اسرائیل کو القسام کا زبردست جھٹکا/ صیہونی قیدیوں کی حوالگی کے دوران اسمارٹ ایکشن

غزہ میں نیتن یاہو کے اہداف کی ناکامی اور القسام کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل اور پوری دنیا کو پہنچنے والے بڑے صدمے کا ذکر کرتے ہوئے عطوان نے کہا کہ جن لوگوں نے نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا وہ مزاحمت کے بہادر جنگجو تھے جنہوں نے اسرائیلی فوج کو بے بس کر دیا، ٹرمپ نے نہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: غزہ میں نیتن یاہو کے اہداف کی ناکامی اور القسام کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل اور پوری دنیا کو پہنچنے والے بڑے صدمے کا ذکر کرتے ہوئے عطوان نے کہا کہ جن لوگوں نے نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا وہ مزاحمت کے بہادر جنگجو تھے جنہوں نے اسرائیلی فوج کو بے بس کر دیا، ٹرمپ نے نہیں۔
غیر علاقائی اخبار رائے الیوم کے مدیر اور معروف فلسطینی تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے آج ایک اداریہ میں غزہ میں جنگ بندی اور مزاحمتی قوتوں کی طاقت کے مظاہرے سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا: “القسام بریگیڈ (حماس تحریک کا فوجی ونگ) کے جنگجو نہ صرف جنگ جیتنے میں کامیاب ہوئے بلکہ صیہونیوں کے حوصلوں کو شکست دینے میں بھی کامیابی حاصل کی، جہاں ان سیکڑوں جنگجوؤں نے غزہ میں فوجی پریڈ کر کے نہ صرف صہیونی ریاست کو بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

عبدالباری عطوان نے مزید کہا: “القسام کے جنگجو انتہائی خوبصورت سبز کپڑوں اور اپنے ذاتی ہتھیاروں کے ساتھ سرنگوں سے باہر آئے، اور انہوں نے اس عظیم عالمی تقریب کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے استعمال کیا، ایک ایسے وقت میں جب بینجمن نیتن یاہو نے مسلسل دعوی کیا کہ القسام بریگیڈ 15 ماہ کی جنگ کے دوران کمزور بلکہ ختم ہو چکی ہے۔

اسرائیلی قیدیوں کی حوالگی کے دوران مزاحمتی جنگجوؤں کی ہوشیار کارروائی

فلسطینی تجزیہ کار نے وضاحت کی: “یہاں ہمیں ان تین اسرائیلی خواتین قیدیوں کے مسکراتے ہوئے چہروں کا ذکر کرنا ہوگا جنہیں جنگ بندی معاہدے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے میں رہا کیا گیا تھا۔ یہ قیدی بہت اچھی جسمانی اور ذہنی حالت میں تھے، جیسے وہ کسی لکچری ہوٹل میں رہے ہوں یا کسی کنسرٹ سے واپس آ رہے ہوں۔ اس کے علاوہ ان قیدیوں کے محافظوں القسام کے جنگجوؤں کی جانب سے غزہ سے ریڈ کراس کی گاڑیوں کے ذریعے غزہ سے نکلنے پر انہیں علامتی تحفے دینے کا ہوشیار اقدام ایک بہت ہی دلچسپ اقدام تھا۔

مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ امریکہ اور یورپ نے القسام کے جنگجوؤں کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے لیکن ان جنگجوؤں نے انسانیت کے عروج کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ مغربی تہذیب کے سفیر اور نمائندے (صیہونی) قیدیوں کی عصمت دری کرتے ہیں اور ان کے ساتھ نازیوں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے واضح مثال فلسطینی مجاہدین خاتون خالدہ جرار کی تکلیف دہ صورتحال ہے جنہیں قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے میں رہا کیا گیا تھا۔

مزاحمتی جنگجوؤں نے نیتن یاہو کو جنگ بندی پر مجبور کر دیا
فلسطینی تجزیہ کار نے مغربی کنارے کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے زور دیا: “مغربی کنارے میں مزاحمت کی آگ بھڑکنا، شہادتوں کی کارروائیوں میں توسیع، اور جنگ بندی کے پہلے دن قابض فوج کی صفوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ، قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ساتھ ساتھ مختلف محاذوں پر فلسطینی مزاحمت کے تسلسل کی تصدیق کرتا ہے۔ اس دوران جس نے نیتن یاہو کو شکست کا پیالہ پینے پر مجبور کیا (جنگ بندی قبول کرنا اور اپنے عہدوں سے دستبردار ہونا) وہ نیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہیں تھا بلکہ القسام بریگیڈ، سریا القدس، الاقصیٰ شہداء بریگیڈ اور مزاحمت کے وہ تمام جنگجو تھے جنہوں نے غزہ یا مغربی کنارے اور ان سے پہلے اپنی صفوں میں بھاری جانی نقصان کے ساتھ صیہونی فوج کو شکست دی۔

مضمون کے مطابق نیتن یاہو ناکام رہے اور اپنے کسی بھی مقصد کو حاصل نہیں کرسکے، جن میں غزہ کی پٹی میں مزاحمتی تحریکوں کی تباہی، غزہ کے تمام لوگوں کی نقل مکانی اور پٹی میں اسرائیلی بستیوں کا قیام شامل ہیں۔ لہٰذا ہم اس بات کا امکان نہیں سمجھتے کہ نیتن یاہو اقتدار میں رہنے کی امید میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام سے قبل اگلے چند دنوں میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو غزہ کے خلاف نسل کشی اور 15 ماہ کی جنگ کے دوران نیتن یاہو جو اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں وہ جنگ میں دوبارہ حاصل نہیں ہوں گے اور اسرائیل کی جانب سے جنگ میں واپسی کے کسی بھی اقدام کا جواب مغربی کنارے، یمن اور شاید لبنان اور عراق کی جانب سے بھی دیا جائے گا۔

عبدالباری عطوان نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا: “غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگ مزاحمتی بٹالین، خاص طور پر القسام بریگیڈ کی فتح اور شاید مہینوں کی غیر موجودگی کے بعد ابو عبیدہ (القسام بریگیڈ) کی واپسی کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم اس فتح کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ہم یمن کے علاوہ کسی بھی عرب رہنما کا شکریہ ادا نہیں کرتے۔ ہم القسام بریگیڈ کی مضبوط انداز میں جنگ میں واپسی کی تیاری پر زور دیتے ہیں، اور مزاحمت نے جنگ کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا انتظام کرنے کی اپنی عمدہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا. آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام فلسطین کی آزادی اور مزاحمت کے عظیم جنگجوؤں کی طرف سے عربوں اور مسلمانوں کے وقار کی بحالی قریب ہے اور یہ صرف وقت کی بات ہے۔