نہیں ہوا حزب اللہ نے سید حسن نصر اللہ ، سید صفی الدین اور دیگر ایرانی مشاورین کی شہادتوں کے بعد جو اپنے جنگی جوہر دکھلائے ہیں وہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں حزب اللہ نے نیتن یاہو کے گھر پر حملہ کیا، یہ ان کی جنگی صلاحیت اور طاقت مظاہرہ ہے۔ اور وہ آئرن ڈوم جس نے مسلمانوں کو مغلوب کیا ہوا تھا اور مسلمان ایران، حزب اللہ اور حماس کی حکمت عملی کا مزاق اڑا رہے تھے لیکن حزب اللہ کا ڈرون نیتن یاہو کے گھر بلکہ ان کے بڈروم تک پہنچ گیا تھا گرچہ وہ گھر میں موجود نہیں تھے۔ یہ رسائی ہی بہت اہمیت رکھتی ہے اور جنگی میدان میں ٹیکنیکی برتری سمجھی جاتی ہے ایسی فوج جس کے پاس نہ حکومت ہے نہ ایئرفورس ہے نہ ایک ملک کی طرح کوئی جنگی مشینری ہے، پھر اتنی شہادتوں کے بعد ان کے اندر اتنی طاقت موجود ہے کہ وہ یہ ڈرون جہاں پہنچانا چاہیں وہاں پہنچا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کا گھر کسی بھی ملک کے لیے محفوظ ترین نقطہ ہوتا ہے۔ اور اگر وہاں تک کسی کی رسائی ممکن ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری کوئی جگہ حزب اللہ اور ایران کی دسترس سے باہر نہیں ہے جیسا کہ انہوں نے متعدد بار کہا بھی ہے کہ ہم اسرائیل کے جس نقطے کو بھی چاہیں نشانہ بنا سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر یقینا بنائیں گے ۔
ظاہر ہے کہ باہر آزاد اور لاپرواہ دنیا عجیب و غریب باتیں کرتی ہے اور حقائق کو موڑ توڑ کر بیان کر کے اور حوصلہ شکن تبصرے کر کے اپنی بددیانتی کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن اندر حقائق اللہ کی تدبیر سے مختلف ہے۔ حماس نے بھی اس دوران یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد اسرائیل کے کئی ٹینک تباہ کیے اور کئی اسرائیلی افسر بھی ہلاک کئے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ قائدین کی شہادتوں کے بعد بھی ان کا تانا بانا بکھرا نہیں ہے اور ان کی طاقت پہلے کی طرح موجود ہے۔
اگر چہ قیادتوں کی شہادتوں سے صہیونیوں کو ظاہری کامیابی کا احساس ہوا لیکن جوابی کاروائیوں نے ان کے اس احساس کو خاک میں ملا دیا اور اس خوشی کو اکارت کر دیا اور یہ ثابت کیا کہ فلسطینی مزاحمت باقی ہے اور باقی رہے گی۔
ایک اچھا اقدام جو حالیہ دنوں پاکستانی وزیر اعظم نے کیا ہے کہ فلسطینی طلبہ کو پاکستان کی یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا اور ایران نے تو اس سے بڑھ کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ دنیا بھر کے وہ طلبہ جو فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے اپنی یونیورسیٹیوں سے نکال دیے گئے ہیں ہم ان کو بھی ایران کی یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے اور ان کے تمام تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
ظاہر ہے یہ طلبہ بھی فلسطینی تحریک کا حصہ ہیں جو فلسطین کے لیے آواز اتھاتے ہیں اور اپنی تعلیم کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان نے اچھا قدم اٹھایا ہے اور اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نے جو تقریر کی ہے وہ بہت اچھی تقریر ہے ہرچند دو ریاستی منصوبہ ان کی زبانوں پر چڑھا ہوا ہے یہ منصوبہ پاکستانی قیادت کو پیش نہیں کرنا چاہیے چونکہ دو ریاستی فامولے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں فلسطینی ریاست تو پہلے سے موجود تھی اور ہے لیکن دو ریاستی منصوبہ میں اسرائیل کی موجودیت بھی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس فارمولے میں فلسطین کا کوئی فائدہ نہیں۔ فلسطین کو فلسطین ماننا کوئی بڑا کام نہیں، وہ تو پہلے سے موجود ہے۔ جس طرح سے کشمیر کے لیے دوریاستی فارمولہ کشمیر کی نابودی ہے اسی طرح فلسطین کے لیے بھی دوریاستی منصوبہ فلسطین کی نابودی ہے۔ اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے برابر ہیں۔
اس بات سے ہٹ کر وزیر اعظم کی باقی باتیں بہت اچھی اور اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری فلسطین میں نسل کشی پر خاموش ہے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اور عالمی عدالت کو بھی امریکہ اور اسرائیل نے جوتے کی نوک پر رکھا ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ باتیں وزیر اعظم صاحب نے کی ہیں اور دوسری طرف سے ہم دیکھیں کہ عالمی برادری اور مسلم برادری دونوں میں پاکستان بھی شامل ہے اور پاکستان ایک معمولی نظر انداز کر دینے والا ملک نہیں ہے، بلکہ عالمی سطح پر بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہر حوالے سے آپ دیکھیں؛ پاپولیشن کے حوالے سے، سوق الجیشی کے لحاظ سے اور ایٹمی طاقت ہونے کے حوالے سے اور اسی طرح دیگر معیاروں کے حوالے سے بھی اگر ہم دیکھیں تو دنیا کے بڑے ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ معیشت کے لحاظ سے پاکستان کمزور ہے لیکن باقی چیزوں کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ اگر عالمی برادری یا مسلم برادری کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے تو عالمی اور مسلم برادری کو جگانے کے لیے پاکستان کو اقدام کرنا چاہیے۔ اور فلسطین کانفرنس بلانا چاہیے اگر یہ کانفرنس پاکستان میں نہیں ہو سکتی تو کسی دوسرے ملک میں کانفرنس کی جائے او آئی سی کے ذریعے کانفرنس بلاوائی جائے ایک سال ہو گیا ہے او آئی سی نہ اجلاس کیا نہ فلسطین پہ بات کی نہ اسرائیل کی مذمت کی، اور ظاہر ہے کہ سعودی عرب سے قرضہ لے کر اپنا گزرا چلانے والا ملک پاکستان کیسے سعودی پالیسیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتا ہے۔ لہذا معلوم ہے کہ پاکستان کی مجبوری کیا ہے۔ پاکستان پر سعودی عرب اور امریکہ کا سخت دباو ہے اور پاکستان کے اندر صہیونی افکار کے لوگ دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
ٹھیک ہے پاکستان کی یہ مجبوری ہے لیکن ترکی کیوں نہیں ایسا کر رہا ہے ترکی کے صدر رجب اردوگان جو بڑے انقلابی بیانات دیتے ہیں لیکن عملی طور پر فلسطین کے حوالے سے نہ کوئی اجلاس بلاتے ہیں اور نہ کسی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
عرب تو خود اسرائیل کے اتحادی ہیں خیانتکار میڈیا نے اگر چہ اس بات پر پردہ ڈالا ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو ایندھن پہنچانے والے عرب ممالک کے علاوہ اور کون ہے۔ عرب مملکوں کے اندر بنے ہوئے امریکی اڈوں سے اسرائیل روزانہ کتنا جنگی سامان لے کر جاتا ہے اور ان عربوں کے وسائل اسرائیل روزانہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ لہذا ترکی، ہندوستان اور عرب ممالک کا اس جنگ میں کیا کردار ہے یہ آج نہیں تو بعد میں سامنے آ جائے گا تب پتا چلے گا یہ خاموش نہیں بلکہ فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک تھے۔
سنی ممالک یا سنی تنظیمیں اگر لبنان کے لیے اس وجہ سے نہیں بولتے کہ لبنان شیعہ ہے تو یہ غلط ہے لبنان اگر آج خاک و خوں میں غلطاں ہو رہا ہے تو فلسطین کی وجہ سے، سید حسن نصر اللہ نے اگر جان دی ہے تو فلسطین اور غزہ کے لیے دی ہے۔ فلسطین اور غزہ میں سب اہل سنت ہیں۔ صفی الدین اور ایرانی کمانڈر جو شہید ہوئے اور ایران جو قیمت ادا کر رہا ہے سب غزہ کے لیے ہے۔ ٹھیک ہے آپ لبنان کے لیے آواز نہ اٹھائیں لیکن فلسطین کے لیے تو آواز اٹھائیں ۔ حکومتیں اگر خاموش ہیں تو ان کے مفاددات ہیں لیکن عوام کو کیا ہو گیا ہے عوام نے کیوں چپی سادھی ہوئی ہے علماء کیوں خاموشی کا شکار ہیں۔ یہ جنگ ختم ہو جائے گی لیکن یہ خاموشی بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گی اور ہماری آئندہ نسلیں ہم پر لعنت ملامت کریں گی یہ کردار اور رویے رہ جائیں گے یہ شہادتیں اور یحییٰ سنوار جیسی شخصیتیں تاریخ کا ہیرو بن جائیں گی۔
ایک دور میں جب جوان اس طرح کے حالات دیکھتے تھے اور ان کا خون کھولتا تھا تو انہیں کوئی مجسم مبارز نمونہ نظر نہیں آتا تھا یحییٰ سنوار ایک عملی مبارز نمونہ ہمارے سامنے ہے ان کے نام کی ٹی شرٹیں ہونی چاہیے، ان کے نام کی کیپس ہونی چاہیے، یحییٰ سنوار کے نام سے شہر سجائے جانا چاہیے، یحییٰ سنوار سے گھر سجائے جانا چاہیے۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ آپ لبنان کے لیے امداد جمع کریں اور غزہ کے لیے نہ کریں، بعض مراجع نے خمس کا مال لبنان بھیجنے کی اجازت دی ہے لبنان اور غزہ میں کوئی فرق نہیں ہے جس امام کا یہ مال ہے اگر وہ خود حاضر ہوتے تو وہ غزہ اور لبنان میں کوئی فرق محسوس نہ کرتے لہذا اگر آپ لبنان میں مال امام خرچ کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں تو غزہ پر خرچ کرنے کی بھی اجازت دیں شیعہ اور سنی کا فرق کم سے کم شیعوں کی طرف سے نہیں ہونا چاہیے۔ ہر طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ سردیاں آ رہی ہیں ان کو ہر چیز کی ضرورت ہے انہیں کھانے پینے سے لے کر اوڑھنے بچھونے تک ہر چیز کی انہیں ضرورت ہے۔
اپنی ذمہ داری کا احساس کریں ایسا نہ کریں کہ انتظار میں بیٹھیں رہے وہاں بم لگے ان کا گھر اجڑے ان کی بستیاں اجڑیں اور پھر آپ ان کے لیے یہاں سے کمبل بھیجیں، نہیں بلکہ ان کو بم لگنے سے بچانے کی کوشش کریں اگر باقی دنیا کے عوام ان کا ساتھ دیتے تو ان پر بم نہ لگتے۔ جیسے امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے خلاف احتجاج ہوئے کاش ایسے ہماری یونیورسٹیوں میں بھی ہوتے۔ پاکستان میں ہزاروں یونیورسٹیاں ہیں جو فلسطین کے لیے آواز اٹھا سکتی ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے عالمی برادری سے گلہ کیا کہ وہ خاموش ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ پاکستان کیوں خاموش ہے۔ پاکستان کے عوام، پاکستان کے علما کیوں خاموش ہیں۔ کیا یہ جرم نہیں ہے؟ علماء کرام، دانشوران، عزیر عوام یہ خاموشی جرم ہے۔ متدینین حضرات یہ خاموشی جرم ہے۔ میرے جوانو، سماجی رہنماو، خواتین حضرات یہ خاموشی جرم ہے۔ پاکستان میں اسرائیلیوں کے پروڈیکٹس بند کریں۔ آج مجھے خبر ملی ہے جنوبی کوریا میں جو امریکی بلاک میں آتے ہیں وہاں کے عوام نے اسرائیلی سفارت خانہ کا محاصرہ کیا ہے اور احتجاج کیا ہے۔ امریکی سفارت خانے ہر مسلمان ملک ہیں ان کو کیوں اپنے ملکوں سے باہر نہیں کیا جا رہا ہے کیا لبنانیوں اور فلسطینیوں کو شہید کرنے میں امریکی برابر کے شریک نہیں ہیں؟
تبصرہ کریں