شام کی فوج نے کیوں ہتھیار ڈال دئیے؟

بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے چار دن پہلے، انہوں نے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت فوجیوں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود فوج سے سپاہیوں کا فرار جاری رہا اور نتیجہ سقوط دمشق کی صورت سامنے آیا۔

فاران تجزیاتی خبرنامہ: الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں شامی فوج میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف مزاحمت کی کمی اور کمزوری کے اسباب کا تجزیہ کیا ہے۔

کمزوری کے اسباب

الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ شامی فوج کا 22 سالہ سپاہی فرحان الخولی، جو شمالی شام کے شہر ادلب کے قریب ایک فوجی اڈے پر تعینات تھا، انتہائی کم تنخواہ ملنے اور خراب نفسیاتی حالت کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔
ادلب وہ واحد شہر تھا جو شامی حکومت کی مخالف مسلح گروہوں کے کنٹرول میں تھا۔
طے تھا کہ اس اڈے پر 9 فوجی مزید تعینات کیے جائیں گے، لیکن صرف 3 اہلکار حاضر ہوئے۔
باقی فوجیوں نے یا تو رشوت دے کر اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا یا وہ مسلح گروہوں سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔

فرار کا رجحان

27 نومبر کو، الخولی کو اپنے افسر سے ایک کال موصول ہوئی، جس میں کہا گیا کہ “آرام کے دن ختم ہو چکے ہیں، اور مسلح عناصر ادلب سے ان کے ٹھکانوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔”
افسر نے الخولی کو اپنی پوسٹ پر رہنے اور لڑائی جاری رکھنے کا حکم دیا۔
تاہم، الخولی نے اپنا موبائل فون فلائٹ موڈ پر ڈال دیا، سویلین لباس پہنا، اپنا اسلحہ چھوڑا، اور گھر واپس چلا گیا۔
راستے میں، اس نے مزید فوجیوں کو دیکھا جو اپنے ٹھکانوں سے فرار ہو رہے تھے۔

فوج کی تحلیل

رائٹرز نے اپنی تحقیقات میں متعدد ذرائع سے گفتگو کی اور ایسی دستاویزات حاصل کیں جو شامی فوج کے ایک دفتر سے ملیں۔
یہ معلومات ظاہر کرتی ہیں کہ ایک وقت میں خوفناک سمجھی جانے والی شامی فوج کس طرح تباہی کا شکار ہو گئی، اس کے اہلکاروں کی نفسیاتی حالت گِر گئی، اور اس کا زیادہ تر انحصار غیر ملکی اتحادیوں پر ہو گیا۔

فوج کی تحلیل کے اسباب

1. غیر ملکی اتحادیوں پر انحصار

2011 سے، شامی فوج نے ایرانی، لبنانی اور عراقی فورسز پر انحصار کیا تاکہ شام میں بہترین جنگی یونٹس قائم کی جا سکیں۔
اکتوبر 2023 میں، حزب اللہ لبنان کے جنگجو شام چھوڑ کر اسرائیل کے خلاف جنگ پر توجہ مرکوز کرنے چلے گئے۔
ایرانی افسران بھی فضائی حملوں کے بعد بڑی تعداد میں دمشق چھوڑ چکے تھے، جس کے نتیجے میں شامی فوج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کمزور ہو گیا۔

2. بدانتظامی اور انتشار

حلب پر دہشت گرد گروہوں کے حملے کے بعد، شامی فوج کے یونٹس کو کوئی واضح جنگی حکمت عملی نہیں دی گئی۔
انہیں اپنی حکمت عملی خود طے کرنے یا حمص کی طرف پیچھے ہٹنے کے لیے کہا گیا۔
بغیر کسی خاطر خواہ مزاحمت کے حلب پر مخالفین کے قبضے نے فوج کے اہلکاروں میں شدید صدمہ پیدا کیا اور ان کے درمیان یکجہتی ختم کر دی۔

3. لمبی جنگ اور کمزور تنظیم

2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق، شامی فوج کے 130,000 اہلکار طویل جنگ کی وجہ سے شدید کمزور ہو چکے تھے۔
یہ فوج اب ایک غیر منظم ادارہ بن چکی تھی جو صرف اندرونی سلامتی برقرار رکھنے پر مرکوز تھی۔
شام کی فوج، جو 130,000 اہلکاروں پر مشتمل تھی، طویل عرصے سے جاری جنگ کی وجہ سے شدید کمزور ہو چکی ہے اور ایک غیرمنظم ادارے میں تبدیل ہو گئی ہے، جو صرف اندرونی سلامتی کو برقرار رکھنے پر مرکوز ہے۔

انتہائی کم تنخواہیں

امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے شام پر سخت اقتصادی پابندیوں کے دوران، جو دہشت گردی کے بحران کے ساتھ ساتھ جاری رہیں، شامی فوج کے افسران اور سپاہیوں کو گزشتہ ایک دہائی کے دوران، یہاں تک کہ دہشت گرد اور تکفیری گروہوں پر فوجی کامیابیوں کے بعد بھی، انتہائی کم تنخواہیں ملتی رہیں، جس کی وجہ سے وہ مایوسی کا شکار تھے۔ ان میں سے کئی سپاہی اپنی فوجی خدمات کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی فوج میں رہنے پر مجبور تھے۔

خبررساں ادارے رائٹرز کی طرف سے شائع کردہ ایک دستاویز کے مطابق، شامی فضائیہ کی انٹیلی جنس ایجنسی نے اپنے اہلکاروں کو جنگ میں حصہ نہ لینے کی صورت میں سخت سزا کی دھمکی دی تھی، لیکن اس کے باوجود فوج سے بھاگنے والے سپاہیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی۔

شامی شہروں کے رہائشیوں نے کئی ویڈیوز میں دکھایا کہ فوجی اپنی چوکیوں کو چھوڑ کر عام لباس میں گلیوں میں گھومتے نظر آتے تھے۔

بدتر حالات زندگی

ایک سینئر شامی فوجی انٹیلیجنس افسر نے اس حوالے سے کہا کہ افسران اور سپاہیوں میں غصہ برسوں سے بدتر حالات زندگی کی وجہ سے بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک فوجی کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ صرف 40 ڈالر تھی، اور حتیٰ کہ بشار الاسد کے حامی بھی اس صورتحال سے ناراض تھے۔

عراقی فوج کے ایک جنگی یونٹ کے کمانڈر نے رائٹرز کو بتایا کہ ہم اکثر شامی فوج کے سپاہیوں کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دیتے تھے کیونکہ ان کے پاس کافی راشن نہیں ہوتا تھا، اور ان کے حالات دیکھ کر ہمیں ان پر رحم آتا تھا۔

فوجی ارادے کی کمی

ایک عراقی فوجی مشیر، جو شام میں موجود تھا، نے کہا:
“ہم پہلے دن سے شام کی جنگ میں شکست کھا چکے تھے، کیونکہ شامی فوج کے اہلکاروں میں لڑنے کا کوئی جذبہ نہیں تھا۔”

تنخواہوں میں اضافہ لیکن کوئی فرق نہیں

بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے چار دن پہلے، انہوں نے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت فوجیوں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود فوج سے سپاہیوں کا فرار جاری رہا اور نتیجہ سقوط دمشق کی صورت سامنے آیا۔