ترکی، تحریر الشام اور صہیونی ریاست: مشترکہ مفادات کا ایک مثلث

بشار الاسد کی حکومت کو ترکی کے شام میں عملی بازو کے ذریعے گرانا اور تل ابیب کا سرعام اس بات کا اعتراف کہ وہ اسد کی حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کر رہا ہے، صہیونی ریاست، اور شامی باغیوں کے درمیان خفیہ تعاون کا ثبوت دیتا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بشار الاسد کی حکومت کو ترکی کے شام میں عملی بازو کے ذریعے گرانا اور تل ابیب کا سرعام اس بات کا اعتراف کہ وہ اسد کی حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کر رہا ہے، صہیونی ریاست، اور شامی باغیوں کے درمیان خفیہ تعاون کا ثبوت دیتا ہے۔

بین الاقوامی شعبہ، فارس نیوز ایجنسی؛ ترکی نے گزشتہ چند سالوں میں ہمیشہ “ہیئت تحریر الشام” گروپ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھے ہیں، اور شاید کہا جا سکتا ہے کہ یہ گروپ پچھلے سالوں میں شمالی شام میں ترکی کی کئی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک عملی بازو کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔

ترکی اور تحریر الشام

کہا جا سکتا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان پہلا کھلا تعاون اس وقت شروع ہوا جب تحریر الشام نے قبول کیا کہ وہ شمالی شام میں ترکی کے چیک پوسٹوں کی حفاظت کرے گا اور اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ترکی کی گشتی گاڑیوں کو گشت کرنے کی اجازت دے گا۔
یہ تعاون آہستہ آہستہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ تحریر الشام نے شمالی شام میں ترکی کی لاجسٹک اور فوجی کارروائیوں کو آسان بنایا۔ لیکن صورتحال یہیں تک محدود نہ رہی، اور مشترکہ مفادات کی وجہ سے دونوں کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تحریر الشام کو علاقے میں اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی حمایت کی ضرورت تھی تاکہ دیگر ممالک کی دہشت گردی کی فہرست میں شامل نہ ہو۔
دوسری طرف، ترکی کو شام میں ایک ایسے عسکری ڈھانچے کی شدید ضرورت تھی جو کسی اور طاقت کے زیرِ فرمان نہ ہو اور جس کے ذریعے وہ شام کی سرزمین میں داخل ہوئے بغیر شمالی شام کے علاقوں کا کنٹرول سنبھال سکے۔ تحریر الشام، ترکی سے حاصل ہونے والے فوائد کی بدولت، دیگر مخالف گروہوں کو ترکی کے ساتھ اجازت کے بغیر رابطہ کرنے کی رخصت نہیں دیتی تھی۔ حتیٰ کہ دہشت گرد گروہ “فیلق الشام”، جو ترکی کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتا تھا، تحریر الشام کی اجازت کے بغیر ترکی سے رابطہ قائم نہیں کر سکتا تھا۔

تحریر الشام ہمیشہ دیگر مخالف گروہوں کے ساتھ تصادم میں رہا۔ یہ تصادم اس وقت عروج پر تھا جب تحریر الشام اور ترکی کے حامی دیگر مخالف گروہوں، جیسے “احرار الشام”، کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں۔ اسی دوران انقرہ نے ان گروہوں کی تنظیمی کمزوری اور اتحاد کی کمی کو بخوبی محسوس کیا۔
یہ عوامل ترکی کو اس نتیجے پر لے آئے کہ دیگر مخالف گروہ شام کی سرزمین پر انقرہ کے لیے ایک مناسب اور مؤثر آپشن نہیں بن سکتے۔ ان گروہوں کی اپنے عناصر کو قابو میں رکھنے میں ناکامی نے ترکی کو ان کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔ انقرہ تحریر الشام کو ایک مؤثر گروہ سمجھتا تھا اور اسے اس بات کا اطمینان تھا کہ یہ گروہ ان ممالک کے ساتھ رابطے میں نہیں جو انقرہ کے مفادات کے خلاف سیاست کرتے ہیں۔ اسی لیے ترکی نے تحریر الشام کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔

ترکی ایک طرف تحریر الشام کو بشار الاسد کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے آلے کے طور پر استعمال کر رہا تھا اور دوسری طرف اس گروہ کو اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی بروئے کار لاتا تھا۔ گزشتہ چند سالوں میں تحریر الشام ترکی کی سرحدوں کے کنٹرول کا ذمہ دار رہا ہے۔ اس گروہ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی ترکی کی سرزمین میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔

ترکی کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں تحریر الشام کا کردار اس قدر بڑھ گیا کہ یہ گروہ یہاں تک کہ ترکی کی سیکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو مطلوب افراد کو گرفتار کرکے انقرہ کے حوالے کر دیتا تھا۔
یقیناً، ترکی کے ساتھ اتحاد تحریر الشام کے لیے بھی فائدہ مند تھا، کیونکہ اس گروہ نے ترکی کے ذریعے کسی حد تک اپنی مشروعیت حاصل کی۔ ساتھ ہی، ترکی کے عملی بازو کے طور پر کام کرتے ہوئے تحریر الشام کو سیکیورٹی اور اسلحہ کی مدد بھی ملتی رہی۔

ترکی کے ساتھ تعلقات کے ان سالوں میں تحریر الشام نے اپنی بہت سی پالیسیوں کو انقرہ کی درخواست پر تبدیل کیا۔ ترکی کے ساتھ غیر رسمی اتحاد نے تحریر الشام کو یہ موقع بھی دیا کہ وہ کم خرچ پر دیگر مخالف گروہوں پر غلبہ حاصل کر سکے۔
ابو محمد الجولانی، جو ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ہیں، نے انقرہ کی اسلحہ اور انٹیلیجنس مدد کے ذریعے دمشق میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ترکی کو بالواسطہ طور پر اپنے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر ذکر کیا۔

انہوں نے ترکی کے وزیر خارجہ، ہاکان فیدان، کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا: “ترکی ہمیشہ شامی عوام کا حامی رہا ہے اور ان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ ان شاء اللہ، ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات قائم کریں گے۔”

ترکی اور اسرائیل

حلب کے صوبے میں تحریر الشام کے حملوں کے آغاز کے بعد، بہت سے افراد ان کارروائیوں کو اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے بیانات سے غیر متعلق نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان حملوں کے آغاز سے صرف 24 گھنٹے پہلے، نیتن یاہو نے کہا تھا کہ بشار الاسد “آگ سے کھیل رہے ہیں اور ایران اور حزب اللہ کے ساتھ اپنے اتحاد کی قیمت انہیں چکانی ہوگی۔”

شام میں اسرائیل کی مداخلت کا امکان بالآخر پیر کی رات تل ابیب کے سرکاری اعتراف کے ساتھ یقینی ہوگیا۔ اسرائیلی وزیرِ دفاع، یسرائیل کاٹز، نے پیر کی رات ایک بیان میں، جس میں انقرہ، تل ابیب اور تحریر الشام کے درمیان تعاون کا عندیہ دیا گیا، کہا: “ہم نے اسد کی حکومت کو گرایا ہے۔”
اب، دمشق میں باغیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد، ترکی اور اسرائیل شام سے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خبررساں ادارے بلومبرگ نے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں شام کی موجودہ صورتحال کو یوں بیان کیا کہ شام کی سرحدیں جنوب مغرب میں اسرائیل اور شمال میں ترکی کے ہاتھوں ختم ہو رہی ہیں۔
بلومبرگ کی رپورٹ، جس کا عنوان “اسرائیل اور ترکی اپنی سرحدوں سے ایک نئی شام بنا رہے ہیں” ہے، کہتی ہے کہ اسد کی حکومت کے زوال کے بعد، اسرائیلی فوج نے شام کی سرزمین میں پیش قدمی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
ترکی اور اسرائیل نے گزشتہ برسوں میں خاص طور پر تجارت کے شعبے میں ہمیشہ اچھے تعلقات رکھے ہیں، اگرچہ انقرہ نے، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی نسل کشی پر عالمی غم و غصے کے بعد، تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نازک توازن پر رکھنے کی کوشش کی ہے۔

تقریباً 8 ماہ پہلے، ترک میڈیا نے خبر دی کہ ترکی نے اسرائیلی مظالم کے جواب میں اپنے تجارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں۔ ترک ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ تعلقات اس وقت تک معطل رہیں گے جب تک اسرائیل غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔
اس فیصلے پر شک و شبہات کے پیش نظر، ترک صدر رجب طیب اردوغان کو خود ایک تقریر میں اس مسئلے پر بات کرنا پڑی۔ اردوغان نے کہا کہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کر دیے ہیں اور وہ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
لیکن اردوگان کی اس تقریر کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ “مڈل ایسٹ آئی” ویب سائٹ نے انکشاف کیا کہ ترکی اور صہیونی ریاست کے درمیان تجارت تیسرے ممالک، جیسے یونان، کے ذریعے جاری ہے۔
مڈل ایسٹ آئی نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کے مرکزی شماریاتی ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیل نے مئی 2024 میں ترکی سے 116 ملین ڈالر مالیت کا سامان درآمد کیا ہے۔
یہ خبر دو تاجروں نے فاش کی، جو ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارت کو آسان بنا رہے تھے۔ ان میں سے ایک تاجر نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا: “اسرائیلی حکام ترک کمپنیوں سے یہ بھی نہیں کہتے کہ وہ یونان کے ذریعے دوبارہ برآمد کیے جانے والے سامان کی اصل جگہ کو تبدیل کریں، کیونکہ اس سے اخراجات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔”
یہ خفیہ تجارت اس وقت ہو رہی تھی جب اردوغان اپنی جوشیلی تقاریر میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو پر حملے کر رہے تھے۔ ترک صدر نے اپنی متعدد تقاریر میں نیتن یاہو کا موازنہ “ہٹلر” سے کیا اور انہیں کئی بار “غزہ کا قصاب” بھی قرار دیا۔
گزشتہ ایک سال کے دوران، اگرچہ اردوغان نے نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن عام طور پر ایسے اقدامات کرنے سے گریز کیا جو دوطرفہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔
https://farsnews.ir/vadoudi/1735135357567875811/%