فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یرموک حوض ایک انتہائی اسٹریٹیجک علاقہ ہے جو شام اور اردن کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے۔ اسرائیل نے شام کی زمین پر اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے اب اس علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔
فارس پلس کی رپورٹ: جنوب شام میں حالیہ فوجی اور سیکیورٹی تبدیلیوں کے دوران، 8 دسمبر کو دمشق کے سقوط کے بعد، اسرائیلی فوج نے اپنی پیش قدمی کو درعا صوبے کے مغربی مضافات تک بڑھا دیا ہے۔ اس دوران “یرموک حوض” کے اسٹریٹیجک دیہات اور قصبے اسرائیل کے قبضے میں آ گئے ہیں۔
9 دسمبر 2024 سے اسرائیل نے جنوب شام کے کئی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ 1974 کی جنگ بندی لائن عبور کرنے کے بعد، اسرائیلی فوج نے حائل علاقہ، جولان کی باقی اسٹریٹیجک بلندیوں، جبل الشیخ، اور صوبہ قنیطرہ کے کئی قصبوں پر قبضہ کر لیا۔ اب اسرائیلی فوج نے درعا کے مغربی مضافات میں صیدا الجولان، جملة، المعریة، عین ذکر، کویا، عابدین اور دیگر دیہاتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے ٹینک “یرموک حوض ” کی گہرائی میں پہنچ چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے ان علاقوں پر قبضہ 17 دسمبر بروز منگل کیا اور اب اردن اور شام کی سرحد کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔
اسرائیل کی یرموک حوض کی طرف پیش قدمی کے اثرات
شام کے بحران کے آغاز سے، اور “ابو محمد الجولانی” کی قیادت میں “ہیئت تحریر الشام” کے مسلح گروپ کے زیادہ تر علاقوں پر قبضے کے بعد، اسرائیل نے شام کی زمین کے اندر پیش قدمی کی۔ جنوب شام کے سرحدی علاقے، بشمول سویدا صوبہ، اسرائیلی پیش قدمی کا حصہ بنے ہیں۔
اب، اس پیش قدمی کے تسلسل میں، حالیہ دنوں میں اسرائیلی ٹینکوں نے جولان کے مقبوضہ علاقے کو عبور کرتے ہوئے درعا صوبے کے مغربی مضافات کی طرف حرکت کی ہے اور 9 کلومیٹر تک اندرونی علاقوں میں پیش قدمی کی ہے۔
اس دوران، اسرائیلی فوج نے اردن اور شام کی سرحد پر واقع “سد الوحدة” پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور مقامی باشندوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار حوالے کریں۔ فوج نے اہم اسٹریٹیجک مقامات پر اپنی موجودگی کو مستحکم کر لیا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق، اسرائیلی فوج نے درعا شہر کے مغربی دیہات میں وسیع پیمانے پر تلاشی اور معائنہ کی مہم شروع کر رکھی ہے تاکہ اسلحہ یا اسلحے کے ذخائر کا پتہ لگایا جا سکے۔ فوج مقامی باشندوں اور دیہات کے سربراہان سے بازپرس کر رہی ہے اور ان سے ہتھیار حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
مزید برآں، اسرائیلی ڈرونز 24 گھنٹے درعا کے مغربی مضافات کی فضا میں گشت کر رہے ہیں، علاقے کے رہائشیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، اور انہیں اسرائیلی فوج کی جانب سے پیغامات اور وارننگز فراہم کر رہے ہیں۔
منطقہ “یرموک بیسن”، جو درعا کے مغرب میں واقع ہے، شام اور اردن دونوں کے لیے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ یہ علاقہ دونوں ممالک کے لیے پانی کی فراہمی کا ایک حیاتی ذریعہ ہے۔ یرموک دریا اس خطے کی شہ رگ ہے، جو نہ صرف زرعی زمینوں کو پانی فراہم کرتا ہے بلکہ شام کے درعا اور سویدا صوبوں اور اردن کے شمالی حصے میں لاکھوں افراد کو پینے کے پانی کی فراہمی بھی یقینی بناتا ہے۔
اب اسرائیل نے اس علاقے کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا ہے، جو کئی چیلنجز پیدا کرتا ہے۔ ایک طرف، یہ اسرائیل کی شمالی سرحدوں کو وسعت دینے اور شام کے اسٹریٹجک علاقوں پر قبضہ کرنے کی توسیع پسندانہ حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے، اور دوسری طرف، شام کی آئندہ حکومت پر اضافی دباؤ ڈالتا ہے۔ اس حکومت کو سرحدی علاقوں کو واپس لینے، ان پر کنٹرول حاصل کرنے، اور اپنے اہم آبی وسائل کی حفاظت کے لیے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیلی مصنف “ہارلی لیپمن” نے عبری زبان کے اخبار “جروزالم پوسٹ” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسرائیل کے لیے ایک عظیم موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شرم کی بات ہوگی اگر اسرائیل اس موقع کو ضائع کرے، کیونکہ اس وقت وہ شام کی سرحدوں کے ساتھ اپنی پوزیشن کو بہتر بنا سکتا ہے اور اسے مزید مستحکم کر سکتا ہے۔ خاص طور پر، اس لیے کہ شام میں حکومت کے خاتمے کے بعد ایک مضبوط اور مرکزی حکومت کے قیام کی توقع نہیں کی جا رہی۔
اسرائیلی مصنف نے اس بات پر زور دیا کہ شام میں اسرائیل کی جانب سے کیے گئے اقدامات منطقی ہیں اور اسرائیلی فیصلہ سازوں کو ان واقعات کو اس زاویے سے دیکھنا چاہیے کہ انہیں اسرائیل کے مفاد اور اس کے مقاصد کے حصول کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیلی فوج نے شام کے جنوبی صوبے درعا کی سرحدوں تک پیش قدمی کی ہے، اور یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پیش قدمی کہاں تک جائے گی اور کب ختم ہوگی۔ تاہم، نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ شام کے حائل علاقے میں کم از کم 2025 کے آخر تک موجود رہنے کے لیے تیار رہیں۔ صہیونی وزیر اعظم نے “جبل الشیخ” کے علاقے کے دورے کے دوران کہا تھا کہ جب تک اسرائیل کی سلامتی کا تقاضا ہوگا، ہم یہاں موجود رہیں گے۔
یرموک حوض کی اسٹریٹجک اہمیت
یرموک حوض، جو شام کے جنوبی صوبے درعا کے مغرب میں واقع ہے، ایک سرسبز علاقہ ہے جو شام اور اردن دونوں کے لیے تاریخی اور اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔ یہ سرسبز خطہ ہے جو ایک وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے اور جنوبی شام اور شمالی اردن کے کچھ حصوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ شام کے حصے میں، ماضی میں شامی حکومت نے اس علاقے میں کئی ڈیم تعمیر کیے تھے۔
یہ علاقہ یرموک دریا کی وادی کا بھی حصہ ہے، جو شام اور اردن کے درمیان ایک قدرتی سرحد کے طور پر کام کرتا ہے۔ یرموک حوض کی تاریخی اہمیت قدیم زمانے تک پہنچتی ہے۔ اس علاقے میں 636 عیسوی میں مشہور “یرموک کی جنگ” ہوئی، جس کی قیادت حضرت خالد بن ولید نے کی۔ یہ جنگ اسلامی فتوحات کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھی اور اس کے نتیجے میں شام کے علاقے میں بازنطینی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
یرموک دریا، دریائے اردن کی سب سے بڑی شاخوں میں سے ایک ہے اور اسے شام اور اردن کے درمیان ایک مشترکہ دریا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، اس کا ایک حصہ مقبوضہ فلسطین کے شمال مشرقی سرحدی علاقے میں بھی بہتا ہے۔ اس دریا کی لمبائی 57 کلومیٹر ہے، جس میں سے 47 کلومیٹر شام کی سرزمین کے اندر بہتا ہے، جبکہ باقی حصہ اردن اور مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں پر بہتا ہے۔
یرموک دریا شام کے جنوبی صوبے درعا میں واقع “مزیریب جھیل” سے نکلتا ہے اور بہتے ہوئے شام اور اردن کے درمیان مشترکہ سرحد کا ایک حصہ تشکیل دیتا ہے۔ شام کی حکومت نے اس دریا کے اس حصے پر جو اس کی سرزمین میں بہتا ہے، یرموک ڈیم تعمیر کیا تھا۔
یہ دریا جولان اور وادی (درہ) الذهب میں بہنے والے کچھ ندیوں کے شاخوں سے بھی پانی حاصل کرتا ہے، یا پھر جبل حوران سے نکلتا ہے۔ یرموک دریا شام کی سرزمین سے گزرتے ہوئے اردن میں داخل ہوتا ہے اور پھر دریائے اردن میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ مقام جنوبی جھیل “طبریہ” کے قریب “یرموک کے مثلثی موڑ” کے پاس واقع ہے، جو دو دریاؤں کے سنگم کے لیے مشہور ہے۔
عثمانی حکومت نے اس مقام پر ایک پل تعمیر کیا تھا تاکہ حجاز ریلوے لائن اس کے اوپر سے گزر سکے۔ یہ ریلوے لائن 1908 میں عثمانیوں کے ذریعے شروع کی گئی تھی اور 1946 تک فعال رہی۔ تاہم، 1946 میں صیہونی دہشتگرد گروہوں نے اس پل کو تباہ کر دیا۔
شام نے یرموک حوض پر تعمیر کیے گئے ڈیمز کے ذریعے تقریباً 224.6 ملین مکعب میٹر پانی ذخیرہ کیا ہے، اس کے علاوہ الوحدہ ڈیم بھی موجود ہے جو اکیلے 225 ملین مکعب میٹر پانی ذخیرہ کرتا ہے۔ یہ ڈیمز 13,640 ہیکٹر زمین کو سیراب کرتے ہیں، جبکہ الوحدہ ڈیم کے ذریعے یرموک وادی کو سیراب کیا جاتا ہے۔ یہ وادی سمندر کی سطح سے 200 میٹر کی بلندی تک پھیلی ہوئی ہے اور اس سے 21,226 ہیکٹر زمین کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
مزید برآں، اس علاقے میں پانی کی ترسیل کے نیٹ ورک بھی بنائے گئے ہیں جو یرموک حوض سے پانی لے کر دیگر علاقوں تک پہنچاتے ہیں، اس طرح علاقے کے بہت سے دیہات کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ ان نیٹ ورکس میں سب سے اہم “خط الثورہ” ہے، جو درعا شہر، درعا صوبے کے مشرقی دیہات اور حتیٰ کہ السویداء صوبے کے مضافات کو پانی فراہم کرتا ہے۔
یرموک حوض کی اسٹریٹجک اہمیت اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ شام اور اردن کی سرحدی علاقے میں اور جولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کے قریب واقع ہے۔ یرموک دریا اردن اور شام دونوں کے لیے ایک اہم آبی وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس دریا کے آبی وسائل کے انتظام اور تقسیم کے لیے دمشق اور عمان نے کئی دو طرفہ معاہدے کیے ہیں، جن میں سب سے اہم 1953 کا معاہدہ ہے، جسے 1987 میں نظرثانی کے بعد دوبارہ نافذ کیا گیا۔
کبھی یرموک دریا کے آبی وسائل کی تقسیم کے مسئلے پر شام اور اردن کے تعلقات میں کشیدگی دیکھنے کو ملی، خاص طور پر سیاسی تبدیلیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے۔ 2011 میں، شام اور اردن نے درعا کے مغربی علاقے میں یرموک دریا پر الوحدہ ڈیم تعمیر کیا۔ یرموک دریا کا ایک حصہ اردن میں یرموک کے قدرتی محفوظ علاقے کے اندر واقع ہے۔
2011 میں درعا میں شروع ہونے والے احتجاجات کے بعد، یہ علاقہ جھڑپوں کا مرکز بن گیا اور دو سال تک مسلح گروہوں کے کنٹرول میں رہا۔ اس کے بعد داعش نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ آخرکار 2018 میں شامی فوج اور ان کے اتحادیوں نے داعش سے یہ علاقہ آزاد کروا لیا۔
دمشق کے سقوط اور شامی فوج کے سرحدی علاقوں سے پسپائی کے بعد، اسرائیلی فوج نے اسٹریٹجک طور پر اہم یرموک حوض جبل الشیخ اور قنیطرہ صوبے کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ علاقے جنوبی شام کے زرعی علاقوں کی آبپاشی اور مقامی آبادی کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں