شام میں امریکی-اسرائیلی سازش کے بارے میں بین الاقوامی تحقیقاتی مرکز کا انتباہ

ایک عالمی تحقیقی مرکز نے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے انتباہ دیا ہے کہ اسرائیل شام میں طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھا کر اس کی عسکری قوت کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

فاران تجزیاتی خبرنامہ: ایک عالمی تحقیقی مرکز نے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے انتباہ دیا ہے کہ اسرائیل شام میں طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھا کر اس کی عسکری قوت کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مرکز نے کہا کہ امریکہ، ترکی اور اسرائیل شام میں اپنے پرانے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس ملک میں استحکام کے قیام میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

تسنیم نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق، بشار الاسد کی حکومت کے سقوط اور شام میں مسلح مخالف گروہوں کے غالب آنے کے بعد کے حالات پر تجزیے میں، “صوفان سینٹر” نامی ایک غیر سرکاری اور آزاد بین الاقوامی تحقیقی ادارے نے اپنی تحقیق میں کہا کہ ترکی، امریکہ اور اسرائیل کی شام میں عسکری مداخلت کے نتیجے میں اس ملک کی یکجہتی اور استحکام خطرے میں پڑ گئے ہیں۔

اس تحقیقی مرکز نے کہا کہ وہ غیر ملکی طاقتیں جو گزشتہ دہائی کے دوران شام میں مداخلت کرتی رہی ہیں، اب بھی بشار الاسد کے بعد کے دور میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ صورتحال شام میں اتحاد، سلامتی اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترکی اور امریکہ کے اتحادی شام کے مشرقی علاقوں میں جنگ میں مصروف ہیں۔ ترکی کو کرد فورسز (قسد) کے بارے میں تشویش ہے، جبکہ امریکہ کو شام میں داعش کے دوبارہ ابھرنے کا خطرہ لاحق ہے۔

مرکز نے مزید بتایا کہ بشار الاسد حکومت کے سقوط اور اس کے اتحادی فورسز کے شام سے انخلاء کے بعد، اسرائیلی فوج نے شام کی عسکری ہتھیاروں کے تمام ذخائر پر بمباری شروع کر دی اور اسرائیلی فورسز گولان میں اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) اور شام کے درمیان حائل علاقے تک پہنچ گئی ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شام میں سیاسی انتقال کے عمل کے غیر واضح ہونے کی وجہ سے، موجودہ امریکی انتظامیہ اور مستقبل کی حکومت، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں ہوگی، ان وسیع پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دے رہی ہیں جو بشار الاسد حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے عائد کی گئی تھیں۔

تحقیق کے مطابق، گزشتہ دہائی کے دوران دہشت گردی اور تنازع کے باعث شام کے سماج میں دراڑیں مزید گہری ہو گئی ہیں اور سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد اتحاد اور مکمل حاکمیت کی بحالی کی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

“صوفان سینٹر” نے مزید کہا کہ اس وقت ترکی، اسرائیل اور امریکہ شام میں تین اہم غیر ملکی کھلاڑی ہیں اور انہوں نے ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے ان مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے 2011 میں شام کے بحران کے آغاز کے وقت طے کیے تھے، لیکن اس وقت ان میں کامیاب نہ ہو سکے۔

امریکی جریدے فارن افیئرز نے بھی شام کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو اس ملک میں افراتفری سے بچنے کے لیے متعدد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکی میڈیا نے کہا کہ اگرچہ کچھ عالمی طاقتیں شام کی سابقہ حکومت کے سقوط پر خوش ہیں، لیکن عالمی اور علاقائی برادری کو آنے والے دور میں شام میں افراتفری اور انتہا پسندی کے حوالے سے خدشات ہیں۔ نئی حکومت کا پورے شام پر کنٹرول قائم کرنا انتہائی مشکل، بلکہ شاید ناممکن ہوگا۔ شام کے جغرافیائی تنوع اور مختلف نظریات کے حامل مسلح گروہوں کی موجودگی، خاص طور پر اس وقت جب ملک کی اقتصادی صورتحال انتہائی خراب ہے، افراتفری کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔