لبنان میں پیجرز کے دھماکے کی تفصیلات موساد کی زبانی

دو موساد کے اہم اہلکاروں، جنہوں نے پیجرز کے دہشت گردانہ دھماکے میں کلیدی کردار ادا کیا، اس آپریشن کی تفصیلات برملا کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ حزب اللہ کے وجود کو مٹانے میں ناکام رہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: دو موساد کے اہم اہلکاروں، جنہوں نے پیجرز کے دہشت گردانہ دھماکے میں کلیدی کردار ادا کیا، اس آپریشن کی تفصیلات برملا کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ حزب اللہ کے وجود کو مٹانے میں ناکام رہے۔

بین الاقوامی خبر رساں نیوز ایجنسی فارس کے مطابق، 17 ستمبر (27 ستمبر) کو صہیونی حکومت اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کے عروج پر، موساد نے لبنان میں ایک دہشت گردانہ آپریشن کے دوران مواصلاتی آلات، بشمول پیجرز، کو بڑے پیمانے پر دھماکوں سے تباہ کر دیا۔ اس واقعے میں درجنوں افراد شہید اور ہزاروں شدید زخمی ہوئے۔

اس اقدام کو تجزیہ کاروں، بشمول سی آئی اے کے سابق سربراہ، نے ایک “دہشت گردانہ کارروائی” قرار دیا ہے۔ اس آپریشن کے دوران، پورے لبنان میں سیکڑوں پیجرز، واکی ٹاکی آلات، اور شمسی پینلز کو ایک ساتھ دھماکے سے اڑا دیا گیا۔
امریکی چینل سی بی ایس نے اس سلسلے میں موساد کے دو ریٹائرڈ ایجنٹوں کا انٹرویو کیا ہے، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس دہشت گردانہ کارروائی میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، ان موساد اہلکاروں کی شناخت چھپانے کے لیے ان کے چہرے مکمل طور پر ڈھانپ دیے گئے ہیں۔
موساد کے ایک سابق اہلکار نے، جسے فرضی نام “مائیکل” کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس دہشت گردانہ کارروائی کا کمانڈر تھا، لبنان میں پیجرز کے دھماکوں کے بارے میں کہا:
” آپریشن 10 کے مقدمات سال پہلے شروع ہوئے اور پیجرز کے بجائے اسلحہ سے لیس واکی ٹاکیز کے ذریعے کیا گیا تھا۔ واکی ٹاکیز ایک ایسے ہتھیار تھے جو گولی، میزائل یا مارٹر کے مانند تھے۔”
اس اہلکار نے وضاحت کی:
“بم خود واکی ٹاکی کے اندر تھا۔ بیٹری کے اندر ایک دھماکہ خیز آلہ رکھا گیا تھا۔ جی ہاں، یہ اسرائیل میں موساد کے ذریعے تیار کیا گیا تھا۔”

مائیکل نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت نے ان آلات کو حزب اللہ کو “ایک مناسب قیمت پر فروخت کیا، جو نہ بہت کم ہو کہ وہ مشکوک ہو جائیں اور نہ ہی بہت زیادہ۔”
انہوں نے بتایا کہ:
“آخرکار حزب اللہ نے ان دھماکہ خیز واکی ٹاکیز کے 16 ہزار سے زائد یونٹ خریدے۔ اسرائیل نے ان آلات کو 10 سال تک غیر فعال رکھا اور انہیں صرف تین ماہ قبل فعال کیا۔”
یہ پوچھے جانے پر کہ اسرائیلی حکومت نے حزب اللہ کو ان آلات کی خریداری پر کیسے قائل کیا، مائیکل نے کہا:
“یہ ظاہر ہے کہ حزب اللہ کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اسرائیل سے خریداری کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس غیر ملکی کمپنیوں کے قیام کے لیے حیرت انگیز وسائل موجود ہیں، جو کسی بھی صورت میں اسرائیل سے منسلک نہیں ہو سکتے۔”

انہوں نے مزید وضاحت کی:
“جعلی کمپنیاں (شیل کمپنیاں) سپلائی چین میں داخل ہونے کے لیے قائم کی گئیں۔ ہم نے ایک خیالی دنیا تخلیق کی۔ ہم ایک عالمی مینوفیکچرنگ کمپنی کے طور پر سامنے آئے۔ ہم نے اس پوری کہانی کا اسکرپٹ لکھی ہدایتکاری کی، پروڈیوسر اور مرکزی کردار بنے، اور دنیا ہمارے ڈرامے کی اسٹیج بنی۔”

سی آئی اے کا دوسرا اہلکار، جسے فرضی نام “گیبریل” کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، اس دہشت گردانہ کارروائی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے:
“اگرچہ دنیا میں پیجرز کا استعمال ختم ہو چکا ہے، لیکن حزب اللہ اب بھی ان کا استعمال کر رہی تھی۔”

رپورٹ کے مطابق، گیبریل نے 2022 میں اپنی ٹیم کے ساتھ اس دہشت گردانہ کارروائی کے دوسرے مرحلے کی تیاری اور منصوبہ بندی کا آغاز کیا۔ تحقیقات کے دوران، اس نے یہ معلوم کیا کہ حزب اللہ ایک تائیوانی کمپنی “گولڈ اپولو” سے پیجرز خرید رہی ہے۔
گیبریل نے وضاحت کی:
“پیجرز کو بم میں تبدیل کرنے کے لیے ہمیں انہیں تھوڑا بڑا کرنا پڑا تاکہ دھماکہ خیز مواد اس میں رکھا جا سکے، لیکن یہ زیادہ بڑا نہیں ہونا چاہیے تھا۔”

سی آئی اے کے اس دوسرے اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ان کا مقصد صرف حزب اللہ کو نقصان پہنچانا تھا، نہ کہ ان کے آس پاس موجود افراد کو۔ انہوں نے کہا:
“موساد نے پیجرز کو جانچنے کے لیے ڈمی اور دستانے استعمال کیے تاکہ دھماکہ خیز مواد کی مقدار کا تعین کیا جا سکے جو صرف حزب اللہ کے جنگجو کو نقصان پہنچائے اور اس کے ساتھ موجود دیگر افراد متاثر نہ ہوں۔”

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ اسرائیل کی کوشش تھی کہ جب پیجر کا بٹن دبایا جائے تو صرف حزب اللہ کا رکن زخمی ہو، یہاں تک کہ اگر اس کی بیوی یا بیٹی اس کے ساتھ ہو، تو وہ محفوظ رہیں۔

گیبریل نے کہا کہ اسرائیلی حکومت ہر چیز کو دو، تین یا اس سے زیادہ بار آزما کر یہ یقینی بناتی ہے کہ کم سے کم نقصان ہو۔ تاہم، ان کے اس دعوے کے برعکس، لبنان میں پیجرز اور دیگر مواصلاتی آلات کے دہشت گردانہ دھماکوں میں ہزاروں عام شہری زخمی ہوئے۔

گیبریل نے یہ بھی کہا کہ پیجرز کے ذریعے حزب اللہ کے اراکین کا سراغ لگانا ممکن نہیں تھا اور اسے “ایک انتہائی احمقانہ آلہ” قرار دیا۔ ان کے مطابق:
“یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ اس کا استعمال کرتی ہے۔ اس میں تقریباً کوئی ایسی خرابی نہیں تھی جسے نشانہ بنایا جا سکتا۔ یہ صرف پیغام وصول کرنے اور چند گرام دھماکہ خیز مواد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔”

انہوں نے مزید کہا:
“موساد نے پیجر کے رنگ ٹونز بھی آزما کر وہ آواز منتخب کی جو اتنی ضروری ہو کہ کسی کو مجبور کرے کہ وہ اسے اپنی جیب سے نکالے۔ اسی طرح، اس وقت کا بھی تعین کیا گیا جو کسی فرد کو پیجر کا جواب دینے میں لگتا ہے، جو اوسطاً سات سیکنڈ تھا۔”
گیبریل نے وضاحت کی کہ حزب اللہ کو ان بڑے سائز کے پیجرز خریدنے پر کیسے آمادہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا:
“مجھے وہ دن یاد ہے جب میں اپنے ڈائریکٹر کے پاس گیا اور پیجر کو میز پر رکھا۔ وہ بہت ناراض ہوا اور کہا، ’یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایسا بڑا آلہ خریدے۔ یہ جیب میں آسانی سے نہیں آ سکتا، بہت بھاری ہے… جاؤ اور مجھے کچھ اور لے کر آؤ۔‘ دو ہفتے لگے اسے قائل کرنے میں، حالانکہ یہ بدصورت تھا، لیکن اس کی اپنی خاص خصوصیات تھیں: مضبوط، دھول اور پانی سے محفوظ، اور بیٹری کی زیادہ عمر۔”

گیبریل نے موساد کی جانب سے ان پیجرز کی ترسیل کے لیے کی گئی سازش پر روشنی ڈالی:
“ہم نے اشتہاری کلپس اور بروشر تیار کیے اور انہیں انٹرنیٹ پر شائع کیا۔ ان پیجرز کو بیپر پیجرز کی دنیا کا بہترین پروڈکٹ قرار دیا گیا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ موساد ان پیجرز پر “گولڈ اپولو” کمپنی کا نام استعمال کرنا چاہتا تھا، اس مقصد کے لیے جعلی کمپنیاں قائم کی گئیں، بشمول ہنگری میں ایک کمپنی، تاکہ تائیوانی کمپنی کو شراکت داری کے لیے دھوکہ دیا جا سکے۔ گیبریل کے مطابق، “گولڈ اپولو کمپنی کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ موساد کے ساتھ کام کر رہی ہے، اور حزب اللہ بھی اس سازش سے بے خبر تھی۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ موساد نے سب کچھ پردے کے پیچھے سے کنٹرول کیا اور اس سازش کو آگے بڑھانے کے لیے “گولڈ اپولو” کی ایک خاتون سیلز ایجنٹ کو ملازمت دی، جو پہلے حزب اللہ کے ساتھ کام کر چکی تھی۔ اس نے پیجرز کا پہلا بیچ “بہتر کردہ پیجرز” کے طور پر حزب اللہ کو مفت فراہم کیا۔ ستمبر 2024 تک، حزب اللہ کے پاس 5,000 پیجرز موجود تھے۔

جب یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ ان سلیپر بمز کو کب فعال کیا جائے، اور حزب اللہ کی جانب سے ان آلات پر شکوک ظاہر کیے جانے لگے، تو موساد کے سربراہ، دیوڈ برنیا نے حملے کا حکم دیا۔ 17 ستمبر کو شام 3:30 بجے، پیجرز نے لبنان بھر میں بجنا شروع کیا اور دھماکوں سے پھٹ گئے۔
موساد کے ان سابق اہلکاروں کے دعووں کے برعکس کہ وہ عام شہریوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے، ان دھماکوں کے نتائج تباہ کن تھے۔ وہ لوگ جن کے پاس پیجرز تھے، سڑکوں پر، حتیٰ کہ موٹرسائیکلوں پر، دھماکوں کا نشانہ بنے۔ اسپتال زخمیوں سے بھر گئے، جنہوں نے اپنے اعضا کھو دیے، بعض نابینا ہو گئے، اور کئی کے جسم میں گہرے زخم اور سوراخ تھے۔

پیجرز کے دھماکوں کے ایک دن بعد، موساد نے واکی ٹاکیز کو فعال کیا۔ ان دھماکوں میں وہ لوگ نشانہ بنے جو پیجر کے شہداء کی یاد میں منعقدہ تقریبات میں شریک تھے۔ اس دوسرے دہشت گردانہ حملے میں کم از کم 30 افراد شہید ہوئے، جن میں دو بچے بھی شامل تھے، اور مزید 3,000 افراد زخمی ہوئے۔

موساد کے اس سابق اہلکار نے اسرائیلی حکومت کے اس آپریشن کے مقصد کے بارے میں کہا:
“ہدف حزب اللہ کے دہشت گردوں کو مارنا نہیں تھا۔ اگر وہ مر جاتے تو خیر، لیکن اگر زخمی ہوتے تو انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑتا اور ان کی دیکھ بھال کے لیے پیسہ، وقت اور محنت خرچ ہوتی۔ جن کے ہاتھ کٹ جاتے یا آنکھیں ضائع ہو جاتیں، وہ ایک ثبوت ہوتے اور انہیں یہ باور کرایا جاتا کہ ’ہمارے ساتھ مت الجھو۔‘ ان کا چلنا پھرنا ثابت کرتا کہ ہم پورے مشرق وسطیٰ میں برتری رکھتے ہیں۔”

گیبریل نے انٹرویو کے اختتام پر اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ آیا اسرائیل مکمل طور پر حزب اللہ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا، اعتراف کیا:
“میرے خیال میں یہ ایک بڑا سوال ہے، اور اس کا مصفانہ جواب یہ ہے کہ نہیں۔”

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس اقدام سے اسرائیلی حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی، انہوں نے کہا:
“یقیناً ایسا ہوا ہے، لیکن ترجیحات موجود ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو اپنے لوگوں کو مرنے سے بچانا ہوتا ہے، اور اس کے بعد ساکھ اہم ہے۔”

مایکل نے پیجرز کے دھماکوں کے ذریعے اسرائیلی حکومت کی جانب سے پیدا کی گئی نفسیاتی جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:
“پیجرز کے دھماکوں کے اگلے دن، لبنان میں لوگ اپنے ایئر کنڈیشنرز آن کرنے سے خوفزدہ تھے کیونکہ وہ فکر مند تھے کہ وہ دھماکے کر سکتے ہیں۔ اس لیے وہاں حقیقی خوف پیدا ہو چکا تھا۔”

انہوں نے اس نفسیاتی جنگ کے مقصد کے بارے میں کہا:
“ہم چاہتے تھے کہ وہ یہ محسوس کریں کہ وہ غیر محفوظ ہیں۔ ہم دوبارہ پیجرز کا استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ ہم پہلے ہی یہ کر چکے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی اگلا قدم اٹھا لیا ہے، اور اب انہیں اندازہ لگانا ہوگا کہ ہمارا بعد کا اگلا قدم کیا ہوگا۔”

https://farsnews.ir/sheidafarhadian/173494