فاران: فرانسیسی اخبار “لی مونڈے “Le Monde نے انکشاف کیا ہے کہ دمشق عملی طور پر امارات کی سازش کے تحت سقوط کر گیا۔
اخبار نے لکھا:
“شام میں مسلح ملیشیا کی تیز پیش قدمی اور بڑے شہروں بشمول دمشق یک بعد دیگرے مسلح گروہوں کے سامنے تسلیم ہو جانا اور ان پر ان گروہوں کا تسلط اور بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، امارات کی شام میں سازشوں کا نتیجہ تھا۔”
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ:
“بشار الاسد، جو شام کی اقتدار کی چوٹی پر تھے، اپنی حکومت کے آخری مہینوں میں امارات کی حمایت پر بھروسہ کر رہے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ وہ ابوظہبی کو ایک جیتنے والے کارڈ کے طور پر شامی مخالفین اور ترکی کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔”
“لی مونڈے” مزید لکھتا ہے کہ:
“بشار الاسد نے حملے کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے سے پہلے مخالفین کے ساتھ اختلافات کو ختم کرنے، سیاسی اصلاحات کے لیے اقدامات کرنے اور 2020 کے آستانہ معاہدے پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔”
اخبار کے مطابق:
“الاسد کو یقین تھا کہ ان کے پاس ایسے کارڈز موجود ہیں جو انہیں مشکلات کی کھائی میں گرنے سے بچائیں گے، خاص طور پر 2018ء سے امارات کی جانب سے دی گئی حمایت کے بعد، جس کی کوششوں سے وہ دوبارہ عرب لیگ میں شامل ہوئے اور 2023 کے عرب لیگ اجلاس میں شرکت بھی کی۔”
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ:
“امارات نے اردن اور عراق جیسے ممالک کی طرح، حلب کے سقوط کے فوراً بعد شام کی سرزمین کی سالمیت کی حمایت کا اعلان کیا، لیکن پس پردہ، الاسد پر مزید دباؤ ڈالنے اور اس دباؤ کو کم کرنے یا ختم کرنے کو ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے اور تہران-دمشق کے تعلقات کو کمزور کرنے سے مشروط کر دیا تھا۔”
لی مونڈے نے نشاندہی کی کہ:
“عربوں کی شام کے قریب آنے کی قیادت امارات نے اس مقصد کے تحت کی تھی کہ بشار الاسد کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ ایران کے اثر کو محدود کریں اور شام کی سرحدوں کا کنٹرول حاصل کریں، لیکن اسد ان مطالبات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔”
اخبار نے مزید کہا:
“اگرچہ اب اسد کا زوال ہو چکا ہے، لیکن ابوظہبی، جو اسلام پسند تحریکوں کا سب سے بڑا دشمن ہے، شام میں ان تحریکوں کے ابھرنے اور مضبوط ہونے کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ وہ سب سے زیادہ اس بات سے فکرمند ہے کہ یہ گروہ ان کے لیے خطرہ اور چیلنج نہ بنیں، خاص طور پر اب جب کہ دمشق ان کے ہاتھوں میں ہے۔”
لی مونڈے کے مطابق، دمشق کے سقوط سے دو دن پہلے، ابوظہبی نے بشار الاسد سے رابطہ کر کے انہیں اقتدار سے دستبردار ہونے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی، جسے اسد نے مسترد کر دیا۔
ابوظہبی نے اسد سے شام کی بحران زدہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے 24 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا تھا، لیکن یہ وعدے کبھی پورے نہیں ہوئے اور ایک سراب ثابت ہوئے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں