فاران تجزیاتی خبرنامہ: رہبر انقلاب اسلامی کے شام کے حالیہ حالات پر بیانات میں ایک اہم اور امید افزا حقیقت پوشیدہ تھی، جو ایک عظیم پیغام دیتی ہے: یہ حقیقت کہ مزاحمت ظلم، جنایت اور جارحیت سے ختم نہیں ہوتی، بلکہ ان دباؤ کے نتیجے میں اور زیادہ مضبوط اور وسیع ہو جاتی ہے۔ لیکن اس نوید بخش اور روشن افق والے بیان کی منطق کیا ہے؟
عراقی ناول نگار اور نظریہ ساز بختیار علی نے اپنی کتاب “دریاس و جسدها” مردے اور اجساد” میں ایک اہم جملہ لکھا ہے:
“انسان کا سب سے گہرا درد یہ ہے کہ جو چیز وہ محبت سے حاصل نہیں کر پاتا، اسے طاقت کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے۔”
یہ جملہ انسان کے اس گہری حسرت کو ظاہر کرتا ہے جو اس کی فطرت میں موجود ہے۔ انسان دو طریقوں سے اپنی پسندیدہ چیزوں کی تلاش کرتا ہے: یا محبت اور لگاؤ کے ذریعے ان تک پہنچتا ہے یا اگر اس طریقے سے کامیاب نہ ہو تو طاقت اور زور کے ذریعے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں کوئی چیز زور و زبردستی سے حاصل کی جائے۔ کیونکہ محبت اور لگاؤ کے بغیر، انسان مجبور ہوتا ہے کہ زبردستی سے حاصل کی گئی چیز کو برقرار رکھے، جو بالآخر تھکاوٹ اور ناکامی کا سبب بنتی ہے اور وہ چیز انسان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
یہاں سے ہمیں یہ شعور ملتق ہے کہ مزاحمت کسی چیز کو برقرار رکھنے کے لیے اندرونی قبولیت اور انسان کی قلبی وابستگی پر منحصر ہے۔ ہمیں اس چیز سے محبت کرنی چاہیے جسے ہم محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ تب، اگرچہ ہم پر کتنا ہی دباؤ کیوں نہ ڈالا جائے، یہ دباؤ ہماری اندرونی محبت کو کم نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ ہمیں مزید تحریک دیتا ہے کہ ہم کیسے رکاوٹوں کو ہٹائیں اور اس چیز کو دوبارہ حاصل کریں۔
اس سلسلے میں تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں، جیسے ایرانی قیدیوں کی وہ داستانیں جو عراق کی جیلوں میں شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود تخلیقی طریقے تلاش کرتے تھے کہ ان حالات کا مقابلہ کریں۔ ان مشکل حالات میں وہ زندگی کی قدر زیادہ محسوس کرتے تھے اور آزادی کے بعد ان دنوں کو یاد کرتے تھے۔ سخت حالات میں زندگی، مزاحمت کا تقاضا کرتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ مزاحمت ہی زندگی کو خوبصورت اور محبوب بناتی ہے۔ اور اگر کسی وقت زندگی کا ظاہری ڈھانچہ گرے، تو اس کی دوبارہ تعمیر ممکن ہے۔
زندگی کے دشمن اس حقیقت کے سامنے بےبس اور کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو سختیوں سے گزر چکے ہیں اور آسانی کی قدر کو سمجھتے ہیں۔ دشمنوں کا ہتھیار تخریب اور رنج و الم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ علاقے کے لوگ طویل عرصے سے رنج میں زندگی کا راز سمجھ چکے ہیں۔
مزاحمت اس راز اور سختیوں سے عبور کی کلید ہے۔ یہ سختیوں میں ٹہرنے رکنے اور صبر کرنے کی ضرورت کو ہی بیان نہیں کرتی، بلکہ دکھ اور درد کے عین لمحے میں فعال ہوتی ہے، سختیوں کو سہتی ہے، اور کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تحریک پیدا کرتی ہے۔ مزاحمت مؤثر ثابت ہوئی ہے، ہمیشہ نتیجہ بخش ہوتی ہے اس نے ہمیشہ اثر بخش کام کیا ہے۔ حاج قاسم نے ایک دہائی تک اس خطے کے نوجوانوں کو اس کی تربیت دی۔ یہ تربیت ایک عقیدہ بن چکی ہے، ایک مکتب بن چکی ہے، جو وقتی طوفانوں سے ماند نہیں پڑتی بلکہ نئے میدان پیدا کرتی ہے۔
ہاں، یہ غیور شامی نوجوان ہیں جو پھر سے اپنی سرزمین کے لوگوں کو مزاحمت کے ساتھ زندگی کا ذائقہ چکھا کر رہیں گے خود پرزبردستی مسلط کی گئی حقیقتوں کے اسیر بن کر نہیں رہیں گے ایک دن مزاحمت کے چاقو سے اس جال کو پارہ پارہ کرنے میں کامیاب ہونگے جنہیں دشمنوں نے انکے لئے بچھایا ہے ۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں