فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اس وقت جبکہ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم، بشمول فلسطینیوں کی نسل کشی، جاری ہیں، اسرائیلی میڈیا نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاملے میں نئی پیش رفتوں کی خبر دی ہے۔
فارس پلس گروپ: عبرانی زبان کے اخبار “ہارٹز” نے اپنی رپورٹ میں ان خفیہ مذاکرات کا انکشاف کیا ہے جو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے جاری ہیں۔ اس اخبار نے ان مذاکرات کی حالیہ ہفتوں میں پیش رفت کی نئی تفصیلات پیش کی ہیں اور واضح کیا ہے کہ ان ملاقاتوں میں تعلقات کو معمول پر لانے کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کا مسئلہ بھی شامل ہے۔
ہارٹز نے بتایا کہ سعودی اور اسرائیلی فریقوں کے درمیان مذاکرات کا عمل، اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی کے بعد تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ اخبار نے دعویٰ کیا: “صہیونی ریاست اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل ایک قدم مزید آگے بڑھا ہے اور یہ غزہ میں جنگ بندی کا انتظار کر رہا ہے، کیونکہ یہ غزہ کی جنگ کے خاتمے کے معاہدے کی ایک شق ہے۔”
مبہم وعدہ
ہارٹز نے اپنی رپورٹ میں سعودی-اسرائیلی مذاکرات کے دوران معاہدے میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے۔ اخبار نے مذاکرات سے واقف ذرائع کے حوالے سے کہا: “اسرائیل کو براہ راست فلسطینی ریاست کے قیام کا پابند کرنے کے بجائے، اب یہ صرف فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت قدم بڑھانے کا وعدہ کرے گا۔”
عبرانی اخبار نے اس وعدے کو “ایک مبہم اور غیر واضح عہد” قرار دیتے ہوئے مزید کہا: “سعودی عرب اس وعدے کو اپنی سابقہ عہد کی پاسداری کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے تاکہ دکھایا جا سکے کہ وہ فلسطینی عوام اور مسئلہ فلسطین سے دستبردار نہیں ہوا۔”
ہارٹز کے مطابق، “ران ڈرمر”، جو اسرائیل کے وزیر برائے اسٹریٹجک امور اور نیتن یاہو کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں، ان مذاکرات میں اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے بطور سینئر مذاکرات کار موجود ہیں اور مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، امریکہ بھی مذاکرات میں ثالث اور ضامن کے طور پر شریک ہے، اور اسرائیل مذاکرات کے عمل کو جو بائیڈن کی موجودہ حکومت اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ آئندہ حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ امریکی حکومت سعودی عرب کو معاہدے پر دستخط کے بدلے میں مراعات فراہم کرے گی، جن میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدہ، اور سعودی عرب کو جدید امریکی ہتھیاروں اور دفاعی نظاموں کی فروخت شامل ہیں۔
“ہارٹز” کے مطابق، “اگرچہ سعودی عرب طویل عرصے سے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی شرط پر تعلقات معمول پر لانے پر زور دے رہا ہے، اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے ستمبر 2024 میں عرب ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تھا تاکہ اس مطالبے پر مزید زور دیا جا سکے، لیکن نتنیاہو کے قریبی ذرائع کا ماننا ہے کہ محمد بن سلمان، سعودی ولی عہد اور موجودہ حکمران، اس مطالبے پر زیادہ اصرار نہیں کر رہے۔”
رپورٹ مزید کہتی ہے کہ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل سے صرف فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت ایک قدم اٹھانے کے مبہم عہد پر اکتفا کیا ہے، اور اسرائیل سے کسی ٹھوس وعدے کی توقع نہیں کی جا رہی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل سے فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت ایک مبہم عہد پر اکتفا کیا ہے، بغیر اس کے کہ اسرائیل سے کسی ٹھوس وعدے کی توقع کی جائے۔
دو مرحلوں پر مشتمل معاہدہ
“ہارٹز” کے مطابق، تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے سے گہرا تعلق رکھتا ہے، اور اس میں کہا گیا ہے: “تعلقات کو معمول پر لانا اس شرط پر منحصر ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کو حماس کی قید سے آزاد کرایا جائے اور فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب غزہ کی تعمیر نو میں بھی شریک ہونے کا خواہاں ہے، چاہے جنگ کا خاتمہ ہو یا نہ ہو۔”
سعودی عرب خود کو غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کی مدد کا پابند سمجھتا ہے، جو تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، جبکہ اسرائیل کے مفادات بھی یہی تقاضا کرتے ہیں کہ اعتدال پسند عرب ممالک، جیسے سعودی عرب، غزہ کی تعمیر نو میں حصہ لیں اور اپنے تیل کی دولت سے غزہ کی مالی معاونت کریں۔
“ہارٹز” نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ دو مراحل پر مشتمل ہوگا۔ پہلے مرحلے میں، خواتین، بیمار اور 50 سال سے زائد عمر کے اسرائیلی قیدیوں کو متعدد فلسطینی قیدیوں کے بدلے آزاد کیا جائے گا، جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہیں سنگین سزائیں دی گئی ہیں۔
اس مرحلے میں غزہ کی پٹی میں غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی نافذ کی جائے گی، اور اسرائیل مختلف علاقوں سے مرحلہ وار پیچھے ہٹے گا، تاہم انخلاء کی تفصیلات اور وقت کا تعین ابھی تک واضح نہیں ہے۔ معاہدے کا دوسرا مرحلہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط پر مشتمل ہوگا۔
غزہ کی تعمیر نو اور اسرائیل کی سرحدی سلامتی کی ضمانت
“ہارٹز” کے مطابق، اس وقت سعودی عرب ان ممالک کے اتحاد کی قیادت کر رہا ہے جو غزہ کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی غزہ کی پٹی کے ساتھ جنوبی سرحدوں پر سلامتی کو یقینی بنائیں گے۔ یہ اتحاد فلسطینی اتھارٹی کو بھی شامل کرتا ہے۔
اسرائیل میں اندرونی مخالفتیں
“ہارٹز” کے مطابق، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی مجوزہ فریم ورک کو اسرائیل کے حکمران اتحاد کے اندر مخالفت کا سامنا ہے۔ کچھ افراد غزہ کی تعمیر نو کے اتحاد میں فلسطینی اتھارٹی کی شمولیت کے خلاف ہیں، جبکہ دیگر، خاص طور پر مذہبی جماعتیں، فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر سخت اعتراض کر رہی ہیں۔ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت “اوتزما یہودیت” نے بھی پورے معاہدے کی مخالفت کی ہے اور ان مذاکرات کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔
دوسری جانب، نتن یاہو نے سعودی عرب کو فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کسی بھی قسم کے اسرائیلی وعدے کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ نتن یاہو کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کے کسی بھی اقدام کی مخالفت ہوگی، کیونکہ صہیونی وزیر اعظم کی نظر میں یہ صہیونی ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے ۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں