فاران: داعش کی حالیہ سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اس تکفیری دہشت گرد گروہ کے دوبارہ ابھرنے کی توقع کرنی چاہیے۔ اس دوران جہاں انقرہ خود کو اس معاملے پر فکر مند ظاہر کر رہا ہے، تل ابیب مطمئن نظر آتا ہے۔
فارس بین الاقوامی نیوز اہجنسی کے مطابق، “شامی حقوقِ انسانی پر نظر رکھنے والے ادارہ” نے اعلان کیا ہے کہ دمشق کے سقوط کے بعد 8 دسمبر کو داعش نے چھ حملے کیے، جن میں 70 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 52 فوجی اہلکار تھے، جنہیں اس دہشت گرد گروہ نے سزائے موت دی۔
حقوقِ انسانی کے ادارہ کے مطابق، شام میں پیدا ہونے والے سیکیورٹی خلا، تناؤ، اور نیم فوجی گروہوں کے زیر قبضہ علاقوں کے نقشے میں تبدیلی کے ساتھ، شامی فوج کی عدم موجودگی داعش کے لیے ایک موقع میں تبدیل ہو گئی ہے تاکہ وہ دوبارہ اپنی سرگرمیاں شروع کر سکے۔
اس بیان کی تصدیق الجزیرہ کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ الجزیرہ نے “التنف” اڈے کے مطلع ذرائع کے حوالے سے بتایا، جو امریکہ کی قیادت میں داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد سے وابستہ ہے، کہ 2024 کے آغاز سے داعش سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا صرف ان حملوں پر توجہ دے رہا ہے جو زیادہ اہم ہیں، جیسے کہ “شاعر” گیس فیلڈ پر حملہ اور اس میدان کے گیس اسٹیشن کے سربراہ کی ہلاکت اس کا ایک نمونہ ہے۔
موجودہ صورت حال:
تقریباً 1200 داعشی دہشت گرد شام میں موجود ہیں، جو حسکہ، دیر الزور، اور حمص کے صوبوں میں منتشر ہیں۔ ان میں سے تقریباً 800 داعشی شام کے صحرائی علاقوں میں جبل البشری، جبل العمور، تدمر، سخنہ کے ارد گرد اور شمالی دیر الزور میں موجود ہیں۔ باقی 400 داعشی کرد نیم فوجی گروہوں، جنہیں “قواتِ شام جمہوری” (SDF) کہا جاتا ہے، کے زیر قبضہ علاقوں میں سرگرم ہیں۔
داعش کی موجودہ سرگرمیاں ان کے رہنما “ابو حفص الہاشمی القرشی” کی قیادت میں ہو رہی ہیں، جو جغرافیائی علاقوں پر قبضہ کرنے کی بجائے نقصان پہنچانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ 2024 کے آغاز سے داعش کے حملے تقریباً 700 حملوں تک پہنچ چکے ہیں، جن میں 100 حملے شام کے صحرائی علاقوں میں، 300 حملے شامی فوج کے خلاف، اور 300 حملے SDF کے خلاف کیے گئے ہیں۔
شام کے سقوط کے بعد داعش کے خلاف ترکی کا مؤقف
ترکی نے امریکہ کو آگاہ کیا ہے کہ وہ داعش کے دوبارہ ابھرنے کی صورت میں اس کے خلاف کارروائیوں اور داعش کے قیدیوں کی نگرانی کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، واشنگٹن اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ داعش کے خلاف جنگ ترکی کے ہاتھ میں دو دھاری تلوار بن سکتی ہے، کیونکہ ترکی اس جنگ کی آڑ میں امریکہ کے حمایت یافتہ کرد گروہ “قسد” کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے اب تک ترکی کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ، خود امریکی بھی داعش کے خلاف جنگ کے پردے میں شام اور عراق میں اپنی کئی کارروائیوں کو عالمی رائے عامہ کے سامنے جائز قرار دیتے ہیں۔ اس لیے داعش کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری ترکی کو سونپنا اس جواز کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل میں بھی امریکہ کے اس درخواست کو قبول کرنے کا امکان کم ہے۔
ترکی کا مؤقف ہے کہ قسد کے علاقوں میں شامل ہونے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جو قسد کے رویوں اور اقدامات کی وجہ سے داعش میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔
قسد نے ترکی کے ان بیانات کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ترکیہ کی خفیہ ایجنسی “میت” (MIT) “الهول” کیمپ اور ان قیدخانوں پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو قسد کے زیر کنٹرول ہیں اور جہاں داعش کے قیدی رکھے گئے ہیں۔ قسد نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ “ہیئت تحریر شام” کے رہنما “ابو محمد الجولانی” نے کئی داعشی قیدیوں کو جیلوں سے آزاد کیا ہے، جس کی وجہ سے قسد کے زیر قبضہ علاقے داعش کے دوبارہ ابھرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
قسد نے شام میں داعش کے دوبارہ ابھرنے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی آج کردوں کو شکست دینے کے لیے داعش کو قانونی جواز فراہم کرنے اور اسے دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس کے ذریعے “شامی قومی فوج” کے نام سے معروف ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر قسد کے علاقوں پر قبضہ کیا جا سکے۔
اس تناظر میں، ترکی نے وائٹ ہاؤس کو اطلاع دی ہے کہ وہ شام میں دہشت گرد گروہوں، بشمول داعش، کے خلاف پیشگی اقدامات کرے گا۔ تاہم، وائٹ ہاؤس نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ شام میں کسی بھی فوجی کارروائی، بشمول داعش کے خلاف جنگ، سے باز رہے اور اس کام کو بین الاقوامی اتحاد کے سپرد کرے۔
الہول کیمپ، جو شام اور عراق کی سرحد کے قریب شام کے مشرقی صوبے حسکہ میں تقریباً تین ہزار دونم (عام طور پر ایک دونم 1000 مربع میٹر کے برابر ہوتا ہے) کے رقبے پر مشتمل ہے، ہزاروں شامی، عراقی اور 54 دیگر ممالک کے غیر ملکی پناہ گزینوں کا مرکز ہے۔ یہ تمام پناہ گزین داعش کے عناصر یا ان کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو یا تو مارے گئے یا کردوں کی سربراہی میں قائم (SDF) کے جیلوں میں قید ہیں۔ داعش کے خاندانوں اور باقیات کا اس کیمپ میں اجتماع اسے جرائم، تشدد اور تکفیری دہشت گردانہ نظریات کی افزائش کا مرکز بنا دیتا ہے۔ اس وقت الہول میں 51,700 داعشی قید ہیں، جن میں 26,000 عراقی، 18,000 شامی، اور 7,700 غیر ملکی ہیں۔ کیمپ کی ذمہ دار، “جہان حنان”، کے مطابق، الہول دنیا کے خطرناک ترین کیمپوں میں سے ایک ہے، جہاں باغوز کی جنگ 2019 کے بعد داعش کے باقیات اور ان کے خاندانوں کو رکھا گیا ہے۔
حنان کے مطابق، گزشتہ چار سالوں میں اس کیمپ میں 150 سے زیادہ قتل کے واقعات پیش آئے ہیں، جن میں سے 36 قتل صرف گزشتہ سال کے دوران ہوئے۔ یہ اعداد و شمار دیگر جرائم جیسے کہ تشدد، زیادتی، فرار، مسلسل دھمکیوں اور حملوں کے علاوہ ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل نے الہول کو “داعش کی ایک چھوٹی اسلامی ریاست” قرار دیا ہے، جہاں داعشی خواتین اس گروہ کی نظریات کو زندہ رکھتی ہیں، اپنے بچوں میں منتقل کرتی ہیں اور اس کے بقا کے لیے دنیا بھر سے مالی امداد اکٹھی کرتی ہیں۔
شام کے نظام کے زوال نے شمالی شام کے کیمپوں اور جیلوں میں قید 50 ہزار داعشیوں کے مستقبل کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب شام میں جاری افراتفری اور “ہیئت تحریر شام” (جو نظریاتی طور پر داعش کے قریب سمجھی جاتی ہے) کے ہاتھوں قسد کے زیر کنٹرول علاقوں پر قبضے نے خطے میں داعش کی دہشت گردی کی واپسی کے خطرے کو دوگنا کر دیا ہے۔
اسرائیل کی بے فکری
یورام شوائٹزر، جو اسرائیلی سیکیورٹی سروسز کے سابق افسر اور تل ابیب میں موجود اس حکومت کے قومی سلامتی کے مطالعہ مرکز کے محقق ہیں، کا ماننا ہے کہ داعش نہ صرف شام میں اپنی سرگرمیاں بڑھائے گی بلکہ ہیئت تحریر شام سے شام کے کچھ علاقے بھی چھین لے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ موجودہ وقت میں اور نہ مستقبل میں داعش سے اسرائیل کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ اگر داعش سے کوئی خطرہ ہو بھی، تو وہ شام کے اندرونی گروہوں کو ہوگا۔
شوائٹزر کا خیال ہے کہ اگر داعش دوبارہ سرگرم ہوتی ہے تو اس کا پہلا ہدف الہول کیمپ ہوگا تاکہ اپنے خواتین اور بچوں کو آزاد کروا سکے۔ ان کے مطابق الہول کیمپ داعش کے لیے آسان ہدف ہے کیونکہ کرد بارہا یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ معاملات، خاص طور پر داعشی قیدیوں کی نگرانی میں ناکام ہیں، خاص طور پر جب ترک فوج ان پر حملہ کرتی ہے۔
اسرائیل کے قومی سلامتی کے مطالعہ مرکز کی جانب سے شائع شدہ تحقیق اس بات پر زور دیتی ہے کہ شام میں مرکزی حکومت کا فقدان شدت پسند جہادی گروہوں جیسے داعش کو اسرائیل کی سرحدوں کے قریب دوبارہ طاقت حاصل کرنے کا موقع دے گا۔ تاہم، چونکہ ان گروہوں کی طاقت شام میں ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، اس لیے ان کی سرگرمیاں اسرائیل کے لیے کوئی خاص خطرہ پیدا نہیں کریں گی۔
اس تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسرائیل اور تکفیری دہشت گرد گروہوں کا ایک مشترکہ دشمن ہے، جس کا نام “ایران” اور “حزب اللہ” ہے۔ تحقیق مزید کہتی ہے: “مشترکہ دشمن اور مفادات کی ہم آہنگی نہ صرف ان گروہوں کو اسرائیل کے خلاف کارروائی سے روکتی ہے بلکہ مستقبل قریب میں ان کے تل ابیب کے قریب آنے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔”
لہٰذا، جنوبی شام اور اسرائیل کی سرحدوں کے قریب داعش کی سرگرمیاں اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں جو تل ابیب کو اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے پر مجبور کریں۔ بلکہ یہ گروہ جلد یا دیر سویر اپنے ہم خیال دیگر گروہوں، خاص طور پر تحریر شام کے ذریعے ختم ہو جائے گا، جو شام میں اقتدار حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں