حریدی یہودیوں کی صہیونی پولیس سے جھڑپ

حریدی یہودیوں نے تل ابیب کے مشرق میں ہائی وے 4 کو "زبردستی بھرتی" کی مخالفت میں بند کر دیا۔

فاران: فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، حریدی یہودی برادری اور اسرائیلی فوج اور پولیس کے درمیان “جبری قانون” پر کشیدگی اور تنازع جاری ہے۔ جب کہ قابض فوج مردوں کی کمی کی وجہ سے حریدی یہودی مردوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ وہ اپنے لیے بھرتی کو “تورات کے احکام” کے خلاف سمجھتے ہیں۔
اس حوالے سے درجنوں حریدی یہودیوں نے ایک بار پھر احتجاج کرتے ہوئے تل ابیب کے مشرق میں ہائی وے 4 کو بلاک کر دیا ہے جو کہ مقبوضہ فلسطین کی اہم شاہراہ سمجھی جاتی ہے۔
سڑک پر بیٹھے حریدیوں اور پولیس دستوں کے درمیان کشیدگی اور تصادم کے مناظر میڈیا میں شائع ہوئے ہیں۔
دریں اثنا، اسرائیل کے چینل 12 نے اطلاع دی ہے کہ بھرتی کے قانون پر فریقین کے درمیان اب بھی بنیادی اختلافات موجود ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ لازمی فوجی خدمات کے نئے قانون کی تکمیل کے بعد پہلی بار ہزاروں حریدی یہودیوں کو فوج میں بھرتی کیا جائے گا۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ نے گزشتہ جون میں فیصلہ دیا تھا کہ حریدی یہودیوں کو فوجی خدمات سے استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے دینی مدارس کے لیے فنڈنگ روکنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ حریدی یہودیوں کو فوج میں بھرتی ہونے یا اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے سے روکنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔
گزشتہ سال نومبر کے آخر میں اسرائیل کاٹز نے 7000 حریدی یہودیوں کو فوج میں بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی۔
گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل کے چینل 12 نے انکشاف کیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کی وجہ سے اسرائیلی فوج تقریباً 7000 فوجیوں اور امدادی اہلکاروں کی شدید کمی کا شکار ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حریدی یہودیوں کو بھرتی کرے۔
حریدی کہتے ہیں کہ ان کا واحد فرض “دعا” کرنا ہے اور یہ بھرتی انہیں اپنے فرض سے ہٹاتی ہے۔
اس سلسلے میں، عبرانی اخبار اسرائیل ہئیوم نے رپورٹ کیا کہ حریدی نوجوانوں کو جاری کیے گئے 10,000 سمن میں سے، صرف 400 افراد ڈرافٹ سینٹر میں حاضر ہوئے، اور ان میں سے صرف 70 افراد دراصل فوج میں خدمات انجام کے لیے گئے۔