کیہان کی تجزیاتی خبر رپورٹ

یمن اور صیہونی حکومت کے درمیان فیصلہ کن جنگ کا آغاز

اسرائیلی نسل پرست حکومت کے جنگی طیاروں نے یمن کے مختلف علاقوں پر شدید حملے کیے، جس کے جواب میں یمن کی انصار اللہ نے اپنے ہائپر سونک میزائلوں سے مقبوضہ فلسطین کے دو اہم مقامات پر حملہ کیا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ؛ اسرائیلی نسل پرست حکومت کے جنگی طیاروں نے یمن کے مختلف علاقوں پر شدید حملے کیے، جس کے جواب میں یمن کی انصار اللہ نے اپنے ہائپر سونک میزائلوں سے مقبوضہ فلسطین کے دو اہم مقامات پر حملہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق ایک امریکی طیارہ بردار بحری جہاز پر بھی میزائل حملہ کیا گیا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے: “کیا یہ یمن اور اسرائیل کے درمیان فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہے؟”

غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے 40 دن بعد، یمن نے 19 نومبر (28 آذر) کو اسرائیلی حکومت سے متعلق جہازوں پر حملہ کرکے غزہ کی جنگ میں عملی طور پر شرکت کی۔ یہ اقدام غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کے لیے واحد عملی کارروائی تھی۔ لیکن جب امریکی بحری جہاز اور اس کے اتحادی اس جنگ میں شامل ہوئے، تو امریکی بحری جہاز بھی انصار اللہ کے نئے اہداف بن گئے۔ امریکی کوششیں مقبوضہ علاقوں کی ناکہ بندی توڑنے میں ناکام رہیں۔ اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے خلاف براہ راست فضائی حملے شروع کیے، لیکن یہ بھی ناکام رہے اور خود امریکیوں کے اعتراف کے مطابق ان کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔

اب اسرائیلی حکومت نے یمن پر بھاری حملے شروع کیے ہیں، اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یمن اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ کا وقت آ گیا ہے؟
اسرائیلی نسل پرست حکومت کی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے 19 دسمبر (29 آذر) کو یمن کے ان علاقوں پر حملے کیے جو حوثیوں کے کنٹرول میں تھے۔ اسرائیلی فوج کے بیان سے پہلے یمنی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی تھی کہ یمن کے کئی علاقوں، بشمول صنعا اور الحدیدہ، کو وسیع پیمانے پر فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ بندرگاہی شہر الحدیدہ، جو یمن کے جنگ زدہ علاقے میں انسانی امداد اور خوراک کی فراہمی کا مرکزی راستہ ہے، بھی حملوں کی زد میں آیا۔

المسیرہ ٹی وی نے رپورٹ دی کہ صنعا کے دو مرکزی بجلی گھروں کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا، اور رأس عیسیٰ میں تیل کی تنصیبات کو بھی حملے میں نقصان پہنچا۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے 60 سے زائد بموں کے ذریعے یمن کے مغربی ساحل اور اندرونی علاقوں میں اہداف کو نشانہ بنایا۔

اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں 9 شہری جاں بحق ہوئے۔ یہ اسرائیل کی جانب سے یمن پر غزہ کی جنگ کے بعد تیسرا حملہ ہے۔ پہلا حملہ جولائی اور دوسرا ستمبر میں الحدیدہ بندرگاہ اور وہاں موجود ایندھن کے ذخائر پر کیا گیا تھا۔ تاہم، حالیہ حملوں کی شدت نے ان کارروائیوں کو پچھلے حملوں سے ممتاز بنا دیا ہے۔
نتنیاہو: امریکہ یمن پر حملے کی وجہ کو سمجھتا ہے!

صیہونی میڈیا «جروزالم پوسٹ» نے ایک باخبر ذریعہ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ «اسرائیل نے حالیہ یمن حملے سے پہلے امریکہ کو مطلع کیا تھا۔» اسی دوران، صیہونی حکومت کے وزیراعظم نے یمن کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے اور بندرگاہوں پر حملے کے جواز میں دعویٰ کیا: «حوثی (انصار اللہ) پوری دنیا پر حملے کر رہے ہیں، اور امریکہ سمیت دیگر ممالک اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔»
نیتن یاہو نے مزید کہا: «حوثی سبق سیکھ رہے ہیں اور وہ جلد ہی سیکھیں گے کہ جو کوئی بھی اسرائیل پر حملہ کرے گا اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔»

یدیعوت آحارونوت: یمن کی لغت میں «پیچھے ہٹنے» کا تصور نہیں

نتنیاہو کے ان دعووں کے برعکس، ایک اسرائیلی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن کی لغت میں «پیچھے ہٹنے» کا کوئی وجود نہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج خطے سے دور جنگ کے لیے تیار نہیں ہے۔
«یوسی بہوشع»، اسرائیلی اخبار «یدیعوت آحارونوت» کے فوجی امور کے تجزیہ کار، نے کہا: «یہ واضح ہے کہ یمن کے ساتھ معاملات میں کوئی ٹہراو نہیں ہے۔ یمن کے خلاف جنگ کے شراکت داروں نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ پیچھے ہٹنے کا تصور یمن کے قاموس میں نہیں پایا جاتا۔»
انہوں نے مزید کہا: «مسئلہ یہ ہے کہ شمال میں مہینوں کی جنگ کے بعد اسرائیلی فوج اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ لبنان سے کہیں دور کے علاقے میں وسیع جنگ لڑ سکے۔»

یمن کی مزاحمت کے حملے مقبوضہ فلسطین کے قلب میں

اسی دوران، یمنی مسلح افواج کے ترجمان «یحییٰ سریع» نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ یمن کی فوج نے 2 اہم اور حساس فوجی اہداف کو تل ابیب میں نشانہ بنایا ہے، اور یہ آپریشن کامیاب رہا ہے۔
انہوں نے کہا: «یمنی میزائل یونٹ نے ایک خاص فوجی کارروائی کرتے ہوئے دشمن صیہونی کے 2 حساس اور اہم فوجی اہداف کو مقبوضہ یافا (تل ابیب) میں نشانہ بنایا۔»
یحییٰ سریع نے مزید بتایا: «یہ کارروائی 2 ہائپر سونک بیلسٹک میزائل ‘فلسطین 2’ کے ذریعے کی گئی، جو اللہ کے فضل سے اپنے اہداف پر کامیابی سے پہنچے۔»
انہوں نے مزید کہا کہ یہ آپریشن اسرائیلی حملوں کے ردعمل میں کیا گیا، جو صنعا اور الحدیدہ کے شہری علاقوں پر کیے گئے تھے۔ ترجمان نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ «یمن صیہونی دشمن حکومت کے ساتھ طویل جنگ کے لیے تیار ہے۔»

امریکی بحری جہازوں کے ساتھ جنگ

کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق یمنی افواج اور امریکی بحری جہازوں کے درمیان بحیرہ احمر میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ یمن میں مقامی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ یمنی فوج اور امریکی جنگی جہازوں کے درمیان سخت لڑائی ہو رہی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ ایک امریکی طیارہ بردار بحری جہاز، جو یمن پر حملے کے لیے علاقے میں آیا تھا، یمنی فورسز کے پیشگی حملے کا نشانہ بنا۔ ان خبروں کی ابھی تک سرکاری ذرائع یا میڈیا نے تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

ردعمل

یمنی حکام نے زور دیا کہ صنعاء اور الحدیدہ میں شہری بنیادی ڈھانچے پر حالیہ اسرائیلی حملے یمنی افواج کو غزہ کی حمایت میں اپنے آپریشن جاری رکھنے سے نہیں روک سکتے۔
شہید «عزالدین قسام» بریگیڈ کے ترجمان نے یمن کی فوج کے تل ابیب پر میزائل حملے کو مبارکباد دی اور صنعاء سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے حملے مزید تیز کرے۔
حماس نے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم سے اپیل کی کہ وہ خطے میں صیہونی حکومت کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
لبنانی حزب اللہ نے ایک بیان میں یمن پر حالیہ اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔
عراقی حزب اللہ بریگیڈز کے مزاحمتی ونگ نے یمن کی مسلح افواج کو مقبوضہ یافا (تل ابیب) میں دشمن صیہونی کو نشانہ بنانے پر مبارکباد دی۔
انصار اللہ کے رہنما عبدالملک الحوثی کی یمن کی تیز رفتار کارروائیوں پر گفتگو
جمعرات کے روز ایک تقریر میں انصار اللہ یمن کے رہنما عبدالملک الحوثی نے کہا: « صیہونی دشمن نے الحدیدہ کی بندرگاہوں اور صنعاء کے پاور پلانٹس پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 9 شہری شہید ہوئے۔ ان جارحیتوں کے جواب میں، ایک ہائپر سونک میزائل مقبوضہ اراضی کی طرف داغا گیا۔ ان دو واقعات کے بیک وقت ہونے نے قابضین میں خوف و ہراس پیدا کر دیا۔»
انہوں نے مزید کہا: «یمنی فورسز نے اب تک 1,147 بیلسٹک اور گائیڈڈ میزائل، ڈرونز اور جنگی کشتیاں دشمن صیہونی کے خلاف استعمال کی ہیں۔ 211 جہازوں کو نشانہ بنایا گیا اور بندرگاہ ام الرشراش، جو مقبوضہ اراضی کی اہم ترین بندرگاہوں میں شامل ہے، مفلوج ہو گئی ہے۔»

صیہونیوں کا فرات تک پہنچنے کا خواب

عبدالملک الحوثی نے شام کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا: «صیہونی حکومت کی شام کے بارے میں پالیسی اس ملک کی سرزمین میں مداخلت اور السویدا تک پیش قدمی کرتے ہوئے اسے امریکی قابضین کے زیر کنٹرول علاقوں سے جوڑنے کی ہے۔ تل ابیب ‘داوود کوریڈور’ کے نام سے ایک منصوبہ رکھتا ہے، جس کے ذریعے وہ کردوں اور امریکہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں دریائے فرات تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صیہونی دریائے فرات تک پہنچنے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مناسب سمجھتے ہیں۔»

شام کی فوجی صلاحیتوں کی تباہی

انہوں نے مزید کہا: «دشمن صیہونی کے لیے جبل الشیخ کے اسٹریٹجک پہاڑی علاقے پر قبضہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ صیہونی حکومت نے شام کی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے، حالانکہ یہ صلاحیتیں شام کے عوام کی ملکیت تھیں۔ آج، شامی عوام کو صیہونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ان صلاحیتوں کی ضرورت ہے، لیکن شام میں معاملات پر قابض عناصر نے ملک کے اہم اور اسٹریٹجک ہتھیاروں کو نظر انداز کر دیا۔»

عرب حکومتوں کی تل ابیب سے سازباز

عبدالملک الحوثی نے مزید کہا: «صیہونی حکومت شام پر حملہ کر کے اس کی فوجی طاقت کو تباہ کر رہی ہے، جبکہ شام کے موجودہ حکمران اس کے خلاف جنگ کا سوچ بھی نہیں رہے۔ مسلمان بھی اس معاملے میں غفلت برت رہے ہیں، اور عرب حکومتوں میں سے بعض نے صیہونی دشمن کے ساتھ سازباز کر رکھی ہے۔ مسلمان اور بالخصوص عرب ممالک، صیہونی حکومت کے ہولناک جرائم کا مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن ان کی ذلت واضح ہے۔ اگر یہ مظالم کسی یورپی ملک میں ہوتے تو یورپی کیا کرتے؟ دیکھیں کہ انہوں نے یوکرین کے معاملے میں کیا کیا!»

امریکہ شام کا تیل لوٹ رہا ہے

عبدالملک الحوثی نے مزید کہا: «امریکہ شام کا تیل لوٹ رہا ہے اور صیہونی حکومت فلسطین کے تمام وسائل پر قبضہ کر رہی ہے۔ وہ شام کے آبی وسائل پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اسلامی مقدسات پر قابض ہونا صیہونی-امریکی منصوبے کا ایک اور حصہ ہے، جس کے تحت وہ بیت المقدس، مکہ اور مدینہ پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔»

ایران کی فلسطین کے لیے بھرپور حمایت

انہوں نے کہا: «اسلامی جمہوریہ ایران نے فلسطین کے نصب العین کے لیے اپنی ذمہ داری بہترین طریقے سے ادا کی ہے اور اس کارکردگی کا عرب حکومتوں کی ذلت اور خواری سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ دنوں میں یمنی فورسز نے صیہونی حکومت کے خلاف کئی کارروائیاں کی ہیں، جن میں بن گوریون ایئرپورٹ پر چند گھنٹوں کے لیے پروازیں معطل ہو گئیں۔ یہ فضائی کمپنیوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔»

یمنی عوام کی بڑے پیمانے پر ریلیاں

ایک اور خبر کے مطابق، یمنی عوام نے فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت کی حمایت میں دوبارہ ملک کے مختلف صوبوں میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالیں۔ گزشتہ جمعہ کی طرح اس بار بھی صعدہ، ریمہ، مأرب اور دیگر صوبوں میں «غزہ کے ساتھ، جہاد اور بیداری… ہر طرح کی جارحیت کو روکنے کے لیے تیار ہیں» کے نعرے کے ساتھ مظاہرے ہوئے۔ مختلف صوبوں میں فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت کی حمایت میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملے۔