فاران تجزیاتی ویب سائٹ:
1- کہا جاتا ہے کہ مقبول کارٹون کردار “مکی ماؤس”، جو ایک دیکھنے میں اچھا و خوبرو چوہا ہے، یہودیوں نے “ڈزنی” میں اس لیے بنایا تاکہ “گندے چوہے” (Dirty Mouse) کا وہ لقب، جو صدیوں سے صہیونیوں کی توہین کے لیے استعمال ہوتا تھا، لوگوں کے ذہنوں سے دھیرے دھیرے مٹا دیا جائے۔ ان دنوں جب بھی کوئی “گندا چوہا” کہتا تھا، سب سمجھ جاتے تھے کہ اس کا مطلب صہیونی ہے۔ “والٹر ایلیاس ڈزنی” نے اپنے بھائی “رائے اولیور ڈزنی” کے ساتھ مل کر ڈزنی برادرز اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، اور مکی ماؤس اس کمپنی کا پہلا کارٹون کردار تھا! یہ میڈیا سے متعلق ثقافتی کمپنی موجودہ غزہ جنگ میں صہیونی ریاست کو لاکھوں ڈالر کی امداد فراہم کر چکی ہے۔
2-طوفان الاقصی سے یعنی
465 دن پہلے، یعنی 7 اکتوبر 2023 مغربی ایشیا ایک پیچیدہ فوجی آپریشن کے بعد، جسے غزہ میں محاصرے میں پھنسے نوجوانوں نے انجام دیا، “بہت خاص” حالات میں داخل ہو گیا۔ اس آپریشن نے صہیونیوں کی کمر توڑ دی اور اس کے بعد سے مغربی ایشیا کی صورتحال کبھی اتنی “حساس”، “فیصلہ کن” اور “تقدیر ساز” نہیں رہی۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک یا دو سال کے اندر اندر صورتحال موجودہ جیسی نہیں رہے گی اور بہت سے مسائل کا حل شاید ہمیشہ کے لیے نکل آئے گا۔ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ شام، غزہ، لبنان، یمن اور مقبوضہ علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ “بڑی تبدیلیوں” کی خبر دیتا ہے، اور علامات و نشانات بھی یہی کہتے ہیں کہ خطہ بڑی تبدیلیوں کے دہانے پر ہے۔
3- ایسے حالات اور فضا میں، جہاں سخت طاقت اور جنگی امور پر توجہ دینا ضروری ہے، وہیں “نرم طاقت” اور عمومی طور پر مزاحمت سے متعلق “نرم امور” کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ کبھی کبھی میڈیا اور ثقافت کو فروغ دینا (چاہے وہ تشہیر، ٹی وی، سیٹلائٹ، سینما، آرٹ، یا موسیقی ہو) جوہری بم سے کہیں زیادہ اثر رکھتا ہے، بے جا نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں میڈیا صرف ایک اطلاع دینے کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ “ہربرٹ مارکوزے” جو فرینکفرٹ اسکول کے معروف دانشور تھے، نے کہا: “میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عوامی خیالات کو کنٹرول کرنے، طاقت کے نظام کو مستحکم کرنے، اور منظم کرنےکے لیے استعمال ہوتا ہے۔” مارکوزے کے ذریعہ میڈیا اور اس ٹیکنالوجی کے اثرات پر کیے گئے مطالعے کا تعلق اُس دور سے ہے جب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا! اس کا زیادہ تر دھیان موسیقی، ٹی وی، سینما، اخبارات، اشتہارات اور اسی طرح کے دوسرے میڈیا پر تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ میڈیا کے ذریعے کسی قوم کی مزاحمت کو روکا جا سکتا ہے، اور جھوٹی تسلیوں کے ذریعے ظلم و تشدد کے خلاف ہر احتجاج کو دبایا جا سکتا ہے، یا میڈیا کے ذریعے لوگوں کو ایسے بہکایا جا سکتا ہے کہ وہ سمجھیں کہ یہ خود ان کی سوچ ہے، ان کے خیالات 1979 سے پہلے کے تھے۔ آج، جدید میڈیا ٹیکنالوجیز کے ساتھ، ہم اس کی اہمیت اور اثرات پر مزید گہرائی سے سوچ سکتے ہیں، خاص طور پر مغربی ایشیا کی تبدیلیوں پر اس کے اثرات کو زیادہ سنجیدگی سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ اسرائیلی ریاست کی غزہ میں وسیع پیمانے پر شہریوں کے قتل عام کرنے کی ایک بڑی وجہ ان کی “میڈیا” پر امید ہے۔ اسرائیل نے اپنی حساب کتاب میں یہ بات رکھی ہوگی کہ بحران کے بعد، میڈیا ٹیکنالوجی (ہالی وڈ، ڈزنی، بی بی سی وغیرہ) کی مدد سے عوامی رائے کو اپنی مرضی کی سمت میں موڑا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مقصد اسرائیلی ریاست کے لیے وقت طلب ہو، لیکن اگر مزاحمتی محاذ اس شعبے میں حرکت نہیں کرتا تو وہ یہ جنگ ہار جائے گا۔
4- ترکی ان ممالک میں شامل ہے جو ان تبدیلیوں میں خفیہ طور پر فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ اس “پڑوسی ملک” کے رہنما، جو سلطنت عثمانیہ کو بحال کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، دہشت گردی جیسے ہتھکنڈوں اور جھوٹے شعلہ بیان تقاریر کے ساتھ ساتھ، خطے میں میڈیا اور ثقافتی اثر و رسوخ سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دمشق کے سقوط کے دنوں میں ترکی نے میڈیا کے پلیٹ فارم سے اسرائیلی ریاست کے خلاف بدترین موقف اپنایا، جبکہ پردے کے پیچھے، سی آئی اے اور موساد کے ساتھ مل کر شام میں دہشت گردوں کے داخلے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا! دمشق کے سقوط کے ایام میں بھی، اس ملک نے اچانک اعلان کیا کہ وہ پہلی بار فارسی زبان کا ایک میڈیا چینل لانچ کر رہا ہے! کل بھی، اس ملک کے میڈیا نے اردوغان کے حوالے سے جھوٹ بولتے ہوئے اعلان کیا کہ ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کر دیے ہیں! ذرا سوچئے کہ ترکی کے ٹیلی ویژن کی ثقافتی اور سماجی پیداوار، جو خطے میں نشر کی جاتی ہے، کس حد تک اثر ڈال رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا ان طاقتور اوزاروں میں سے ایک ہے جسے ترکی نے ثقافتی نفوذ اور حتیٰ کہ ملکوں کی فتح کے لیے استعمال کیا ہے۔ غزہ میں بھی اگر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ نہتے عوام کا سب سے مؤثر ہتھیار بلا شبہ “میڈیا” ہے۔ حقیقت میں، میڈیا ہی اس باریک پٹی کے رہائشیوں کا واحد ہتھیار ہے، اور اگر آپ دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست عوامی رائے میں مکمل طور پر ہار گئی ہے، تو یہ فلسطینیوں کے ہاتھوں میں موجود اسی تیز ہتھیار کی وجہ سے ہے۔
5- خلاصہ یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ نہ صرف علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں لائے گی بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ “نرم طاقت” اور “میڈیا” ان تبدیلیوں میں کتنا اہم اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ میڈیا اور ثقافت بنیادی اوزار بن چکے ہیں جو عوامی رائے کو کسی فریق کے حق یا مخالفت میں موڑ سکتے ہیں۔ اس دوران، اسرائیلی ریاست نے دنیا میں اپنی مخالفت کو کم کرنے اور بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے میڈیا پر خاص انحصار کیا ہے۔ مزاحمتی محاذ، خاص طور پر فلسطینیوں نے بھی انہی ذرائع کو اپنے حق میں رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ترکی نے بھی اس عمل میں خفیہ اور فعال کردار ادا کیا ہے اور میڈیا کو اپنے ثقافتی نفوذ اور علاقائی حکمت عملیوں حتیٰ کہ توسیع پسندی کے لیے استعمال کیا ہے۔ بلا شبہ، میڈیا ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے مغربی ایشیا کی تبدیلیوں پر اثرات کو دیکھتے ہوئے، خطے کا مستقبل بڑی حد تک اس بات پر منحصر ہوگا کہ ان اوزاروں کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ آخر میں، آئندہ جنگیں نہ صرف میدان جنگ میں، بلکہ میڈیا اور ثقافت کے محاذ پر بھی لڑی جائیں گی۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو ملک اس میدان میں خصوصی سرمایہ کاری نہیں کرے گا، وہ پیچھے رہ جائے گا، کیونکہ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: “آج ایٹم بم ایک علاقے کو جسمانی طور پر تباہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، لیکن میڈیا کے پاس اقوام کی سوچ اور روح کو تباہ کرنے اور ایک خاص ذہنیت پیدا کرنے کی طاقت ہے، اور یہ اثرات بہت بڑے ہو سکتے ہیں۔ میڈیا ایٹم بم کا متبادل بن سکتا ہے؛ خاص طور پر جب یہ میڈیا دشمن کے ہاتھ میں ہو۔”
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں