فاران تجزیاتی خبرنامہ: صہیونی ریاست کی جبل الشیخ پر نظریں اور اس کی “خطے کی آنکھوں” کے طور پر اہمیت کوئی نئی بات نہیں یہ روایت تاریخ میں صہیونی ریاست کے قیام سے تین دہائیوں پہلے سے چلی آ رہی ہے۔
گزشتہ جمعہ، اسرائیلی وزیرِ جنگ “یسرائیل کاتز” نے باضابطہ طور پر جولان کے جبل الشیخ علاقے پر قبضے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسرائیل نے 51 سال بعد اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ وزیرِ جنگ نے جبل الشیخ کے قبضے کو اسرائیل کے لیے اسٹریٹیجک قرار دیا اور کہا کہ فوج کو موسمِ سرما میں وہاں قیام کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
جبل الشیخ کہاں واقع ہے اور اس کی اسٹریٹیجک اہمیت کیا ہے؟
جغرافیائی محل وقوع
کوہ الشیخ کی زنجیر یاحرمون لبنان، شام، اور فلسطین کی سرحد پر واقع ہے، اور دمشق (شام کا دارالحکومت) کے مغرب اور جولان کے شمالی حصے میں اس کا وجود پایا جاتا ہے۔
جبل الشیخ کی بلندی سطح سمندر سے 2814 میٹر ہے، اس کی لمبائی تقریباً 45 کلومیٹر ہے، اور یہ مشرقی بحیرہ روم کے ساحل کا سب سے بلند مقام ہے۔
یہ سلسلہ بانیاس (شام) سے شروع ہو کر جنوب مغرب میں حولہ کے میدان اور شمال مشرق میں وادی القرن تک پھیلا ہوا ہے۔
جبل الشیخ چار چوٹیوں پر مشتمل ہے، جن میں سب سے بلند چوٹی شام میں واقع ہے اور اس کا نام “الشیخ” یا “حرمون” ہے، جو 2814 میٹر بلند ہے۔
یہ کوہسار دو تہائی سال برف سے ڈھکا رہتا ہے، اور اس کا جغرافیائی ڈھانچہ چونا پتھر اور گچ پر مشتمل ہے۔ یہ کئی دریاؤں کا منبع ہے، جن میں ذیل کے اہم دریا شامل ہیں:
دریائے حاصبانی: جبل الشیخ کے شمال مغربی دامن سے نکل کر لبنان میں بہتا ہے۔
دریائے بانیاس: جبل الشیخ کے دامن میں واقع غار سے نکل کر فلسطین کے مقبوضہ علاقے میں بہتا ہے۔
دریائے اللدان: جبل الشیخ کے دامن سے نکل کر دریائے اردن کا ایک اہم حصہ بنتا ہے۔
دریائے اردن: یہ جبل الشیخ سے نکل کر اردن تک بہتا ہے۔
نام کی وجہ تسمیہ
جبل الشیخ کا نام وہاں کی سفید برف سے لیا گیا ہے جو دور سے کسی “عمامے” کی طرح نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگ اسے “جبل الثلج” (برف کا پہاڑ) بھی کہتے ہیں۔ بلند ترین نقطہ ہونے کے باعث اسے “جبل الزعیم” (رہبر کا پہاڑ) بھی کہا جاتا ہے۔
یہ نام تاریخی اور مذہبی متون میں بھی آیا ہے۔ یہودی مذہبی کتاب “عہد قدیم” میں جبل الشیخ کا 15 بار مختلف ناموں جیسے “حرمون” سے ذکر کیا گیا ہے۔
اسٹریٹیجک اہمیت
1. یہ شام کا بلند ترین مقام ہے، اس لیے اردگرد کے علاقوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک اہم نقطہ ہے۔
2. دمشق (شام کا دارالحکومت) اس سے صرف 40 کلومیٹر دور ہے، اس لیے اس پر قبضہ شام پر حملے کے لیے اہم ہے۔
3. جبل الشیخ اسرائیلی ریڈارز کے لیے ایک اندھا علاقہ تھا، جو شام سے مقبوضہ فلسطین تک ڈرونز کی پرواز کو آسان بناتا تھا۔
4. اس کا نا ہموار اور بکریت والا جغرافیہ خفیہ اور جاسوسی سرگرمیوں کے لیے سازگار ہے۔
5. یہ پہاڑ یہودیوں، مسیحیوں، اور دروزی کمیونٹی کے لیے مقدس حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے اردگرد رہنے والے زیادہ تر ان مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
اسرائیلی عزائم
صہیونیوں کے جولان پر قبضے کے عزائم ایک صدی سے زیادہ پرانے ہیں۔ 1919 کی امن کانفرنس کے لیے “صہیونی تحریک” کی طرف سے ایک یادداشت میں کہا گیا تھا کہ “حرمون پہاڑ فلسطین کے آبی ذرائع کا منبع ہے۔”
اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں جبل الشیخ کے جنوبی اور مغربی دامن کے 100 مربع کلومیٹر پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں فوجی اڈے بنائے تھے۔
1973 کی جنگ کے بعد شام نے اس علاقے کو آزاد کرایا، لیکن اسرائیل نے جنگ کے اختتام سے پہلے دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا۔
1974 میں شام اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی کے معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کے دستے جبل الشیخ میں تعینات کیے گئے تھے۔
گزشتہ دنوں اسرائیل نے یکطرفہ طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جبل الشیخ اور اس کے ارد گرد کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیلی حکمت عملی کے مطابق، جو بھی اس پہاڑ پر قابض ہوگا، وہ پورے خطے پر کنٹرول رکھے گا۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں