فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونیستی ریاست ، جس نے تاریخی فلسطین کے 85 فیصد سے زیادہ علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے، اب بھی فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے نئے منصوبے بنا رہی ہے، جن میں لاٹری اور قرعہ اندازی جیسے حربے شامل ہیں۔
فارس نیوز ایجنسی کی اقتصادی رپورٹ: تصور کریں کہ آپ کو اپنے گھر اور زمین سے بےدخل کر دیا گیا ہے، یا تو کسی قابض حکومت کی باضابطہ فوجی طاقت کے ذریعے، یا ان دہشت گرد صہیونی ملیشیاؤں کے تشدد کے ذریعے جو اس حکومت کی سرپرستی میں کام کر رہی ہیں، یا پھر ایسے نسل پرستانہ قوانین کے تحت جو ان ملیشیاؤں کو زمین کا جائز مالک اور آپ کو ایک درانداز سمجھتے ہیں۔ اور جب آپ کو بےدخل کر دیا جاتا ہے تو آپ کے اموال کو یوں بانٹ دیا جاتا ہے جیسے وہ کوئی لاٹری کے ٹکٹ یا کوئی کیک ہوں، جنہیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جو مقبوضہ نقب کے جنوب میں واقع گاؤں “ام الحیران” میں پیش آئی، جہاں قابض صہیونی حکومت نے وہاں کے فلسطینی باشندوں کو 24 نومبر 2024 تک کی مہلت دی تھی کہ وہ اس جگہ کو ” غیرتسلیم شدہ” قرار دے کر رضاکارانہ طور پر خالی کر دیں۔ لیکن جب گاؤں کے رہائشیوں نے اپنے گھروں کو چھوڑنے سے انکار کیا تو اسرائیلی حکام نے ان کے مکانات مسمار کر دیے اور انہیں زبردستی بےدخل کر دیا۔
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس علاقے میں ایک نیا صہیونی شہر “درور” تعمیر کرنا چاہتا ہے، جو 400 صہیونی خاندانوں کے لیے بسایا جائے گا۔
نقب ایک وسیع صحرائی علاقہ ہے جو اسرائیل کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ اس کا کل رقبہ 14,000 مربع کلومیٹر ہے، جو کہ مقبوضہ فلسطین کی زمین کا 55 فیصد بنتا ہے۔ اس علاقے کی آبادی تقریباً 6,30,000 نفوس پر مشتمل ہے، جن میں سے 3,17,000 افراد بدوی عرب (فلسطینی) ہیں، جبکہ باقی اسرائیلی حکومت کی جانب سے پچھلی چند دہائیوں میں یہاں بسائے گئے ہیں۔
ام الحیران کے باشندوں کی بےدخلی کے بعد، اسرائیلی ہاؤسنگ منسٹری اور صہیونی لینڈ اتھارٹی نے گاؤں کی زمین کو 345 رہائشی پلاٹوں میں تقسیم کر دیا، جہاں 345 صہیونی مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ فوجیوں کو ان زمینوں کے حصول میں ترجیح دی گئی اور اسرائیلی وزیر خزانہ نے 100 پلاٹوں کی قرعہ اندازی کا اعلان کیا۔
عبرانی اخبار “یدیعوت آحارونوت” کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی وزیر خزانہ اور متنازعہ صہیونی رہنما بزالل اسموتریچ کے بڑے بیٹے نے بھی قرعہ اندازی میں 513 مربع میٹر کا ایک پلاٹ حاصل کیا، جو صہیونی بستی کی تعمیر کے لیے مختص کیا گیا تھا۔
زمین اور اپارٹمنٹس کو قرعہ اندازی کے ذریعے شہریوں میں تقسیم کرنے کا تصور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں پلاٹ اور اپارٹمنٹس اسی طریقے سے عوام میں تقسیم کیے جاتے ہیں، کیونکہ قرعہ اندازی کو بعض اوقات محدود وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کا ایک ذریعہ اور زمین و رہائش کے زیادہ مطالبے کا حل سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اسرائیل میں نہ کوئی انصاف ہے اور نہ ہی شفافیت۔ یہاں جو “محدود وسائل” تقسیم کیے جا رہے ہیں، وہ دراصل اسرائیلی حکومت کی ملکیت نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے ہیں، اور ان فلسطینی املاک پر قبضہ کرنے کا مطالبہ انہی غاصب صہیونی آبادکاروں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ام الحیران میں زمینوں کی تقسیم کے لیے جو لاٹری استعمال کی گئی، وہ درحقیقت ایک ایسے مذہبی و نسلی شدت پسند صہیونی شہرک کے قیام کے لیے تھی جس کے منصوبے پر اسرائیلی حکومت 2002 سے کام کر رہی تھی۔
اسرائیلی وزارتی کمیٹی برائے نقب کے بادیہ نشین امور نے اس معاملے پر کھلے عام فخر کا اظہار کیا ہے۔ اس کمیٹی کے ذریعے آمیچای شکلی (اسرائیل کے وزیر برائے امورِ یہودی دیاسپورا) نے اعلان کیا کہ 2023 سے 2024 کے دوران نقب کے وہ 36 فلسطینی گاؤں جو اسرائیل کے نزدیک “غیر تسلیم شدہ” ہیں، وہاں گھروں کی مسماری کے احکامات پر عملدرآمد میں 400 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح، اسرائیل کے سابق وزیر برائے داخلی سلامتی، ایتمار بن گویر نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا:
“مجھے فخر ہے کہ میں نقب میں غیر قانونی گھروں کو منہدم کرنے کے ایک سخت گیر پالیسی کی قیادت کر رہا ہوں۔”
ام الحیران وہ واحد فلسطینی گاؤں نہیں ہے جس کے باشندوں کو جبری بےدخل کرکے اس کی زمین صہیونی آبادکاروں اور فوجیوں میں لاٹری کے ذریعے بانٹ دی گئی ہو۔ یہی پالیسی مقبوضہ مغربی کنارے، بیت المقدس اور نقب کے شہر “بئر السبع” میں بھی نافذ کی جا چکی ہے۔
اسرائیلی وزارتِ ہاؤسنگ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت زمینوں اور اپارٹمنٹس کی تقسیم میں صہیونی فوجیوں کو خصوصی رعایت دیتی ہے۔ ان مراعات کے مستحق فوجیوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے:
ذخیرہ فوجی (ریٹائرڈ یا ریزرو فوجی)
دروز اور چرکسی اقلیتیں جو اسرائیلی سیکیورٹی فورسز میں خدمات انجام دے چکی ہیں
عرب بدوی افراد جو اسرائیلی سیکیورٹی اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں یا وہ بیوہ خواتین جن کے شوہر مارے جا چکے ہیں
رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی ہاؤسنگ وزارت نے کم از کم 15 صہیونی بستیوں (مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں) میں رعایتی اپارٹمنٹس تعمیر کیے اور انہیں صہیونی آبادکاروں کو رہائش کے لیے پیش کیا۔
اعداد و شمار کے مطابق، یہ رعایت جیتنے والوں کو اپارٹمنٹ کی قیمت میں 20 فیصد رعایت یا 300,000 شیکل (تقریباً 84,589 ڈالر) کی سبسڈی کی صورت میں دی جاتی ہے۔ ان اسکیموں میں بےگھر آبادکاروں، اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور خصوصی ضروریات کے حامل افراد کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی وزارت ہاؤسنگ کی جانب سے زمینوں اور اپارٹمنٹس کی قرعہ اندازی:
2022 کے بعد سے، اسرائیلی حکومت نے صرف مشرقی بیت المقدس میں 3,102 رہائشی یونٹس قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیے اور وہاں 230,000 سے زائد صہیونی آبادکاروں کو بسایا۔
بیت شمیش نامی صہیونی بستی، جو 1950 میں گاؤں “دیر ابان” (مغربی بیت المقدس) کی زمین پر بسائی گئی، وہاں 6,816 رہائشی یونٹس قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیے گئے۔
میفسیرت صہیون (بیت المقدس کے مشرقی مضافات) میں 1,042 رہائشی یونٹس قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیے گئے۔
کریات یعاریم (مقبوضہ بیت المقدس کے مغرب میں) میں 70 رہائشی یونٹس قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیے گئے۔
جنگِ یوکرین کے بعد اسرائیل میں آبادکاری کا منصوبہ:
2022 میں، اسرائیلی منصوبہ بندی اور تعمیراتی کمیٹی نے ایسے رہائشی منصوبوں کی منظوری دی جس کے تحت یوکرین جنگ کے بعد صہیونی آبادکاروں کو اسرائیل منتقل کرنے کا انتظام کیا گیا۔ اسی پالیسی کے تحت 18 دونم زمین پر دو رہائشی ٹاورز تعمیر کیے گئے، جن میں 9 آٹھ منزلہ رہائشی کمپلیکس شامل ہیں، جو 210 نئے رہائشی یونٹس پر مشتمل ہیں۔
ابوغوش گاؤں، جو یافا سے بیت المقدس جانے والے راستے میں واقع ہے، اور اس کے قریب عین ناکووا نامی صہیونی بستی، جو بین نقوبا گاؤں کی زمینوں پر بنائی گئی، ان کے علاوہ بھی کئی صہیونی بستیاں ایسی ہیں جہاں ہزاروں رہائشی یونٹس کو قرعہ اندازی اور رعایتی نرخوں پر صہیونی آبادکاروں میں تقسیم کیا گیا۔
ان میں شامل کچھ نمایاں صہیونی بستیاں درج ذیل ہیں:
معالیہ ادومیم: یہ مقبوضہ مغربی کنارے کی سب سے بڑی بستیوں میں سے ایک ہے، جس کی آبادی 40,000 نفوس پر مشتمل ہے۔
مودعین عیلیت: یہ بستی بیت سیرا اور بیت عور التحتا گاؤں کی زمینوں پر قائم کی گئی اور مقبوضہ رام اللہ کے مغرب میں، 1948 میں قبضے میں لیے گئے علاقوں اور مغربی کنارے کے درمیان خطِ سبز (گرین لائن) پر واقع ہے۔
بیت ایل: یہ بستی البیرہ شہر کے داخلی راستے پر واقع ہے۔
بیت آریہ و افرايم: یہ بستی بیت المقدس سے 32 کلومیٹر شمال میں اور تل ابیب سے 25 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔
تسور ہداسا: یہ بستی وادی فوکین گاؤں (مغربی بیت لحم) کی زمینوں پر بسائی گئی۔
بیتار عیلیت: یہ بستی بیت لحم کے نحالین گاؤں کی زمینوں پر بنائی گئی۔
افرات: یہ بستی غوش عصیون نامی صہیونی بلاک کے تحت جنوب مغربی بیت لحم میں واقع ہے۔
الفیہ منشینہ: یہ بستی قلقیلیہ میں بسائی گئی۔
عمانوئیل: یہ بستی شمال مغربی سلفیت کے علاقے میں بنائی گئی۔
اس کے علاوہ، اسرائیلی وزارتِ ہاؤسنگ نے بئر السبع کے علاقے میں بھی 4,873 رہائشی یونٹس قرعہ اندازی کے ذریعے صہیونی آبادکاروں میں تقسیم کیے، حالانکہ یہ علاقہ بدوی فلسطینی باشندوں کی بستیوں اور شہروں پر مشتمل تھا۔
1967 کی جنگ کے بعد سے، اسرائیلی قابض حکام نے تقریباً 1.3 ملین دونم زمین پر قبضہ کر لیا ہے تاکہ صہیونی آبادکاروں کے فائدے کے لیے بستیاں تعمیر کی جا سکیں اور بستیوں کے منصوبوں کو وسعت دی جا سکے۔
فلسطینی کمیشن برائے مزاحمتِ دیوار و بستیوں کے اعداد و شمار کے مطابق، مقبوضہ مغربی کنارے میں دریائے اردن کے قریب تقریباً 1.3 ملین دونم زمین ضبط کی جا چکی ہے، جس میں سے 1 ملین دونم صرف صہیونی بستیوں کی تعمیر کے لیے اسرائیلی حکومت کو دی گئی ہے۔
2024 کے دوران، اسرائیلی قابض افواج نے مزید 52,000 دونم زمین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطینی کمیشن کے مطابق، مغربی کنارے کے زون “C” میں تقریباً 230,000 فلسطینی رہائش پذیر ہیں، جو صہیونی بستیوں کی توسیع اور اپنی زمینوں سے بے دخلی کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
نتیجہ
“لاتاری سسٹم” درحقیقت اسرائیلی پالیسیوں کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے، جن کے ذریعے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور صہیونی آبادکاروں کے لیے بستیوں کی تعمیر کو “قانون” اور “انصاف” کے نام پر جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسرائیل اس طریقے سے آبادکاروں کو ایسی مراعات دیتا ہے جو فلسطینی سرزمینوں پر قبضے کو آسان بناتی ہیں، یہاں تک کہ ان زمینوں کے اصل مالکان کو وحشیانہ جرائم کے ذریعے وہاں سے زبردستی بے دخل کیا جاتا ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں