فاران تجزیاتی خبرنامہ: ایرانی روزنامہ کیہان نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ شام کی سرزمین، اس ملک کی فوج کے 11 دن میں ہتھیار ڈالنے کے بعد دہشت گردوں اور اسرائیل کے نسل پرست حکومت کے قبضے میں چلی گئی اور اس کے فوجی ڈھانچے کو بھی صرف 3 دن میں تباہ کر دیا گیا۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ اگر آپ ہتھیار ڈال دیں تو دشمن اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گا!
کیہان آگے لکھتا ہے :
شام ایک عبرت بن گیا۔ دہشت گرد گروہ “ہیئت تحریر الشام” اور 30 سے زائد دیگر گروہ، جو برسوں سے مزاحمت کے باعث الگ تھلگ ہو چکے تھے، اور علاقائی و بین الاقوامی تبدیلیوں جیسے کورونا وبا، یوکرین جنگ، طوفان الاقصیٰ، جنوبی لبنان میں جنگ بندی وغیرہ کے بعد، صیہونی حکومت، ترکی، امریکہ، اور ممکنہ طور پر کچھ عرب ممالک کے تعاون سے، بدھ (7 آذر) کو شام کے شمال میں ایک شورش کا آغاز کیا۔ بالآخر اتوار (18 آذر) کو 11 دن کے دوران ایک ایسی فوج کے سامنے پیش قدمی کے بعد، جو موجود ہی نہیں تھی، دمشق کا کنٹرول حاصل کر لیا۔
اس کے بعد، صیہونی حکومت نے اس شورش میں مداخلت کی اور ابتدائی 3-4 دنوں میں شام کے تقریباً تمام فوجی اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا، جس کی تفصیل آگے دی جائے گی۔ لیکن یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے۔ دوسرے رخ پر شام کی حکومت اور فوج تھی، جو نہ صرف اس حملے کو لیکر پریشان ہوئی بلکہ اس نے کوئی مزاحمت بھی نہ کر کی اور ہتھیار ڈال دیے۔ یہ سب اندرونی خیانتوں ، درونی مسائل اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہوا۔
اس ہتھیار ڈالنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کی زمین دہشت گردوں اور صیہونی حکومت کے حوالے کر دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس عرب ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ ایک ایسا ملک جو پہلے مزاحمت کر کے باقی رہا، اب تسلیم ہو کر اپنی زمین تیزی سے گنوا بیٹھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر آپ کسی وعدے، دھمکی، یا کسی اور وجہ سے ہتھیار ڈال دیں تو دشمن کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ اگر آپ ایک قدم پیچھے ہٹیں گے تو وہ دس قدم آگے بڑھ جائیں گے۔
ان حالات میں رہبر انقلاب کے الفاظ پر غور کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے کہا کہ شام اندرونی مسائل کی وجہ سے گرا۔ رہبر انقلاب نے شام کی فوج کی کمزوری کا موازنہ ایران کے مسلح افواج کے اعلیٰ عہدیداروں کی بلند ہمتی سے کرتے ہوئے کہا کہ آج ایرانی قوم کو اپنی افواج پر فخر ہے۔
1800 بم صرف چند گھنٹوں میں 500 اہداف پر!
جب کوئی ملک دفاع سے خالی ہو جائے تو دشمن باآسانی حملہ آور ہو کر پیش قدمی کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں دشمن کو طاقتور ہونے کی ضرورت نہیں۔ دمشق کے تیز زوال کی وجہ دہشت گردوں اور اسرائیل کی طاقت نہیں تھی، بلکہ شام کی اندرونی کمزوری اور فوج و عوام کا میدان میں موجود نہ ہونا تھا۔
ان حالات میں رہبر انقلاب کے الفاظ پر غور کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے کہا کہ شام اندرونی مسائل کی وجہ سے گرا۔ رہبر انقلاب نے شام کی فوج کی کمزوری کا موازنہ ایران کے مسلح افواج کے اعلیٰ عہدیداروں کی بلند ہمتی سے کرتے ہوئے کہا کہ آج ایرانی قوم کو اپنی افواج پر فخر ہے۔
واضح ہو کہ
جب کوئی ملک دفاع سے خالی ہو جائے تو دشمن باآسانی حملہ آور ہو کر پیش قدمی کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں دشمن کو طاقتور ہونے کی ضرورت نہیں۔ دمشق کے تیز زوال کی وجہ دہشت گردوں اور اسرائیل کی طاقت نہیں تھی، بلکہ شام کی اندرونی کمزوری اور فوج و عوام کا میدان میں موجود نہ ہونا تھا۔
ان حالات میں خبر آئی کہ صیہونی حکومت کی فوج نے شام پر حملے شروع کر دیے ہیں، جو سقوط دمشق کے فوراً بعد سے جاری ہیں۔ صیہونی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے چند گھنٹوں میں 1800 بموں سے شام میں 500 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں شام کے فضائی دفاعی نظام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے شام کے بیشتر اسٹریٹجک ہتھیاروں کے گوداموں کو نشانہ بنایا ہے۔
جبل الشیخ اور قنیطرہ پر مکمل قبضہ
گزشتہ روز یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ اسرائیلی فوجیوں نے جنوبی شام کے قنیطرہ کے کئی دیہات پر قبضہ کر لیا ہے، وہاں کے رہائشیوں سے ان کے گھر چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن مقامی آبادی نے مزاحمت کی۔ چند گھنٹوں بعد اسرائیل کے وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ 51 سال بعد جولان کے جبل الشیخ پر اسرائیل کا قبضہ ہو چکا ہے۔
شامی دہشت گردوں کا ردعمل: ہم اسرائیل سے جنگ نہیں کریں گے!
دہشت گردوں کی قیادت کے بیانات بھی دلچسپ ہیں۔ “فہد المصری”، جو شامی دہشت گرد تنظیم “جبهة الإنقاذ” کے سربراہ ہیں، نے صیہونی اخبار “معاریو” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: “ہم اسرائیل سے جنگ نہیں چاہتے۔” مزید یہ کہ ایک اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ شامی دہشت گرد رہنما “ابو محمد الجولانی” نے بھی اسرائیل کے حملوں کی مذمت تک نہیں کی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان گروہوں کا مقصد صرف شام کو کمزور کرنا ہے، نہ کہ قابض دشمن کا سامنا کرنا۔
چونکہ بے بنیاد باتوں اور حقیقت کے 180 درجے مخالف دعوؤں کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا، اس لیے وہ شامی دہشت گرد جو امریکہ، اسرائیل اور ترکیہ کے آلۂ کار ہیں، آزادی کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں!
“احمد الشرع” المعروف “ابومحمد الجولانی”، جو شام میں “ہیئت تحریر الشام” کا سربراہ ہے، نے الجزیرہ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
“ہم بشار الاسد کے ماتحت سیکیورٹی اداروں کو ختم کرنے اور بدنام جیلوں کو بند کرنے کی کوشش کریں گے۔… شام میں فوجی کارروائیوں کا انتظام بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر کیا جا رہا ہے تاکہ ان جگہوں کو محفوظ بنایا جا سکے جہاں ممکنہ طور پر کیمیائی ہتھیار موجود ہو سکتے ہیں۔… ہم ایک تکنوکریٹ حکومت تشکیل دیں گے، جو شامی عوام کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرے گی۔”
اس نے اپنی گفتگو کے عجیب ترین حصے میں دعویٰ کیا:
“بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جو جنگ لڑی گئی، اس کے لیے بہت زیادہ تیاری کی گئی تھی۔ ہم نے مقامی ہتھیاروں سے جنگ لڑی۔ ہماری جنگ میں کسی بھی ملک نے مدد نہیں کی اور نہ ہی کسی نے اس کی حمایت کی، لیکن ہمیں فتح کا یقین تھا۔”
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں