حماس نے قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے “صہیونی ریاست کی تباہی” کیسے رقم کی؟

صیہونی حکومت کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کا ماننا ہے کہ حماس کے ساتھ حالیہ معاہدہ، جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی، اسرائیل کے لیے ایک تباہ کن ضرب ثابت ہوا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صیہونی حکومت کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کا ماننا ہے کہ حماس کے ساتھ حالیہ معاہدہ، جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی، اسرائیل کے لیے ایک تباہ کن ضرب ثابت ہوا۔
فارس پلس گروپ: صیہونی حکومت کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے: ” ایسے میں جبکہ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ حماس کے لیے ایک موقع ہے تاکہ وہ اپنے اہداف حاصل کر سکے، یہ اسرائیل کے لیے ان تمام چیزوں کے کھونے کے مترادف ہے جنہیں حاصل کرنے کے لیے اس نے 15 ماہ تک کوشش کی۔”
عبرانی زبان کے جریدے “ایباک” نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے حماس کی حکمتِ عملی کی نئی تفصیلات ملی ہیں جو وہ آزاد شدہ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ آزادی کے بعد کے مرحلے میں اختیار کرے گی۔
ایباک کے مطابق، حماس کی تنظیم نہ صرف ان قیدیوں کو غزہ میں اسرائیل کے ساتھ آئندہ کے تصادم میں اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کرے گی بلکہ اس کا ایک بڑا مقصد اپنے مزاحمتی نظریے کو مغربی کنارے تک منتقل کرنا بھی ہے۔
یہ جریدہ فلسطینی قیدیوں کو مقبوضہ علاقوں سے جلا وطن کرنے کے منصوبے کے بارے میں لکھتا ہے کہ صیہونی حکومت کے کئی اعلیٰ سیکیورٹی حکام اس اقدام کو بے سود سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر یہ تصور کیا جائے کہ انہیں مغربی کنارے یا غزہ سے دور کر کے حماس کے ساتھ ان کے رابطے ختم کیے جا سکتے ہیں، تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔

ہوشیاری اور دانائی سے مذاکرات کا انتظام
یہ عبرانی زبان کا جریدہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے والے مذاکرات کے عمل اور حماس کی جانب سے ان مذاکرات کے انتظام پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے: “اگر حماس اور اسرائیل کے درمیان قطر اور امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کو ایک سخت اور جانگسل میراتھن قرار دیا جائے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ وہ میراتھن تھا جس میں حماس تنظیم فاتح بن کر ابھری اور ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف میدانِ جنگ میں بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی ایک ماہر اور چالاک کھلاڑی ہے۔”
اسرائیلی حکومت کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ حماس نے نہایت مہارت اور ہوشیاری کے ساتھ صیہونی حکومت کو مذاکرات کے ہر مرحلے میں شکست دی۔ مذاکرات کے دوران حماس کے صبر، تحمل، استقامت اور سنجیدگی نے اسے ایک مضبوط پوزیشن سے اپنے مطالبات صیہونی حکومت پر مسلط کرنے کا موقع دیا۔ یوں، حماس مذاکرات سے زیادہ سے زیادہ سیاسی اور انسانی حقوق کے فوائد فلسطینی عوام کے لیے حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
فتح کا نقشہ
ایباک کے مطابق، جنگ بندی معاہدے میں حماس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بالکل اسی ترتیب اور انداز میں نافذ ہوا، جیسا کہ اس کے رہنماؤں نے طے کیا تھا۔ اس نے نہ صرف حماس کو جنگ میں فتح یاب فریق کے طور پر پیش کیا، بلکہ فلسطینی عوام کو ایک بار پھر یہ یقین دلایا کہ اسرائیل کے خلاف صرف “مزاحمت” کے ذریعے ہی ان کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اسرائیل کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حماس کے ساتھ طے پانے والے جنگ بندی معاہدے نے سب پر واضح کر دیا کہ اصل فاتح کون ہے۔ اس حقیقت نے بلاشبہ 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کو فلسطینی شعور میں ایک تاریخی اور اسٹریٹجک تبدیلی کے طور پر ثبت کر دیا ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل میں سب کا ماننا ہے کہ “سینکڑوں فلسطینی قیدی، جو اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت آزاد ہوئے، حماس خصوصاً اس کی عسکری شاخ میں قیادی اور کمانڈنگ عہدے سنبھالیں گے۔ ان کی پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری نئے مجاہدین کی تربیت اور شاید نئے سنوار (یعنی مستقبل کے حماس رہنما) تیار کرنا ہوگی۔”
ایباک نے صیہونی حکومت کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کی اس تشویش کا بھی حوالہ دیا ہے کہ یہ قیدی فلسطینی مزاحمتی تحریک، خصوصاً حماس کے ڈھانچے میں ضم ہو جائیں گے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ “یہ قیدی نہ صرف غزہ میں حماس کی طاقت میں اضافہ کریں گے، بلکہ اس تحریک کی مجموعی عسکری صلاحیت اور فلسطینی مزاحمت کی قوت کو بھی بدل کر رکھ دیں گے۔”
یہ رپورٹ اس نکتے کو اجاگر کرتے ہوئے کہتی ہے: “اگر ہم یہ کہیں کہ اب ایک نئی حماس تنظیم وجود میں آئے گی جو طوفان الاقصیٰ (7 اکتوبر حملے) سے پہلے کی حماس سے بالکل مختلف ہوگی، تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔” اس میں مزید کہا گیا ہے: “فلسطینی قیدیوں کی آزادی ایک نئی حماس کے جنم لینے کا سبب بنے گی۔”
حماس کی آئندہ حکمتِ عملی
اب صیہونی حلقوں میں یہ یقین مضبوط ہو چکا ہے کہ حماس نے اسرائیل پر ایسا معاہدہ مسلط کیا جس نے صیہونیوں کے فلسطین میں تمام خواب چکنا چور کر دیے۔
رپورٹ کے مطابق، حماس سے قریبی ذرائع نے ان خیالات کی تصدیق کی ہے، جو اسرائیل میں غزہ کی پٹی کے مستقبل اور فلسطینیوں، خاص طور پر حماس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے مزید تشویش پیدا کر رہے ہیں۔
ایباک نے اس بات پر زور دیا کہ “قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی قیدی جو تاحیات سزائیں بھگت رہے تھے، اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوئے، مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ میں ‘اسرائیل کی تباہی’ (نکبت اسرائیل) کے طور پر درج ہوگا۔”
رپورٹ میں حماس کی آئندہ عسکری حکمت عملی کے بارے میں لکھا گیا ہے: “مستقبل میں بھی حماس اسرائیلیوں کو یرغمال بنانے کی حکمتِ عملی کو ‘طوفان الاقصیٰ’ طرز کی کارروائیوں کے ذریعے جاری رکھے گی، لیکن اس بار یہ کارروائیاں صرف غزہ کی سرحدی بستیوں تک محدود نہیں رہیں گی، بلکہ مغربی کنارے، اسرائیل کے اندر اور حتیٰ کہ بیرون ملک بھی انجام دی جا سکتی ہیں۔”
رپورٹ کے مطابق، “اسرائیلی قیادت نے وہ سب کچھ کھو دیا جو اس نے 15 ماہ کی جنگ میں حاصل کیا تھا، اور یہ سب داخلی عوامی دباؤ کے باعث ہوا، جو ہر قیمت پر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کر رہا تھا، یہاں تک کہ اگر اس کے بدلے حماس کے تمام مطالبات تسلیم بھی کرنے پڑیں۔”
اسرائیلی سیکیورٹی حکام کا ماننا ہے کہ “یہ حکومت نہ صرف جنوبی محاذ پر اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے میں ناکام رہی، بلکہ اب اسے ایک ایسی حماس کا سامنا ہوگا جس کے ہر جنگجو کو نیا ‘سنوار’ سمجھا جائے گا، جو ایک اور ‘طوفان الاقصیٰ’ برپا کرنے کے لیے تیار ہوگا۔”

انسانی کامیابیاں
“فلسطینی قیدیوں” کے معاملے پر مذاکرات میں، حماس سے وابستہ ذرائع اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ معاملہ اسرائیلی فریق کے ساتھ مذاکرات میں سب سے اہم موضوعات میں شامل تھا، اور حماس نے اپنی دانشمندی سے ان اسرائیلی قیدیوں کو، جو اس کے قبضے میں تھے، اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
یہ ذرائع اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ حماس تنظیم ہمیشہ اسرائیلی قیدیوں کے معاملے کو ایک ایسا کارڈ سمجھتی رہی ہے جس کے ذریعے وہ اہم انسانی کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے، جیسے کہ غزہ کی پٹی میں امن قائم کرنا اور فلسطینیوں پر عائد محاصرے کو ختم کرنا۔
آخر میں، بہت سے صہیونی حکومت کے عہدیدار، جیسے کہ جنرل “اسحاق بن بریک”، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس مذاکرات کے میدان میں بھی اتنی ہی طاقتور ہے جتنی کہ وہ عسکری میدان میں ہے۔