فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے مطابق 1967 میں جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کے بعد، شام کی حکومت کے لیے اس علاقے کی آزادی اور اسرائیل سے مقابلہ بنیادی اہداف میں شامل تھا۔ لیکن “ہیئت تحریر الشام” کے اقتدار میں آنے کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ شام کے نئے حکمرانوں کا موقف ان مسائل پر بنیادی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور شورشیوں کے اقتدار میں آنے کے ساتھ، تل ابیب نے شام میں جاری انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک کے فوجی اور اقتصادی بنیادی ڈھانچوں پر وسیع حملے شروع کر دیے۔ اسرائیل نے درجنوں گولہ بارود کے گوداموں اور شام کی فوجی ساز و سامان کے ذخائر کو تباہ کر دیا۔
اسی دوران، اسرائیل نے شام کے فوجی مقامات پر ہوائی حملے کرکے اس کے فوجی اثاثے برباد کیے اور سینکڑوں اسرائیلی فوجیوں کو، جو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے پہلے جولان کی پہاڑیوں پر “سرحدوں کی حفاظت” کے دعوے کے تحت تعینات تھے، اچانک شام کی سرزمین میں داخل کر دیا۔
قطر کے نیوز چینل “الجزیرہ” نے اسرائیلی فوجیوں کے شام کی سرزمین میں داخل ہونے پر رپورٹ دی کہ اسرائیلی فوجیوں نے “الحمیدیہ”، “الرواضی”، “القحطانیہ”، “رویحینا”، “بئر عجم”، اور “بئر الرفید” کے علاقوں میں داخل ہو کر شام، مقبوضہ فلسطین، اور اردن کے سرحدی مثلث تک رسائی حاصل کر لی ہے۔
الجزیرہ نے مزید رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فوج نے شام کے مختلف علاقوں، جن میں الحسکہ، دیرالزور، الرقه، حلب، ادلب، لاذقیہ، حماہ، طرطوس، حمص، اور خاص طور پر دمشق شامل ہیں، میں شام کی فوج کے اسلحہ کے ذخائر پر فضائی حملے کیے ہیں۔
ان حملوں کے کچھ ہی دنوں کے بعد، اسرائیلی پارلیمنٹ کی سابقہ سیکیورٹی اور خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ “زوی ہاؤزر” نے کہا: “یہ ایسا موقع ہے جو ہر 100 سال میں ایک بار آتا ہے۔”
یہ توقع کی جا رہی تھی کہ “تحریر الشام” کم از کم اسرائیلی حملوں کے خلاف فوری طور پر ایک بیان جاری کرے گی، لیکن اسرائیلی فوج کی پیش قدمی اور شام کی متعدد فوجی تنصیبات کی تباہی کے کئی گھنٹوں بعد بھی شورشیوں کے رہنما کے تاخیر سے دیے گئے بیانات نے کئی سوالات کو جنم دیا۔
یہ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ “اسکائی نیوز” نے اپنی ایک رپورٹ میں، جس کا عنوان تھا: “اسرائیل شام میں پیش قدمی کر رہا ہے… تحریر الشام کی خاموشی کی وجہ کیا ہے؟”، اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جو بہت سے لوگوں کے ذہنوں کو الجھا رہا ہے۔
شورشیوں کی خاموشی کے جاری رہنے اور اسرائیل کے شام میں 250 سے زائد مقامات پر حملوں کے بعد، “اسکائی نیوز” نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے “ابو محمد الجولانی”، شورشیوں کے رہنما، سے رابطہ کیا۔ تاہم، انہیں اس جواب کا سامنا کرنا پڑا:
“عوام جنگ سے تھک چکے ہیں، لہٰذا ملک کسی نئی جنگ کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی کسی نئی جنگ میں داخل ہوگا۔”
اس انٹرویو کے ایک اور حصے میں الجولانی نے کہا:
“مغربی ممالک کی ہماری بابت تشویش بے بنیاد ہے… ہماری اصل تشویش ایرانی ملیشیا، حزب اللہ اور شامی حکومت تھی، جنہوں نے مظالم کیے ہیں۔”
اقتدار میں آنے کے بعد الجولانی نے ایک مختلف انداز اپنایا۔ وہ فوجی لباس کے بغیر اور اپنے نئے اصلی نام “احمد الشرع” کے ساتھ میڈیا کے سامنے حاضر ہوا۔ اس نے برطانوی اخبار “ٹائمز” کو دیے گئے انٹرویو میں کھل کر اسرائیل کا ذکر کیا اور کہا:
“ہم اسرائیل یا کسی اور کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے اور یہ بھی قبول نہیں کریں گے کہ شام کو کسی پر حملے کے لیے استعمال کیا جائے۔ حملے بند ہونے چاہییں اور اسرائیل کو اپنی افواج کو ان کے پرانے مقامات پر واپس لے جانا چاہیے۔”
الجولانی کے ان یقین دہانیوں والے بیانات کے فوراً بعد، مغربی وفود توقعات سے بھی جلد دمشق پہنچنا شروع ہوگئے اور الجولانی کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اقوام متحدہ اس عمل میں پیش پیش تھے اور انہوں نے اپنے سرکاری وفود دمشق بھیجے۔
امریکہ، جس نے پہلے ابو محمد الجولانی کی گرفتاری کے لیے 10 ملین ڈالر انعام مقرر کیا تھا، نے گزشتہ جمعہ کو اپنے وفد کو کچھ تاخیر سے دمشق بھیجا۔ شامی مقامی ذرائع نے بتایا کہ امریکی وفد نے اس ہوٹل میں جاکر شورشی رہنما الجولانی سے ملاقات کی، جہاں وہ قیام پذیر تھے۔
شامی اخبار “الوطن” نے کچھ گھنٹوں بعد اطلاع دی کہ فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت کا موضوع “ہیئت تحریر الشام” کو امریکی دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے اور شام پر عائد پابندیاں، بشمول “سیزر” پابندیوں کا خاتمہ تھا۔
اگرچہ ملاقات کی کوئی سرکاری تصویر شائع نہیں کی گئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ امریکہ ان ملاقاتوں کو علنی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، لیکن دمشق کے “فور سیزنز” ہوٹل کے احاطے میں موجود فوٹوگرافروں نے امریکی سفارت کاروں کی گاڑی کو الجولانی کی رہائش گاہ سے نکلتے ہوئے تصویروں میں قید کیا۔
امریکی معاون وزیر خارجہ برائے مشرق وسطیٰ، باربرا لیف، جو امریکی وفد کی سربراہی کر رہی تھیں، نے جلد ہی صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت میں خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے الجولانی کو آگاہ کر دیا ہے کہ اس کی گرفتاری کے لیے مقرر کردہ انعام نافذ نہیں کیا جائے گا۔
جب ابو محمد الجولانی امریکی مہمانوں کی میزبانی میں مصروف تھے، شام کے جنوب میں، “المیادین” نے شامی مقامی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی کہ اسرائیلی فوج نے شام میں تقریباً 500 مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور اس علاقے میں ایک جنگی سڑک تعمیر کر رہی ہے، جس نے شامی عوام کو خوفزدہ کر دیا ہے۔
اس رپورٹ کے کچھ ہی دیر بعد، “درعا 24” نے خبر دی کہ شامی عوام نے اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ لیکن یہ مظاہرے زیادہ دیر نہ چل سکے، کیونکہ اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر گولیاں چلا کر اور انہیں زخمی کر کے مظاہروں کو دبا دیا۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں