تکفیریوں کی تجدید کاری گردن کاٹنے سے لبرل بننے کی نمائش تک
تحریر الشام کے منصوبے کا ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر مزاحمت نہ کی جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔
فاران تجزیاتی ویب سائٹ:
پہلا نکتہ:
داعش کا منصوبہ مغرب اور ترکی کے لیے ایک “ناکام تجربہ” ثابت ہوا۔ یہ ایک ایسا دہشت گرد گروہ تھا جو انتہا درجے کی وحشیانہ کارروائیوں اور کھلے عام تشدد کے ذریعے خوف پیدا کرنے کی تکنیک استعمال کرتا تھا تاکہ باآسانی شہروں اور دیہاتوں پر قبضہ کر سکے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد “مزاحمت” کو ختم یا کمزور کرنا تھا۔ شام، عراق اور کسی حد تک لبنان اس منصوبے کے نفاذ کے لیے چنے گئے تھے، لیکن عوامی مزاحمت اور ان ممالک کی مسلح افواج کی موجودگی کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ داعش کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ مستقل طور پر رہے بلکہ وہ ان طاقتوں کے لیے راستہ صاف کرنے آیا تھا جو اسے چلا رہی تھیں۔ چونکہ “مزاحمت” کی بنیاد اسرائیل کے خاتمے پر ہے، لہٰذا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ داعش کے قیام کا مقصد “اسرائیل کو بچانا” اور اسے محفوظ مقام فراہم کرنا تھا۔
دوسرا نکتہ:
داعش کا منصوبہ ناکام ہوا، لیکن اسے کبھی ترک نہیں کیا گیا۔ موجودہ شام کے حالات اور “تحریر الشام” کا مسئلہ دراصل 2011 کے بعد شام میں ہونے والی تبدیلیوں اور داعش کی کہانی کا تسلسل ہیں۔ ان دونوں منصوبوں کے پیچھے ایک جیسی ہی طاقتیں ہیں اور دونوں کا آغاز شام سے ہوا۔ ان کا مقصد بھی ایک ہی ہے، یعنی مزاحمت کے محور کو کمزور کرنا۔ 2011 میں شام میں شروع ہونے والی شورشیں جلد ہی عراق اور لبنان تک پہنچ گئیں، اور امکان ہے کہ ان دونوں ممالک کے لیے بھی منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں۔ چونکہ اس محور کا مرکز ایران ہے، لہٰذا واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام شیطانی منصوبوں کا حتمی ہدف ایران ہے۔ اس دفعہ یہ ہدف علانیہ طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔ مزاحمتی محاذ سے متعلق ممالک کو تقسیم کرنا بھی ان منصوبوں کے مقاصد میں شامل تھا، اور اس وقت بھی واضح طور پر اسی کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
تیسرا نکتہ:
جب ایک تکفیری دہشت گرد کو سوٹ بوٹ پہنا کر اور تراش خراش کے بعد ٹی وی کیمرے کے سامنے لایا جاتا ہے، اور وہ عوام کی تکفیر کرنے کے بجائے مغربی فلسفیوں اور “جان لاک کی قدرتی حالت” جیسے مسائل پر کرنے لگتا ہے، تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس منصوبے کے معماروں نے داعش کی ناکامی سے سبق سیکھا ہے۔ وہ اب اسی منصوبے کو نئے انداز میں آزما رہے ہیں۔
چوتھا نکتہ:
حقیقت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گردوں کو “ماڈرن” اور “روشن خیال” ظاہر کرنے کی کوشش، عارضی اور غیر فطری ہے۔ یہ گروہ جنہیں وحشت اور قتل و غارت گری کے ذریعے پہچانا جاتا ہے، زیادہ دیر تک اس نقاب کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ان کا بنیاد پرستانہ نظریہ اور انکے دہشت گردانہ عزائم جلد ہی ظاہر ہو جائیں گے۔
پانچواں نکتہ:
تحریر الشام کے منصوبے کا ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر مزاحمت نہ کی جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ایسے بیانات کے ذریعے عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شام کی تباہی کے پیچھے اسرائیل اور دیگر قابض قوتوں کا ہاتھ ہے۔
چھٹا نکتہ:
2011 کے بعد شام میں پیدا ہونے والی صورتحال اور داعش کی تخلیق مزاحمت کے لیے ایک موقع ثابت ہوئی۔ اس بحران کے دوران “حشد الشعبی” (عراق)، “انصار اللہ” (یمن)، “فاطمیون” (افغانستان) جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ جیسا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی نے کہا تھا: “بحرانوں میں جو مواقع ہوتے ہیں، وہ خود مواقع میں نہیں ہوتے۔ شرط یہ ہے کہ ہم نہ ڈریں، نہ دوسروں کو ڈرائیں۔”
منبع: https://kayhan.ir/001GZi
تبصرہ کریں