جدیدیت، مہدویت اور ہم

دلچسپ بات یہ ہے کہ جدیدیت اور مہدویت دو ایسے نظریات ہیں جو کئی مواقع پر ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے ہیں جبکہ خود مھدویت ایک جدید ترین نظام حیات کا نوید بخش نظریہ ہے۔  مہدویت اور جدیدیت کے درمیان ٹکراو کو سمجھنے کے لئیے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں جدیدیت کیا ہے اور اسکا مہدویت سے ٹکراو کیوں ہے ؟

فاران: تجزیاتی ویب سائٹ: شک نہیں ہے آج کے اس دور میں جب ہر طرف سے شببہات کے کالے ناگ پھن کاڑھے بیٹھے ہیں ہمارے لئیے ضروری ہے جو بھی بن پڑے اپنی نسل کو ان شبہوں کے ذریعہ معصوم جوانوں کو ڈسنے والے ناگوں سے بچائیں ان کے وجود کو محفوظ بنائیں ان کالے بچھووں سے جو تاک میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی ڈنک مار دیتے ہیں آج جدید دنیا میں مہدویت کے تصور کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرناان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو مہدویت پر یقین رکھتے ہیں تاکہ ان شبہات کے سامنے اپنی نئی نسل کو بچایا جا سکے جو جوانوں کے ایمان میں شرک کا زہر گھول دینے کا سبب ہوتے ہیں آج ہم جس جدید دور کا حصہ ہیں اس جدید دور میں مہدویت کے نظریہ کی تشریح ہم سب کے لئیے بہت اہم ہے پیش نظر تحریر میں ہم نے جدیدیت و مہدویت کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے دونوں کا ایک اجمالی جائزہ لیا ہے اور اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح مھدویت میں جوانوں کی اس تشنگی کو بجھانےکی صلاحیت ہے جو وہ جدیدیت کے سراب میں ڈھونڈ رہے ہیں :

جدیدیت اور مہدویت :

آج کی  مغربی دنیا کے اہم نظریوں میں ایک  جدیدیت ہے  جدیدیت اور مہدویت کے تصورات کی وضاحت کے بعد، ان دونوں کے موضوعات کی وسعت کے پیشِ نظر، جدیدیت کے کچھ بنیادی عناصر جیسے روایت دشمنی، لبرل ازم اور عقل پسندی کو مہدویت کے نظریے کی تعلیمات کے ساتھ تقابلی طور پر پرکھا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدیدیت اور مہدویت دو ایسے نظریات ہیں جو کئی مواقع پر ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے ہیں جبکہ خود مھدویت ایک جدید ترین نظام حیات کا نوید بخش نظریہ ہے۔

مہدویت اور جدیدیت کے درمیان ٹکراو کو سمجھنے کے لئیے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں جدیدیت کیا ہے اور اسکا مہدویت سے ٹکراو کیوں ہے ؟

نظریہ مہدویت کی اہمیت اور جدید دور میں اسکی وضاحت کی ضرورت :

دینی تعلیمات ہمیشہ سے اور ہر دور میں انسانیت کے گہرے مطالعہ معاشرتی علوم اور دیگر شعبوں میں بنیادی کردار ادا کرتی آئی ہیں اور ہر زمانے کے سوالات کے مطابق جوابات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

مہدویت کا نظریہ بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ہے اور یہ الحادی اور غیر دینی نظریات اور مختلف ازموں کے مقابلے میں انسانیت کے نظریاتی اور عملی مسائل کے حل کے لیے راہِ نجات پیش کرسکتا ہے۔

شہید استاد مطہری ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور مہدویت کے نظریے کا تقابلی مطالعہ مارکسزم کے ساتھ کیا۔ اس زمانے میں مارکسزم نے اسلامی اور غیر اسلامی کئی معاشروں پر گہرا اثر ڈالا ہوا تھا۔ استاد مطہری نے مہدویت کے نظریے کی اندرونی صلاحیتوں اور انسانی مسائل کے حل کے لیے اس کی طویل المدت  حکمتِ عملیوں کو واضح کرتے ہوئے مارکسزم کے نظریے کو چیلنج کیا اور اس کے موقف کے ہلکے پن اور ضعف کو پیش کیا [1]

جدیدیت کا اثر و رسوخ :

 جدیدیت آج بھی بہت سے انسانی معاشروں، بشمول اسلامی معاشروں میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے اور انسانی خودی، دوسرے انسانوں، اور خدا کے ساتھ تعلقات کے مختلف پہلوؤں میں نظریات اور افکار کو چیلنج کرتی ہے۔

 پیش نظر تحریر  میں ہم  کوشش کریں گے جدیدیت اور مہدویت کے تصورات کو واضح کرسکیں اور جدیدیت کے کچھ عناصر جیسے سنت سے ٹکراو و  دشمنی، لبرل ازم اور عقل پسندی کا مہدویت کے نظریاتی تقاضوں کے ساتھ موازنہ کر سکیں

*جدیدیت کا مفہوم*:

اب تک “جدیدیت” کے اصطلاحی مفہوم پر کوئی ایسی متفقہ تعریف سامنے نہیں آئی ہے جسے سب قبول کریں اور جس کی تردید نہ کی جا سکے۔[2][3]

جدیدیت (مارڈنیزم ) کا مفہوم:

جدیدیت ایک متضاد (Contradictory) تصور ہے جو اپنا معنی نہ صرف ان چیزوں سے حاصل کرتا ہے جن کی یہ نفی کرتا ہے بلکہ ان عناصر سے بھی جو یہ ثابت کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، جدیدیت کے معانی ایک طرف ان امور میں پوشیدہ ہیں جنہیں یہ رد کرتا ہے، اور دوسری طرف ان چیزوں کی طرف رجوع کرتا ہے جنہیں یہ قبول یا اثبات کرتا ہے۔ لہٰذا یہ اصطلاح مختلف ادوار میں مختلف معانی کے ساتھ ظاہر ہو سکتی ہے، اس بنیاد پر کہ کس چیز کی نفی یا انکار کیا جاتا ہے اور اس کے برعکس کس چیز کی تصدیق یا حمایت کی جاتی ہے۔[4]

اس کے باوجود، جدیدیت کے بارے میں مختلف تعاريف پیش کی گئی ہیں جن میں سے چند اہم تعاريف کو ہم یوں بیان کر سکتے ہیں

بہت سے مفکرین کا خیال ہے

جدیدیت ایک جدید طرزِ زندگی ہے جو قدیم طرزِ حیات کی جگہ لے چکی ہے اور اسے مسترد کرتی ہے۔[5]

انتھونی گڈنز:

جدیدیت ایک سماجی طرزِ زندگی اور سماجی تنظیمات کا نظام ہے جو سترہویں صدی کے آس پاس یورپ میں ابھرا اور آہستہ آہستہ اس کا اثر و نفوذ دنیا کے دیگر حصوں تک پھیل گیا۔[6]

پیٹر آزبورن:

جدیدیت ایک کیفیت یا حالت ہے جو جدیدیت کی خصوصیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک جدید تجربہ یا دورِ جدید کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کا نظریہ “تازگی”، “نئی اختراعات” اور “حالیہ دور کی جدت” کو ظاہر کرتا ہے، جو ماضی سے علیحدگی اختیار کرتا ہے اور ایک ایسے غیر یقینی اور غیر مستحکم مستقبل کی طرف بڑھتا ہے جو تیزی سے ظاہر ہو رہا ہے۔[7]

ابل ژانیئر:

جدیدیت ایک نئی منطق ہے جو ایسے معنوی میدان کو تشکیل دیتی ہے جو ماضی میں نامعلوم تھا۔ دوسرے الفاظ میں، جدیدیت ایک نئی دنیا بینی (Worldview) کی منطق ہے۔[8]

جدیدیت کے وسیع اور متنوع تعاريف کے باوجود، ان تمام تعریفات کو مجموعی طور پر دو بنیادی گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(الف) پہلا گروہ:

اس گروہ کے مطابق، جدیدیت کو ایک سماجی اور ثقافتی ڈھانچے یا ساخت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اسے ایک تاریخی حقیقت یا ایک مخصوص دور سمجھا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت، جدیدیت ایک ایسا تاریخی ڈھانچہ ہے جو وقت کے ارتقا ءکے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ چونکہ یہ کسی خاص وقت میں وجود میں آئی ہے، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں ختم بھی ہو جائے۔

(ب) دوسرا گروہ:

اس گروہ کے نزدیک، جدیدیت ایک فلسفیانہ حالت یا نقطۂ نظر، یا ایک نئی عالمی فکر (Worldview) ہے۔ اگرچہ اس گروہ کے پیروکار مختلف آرا رکھتے ہیں، لیکن تقریباً سبھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جدیدیت کا ظہور جدید معاشروں کے ابھرنے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اور جدیدیت کی تعریف انہی جدید معاشروں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔[9]

تاریخی پس منظر:

جدیدیت کے آغاز کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں:

بعض محققین اس کا آغاز چودھویں اور پندرھویں صدی کے دوران رنسانس کے دور سے جوڑتے ہیں۔

کچھ دیگر محققین کے مطابق، جدیدیت کی شروعات سولہویں صدی میں مذہبی اصلاحات (Reformation) کے ساتھ ہوئی۔

انتھونی گڈنز[10] اور زیگمنٹ بومن[11] جیسے مفکرین جدیدیت اور جدیدیت پسندی (Modernism) کے آغاز کو سترہویں صدی سے منسوب کرتے ہیں۔

جبکہ زیادہ تر محققین جیسے یورگن ہابرماس[12]، میک انٹائر[13] اور راجر اسکرٹن[14] جدیدیت کے ظہور کو سترہویں صدی کے اختتام اور اٹھارہویں صدی کے ساتھ جوڑتے ہیں، یعنی عصرِ روشن خیالی (Enlightenment Era) کے ساتھ۔

جدیدیت کی ارتقائی تاریخ:

جدیدیت کے ارتقا کو تاریخ میں مختلف ادوار کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے:

1. رنسانس کا دور (14ویں تا 16ویں صدی عیسوی):

اس دور کو “نوزائیدگی” (Rebirth) کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں کلیسا کے اثر و رسوخ میں کمی آئی اور بتدریج خدا مرکزیت کی جگہ انسانیت پسندی (Humanism) نے لے لی۔ اس کے نتیجے میں کلیسا اور عیسائیت کی تعلیمات کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریکیں  وجود میں آئیں۔ انسانی معاشرے دنیاوی ترقی اور جدت پسندی کی جانب بڑھے اور ثقافت، فنون لطیفہ اور دیگر شعبوں میں اہم تحریکیں ابھریں۔

2. اصلاحِ مذہب کا دور (Reformation Era):

اس دور میں عظیم مذہبی مصلحین جیسے مارٹن لوتھر[17] سامنے آئے۔ انہوں نے کلیسا کی تقدیس فروشی، مذہبی سخت گیری (Legalism)، اور بدعنوانیوں کے خلاف آواز بلند کی اور مسیحی انسان کی آزادی، ذاتی اختیار، اور فرد کی ذمہ داری کے اصولوں کا دفاع کیا۔[18]

مارٹن لوتھر اور ان کے ساتھیوں نے کیتھولک چرچ کے خلاف ایک عظیم تحریک چلائی جس کے سیاسی، اقتصادی، اور سماجی اثرات مغربی جدید معاشروں پر گہرے اور دیرپا رہے۔ ان کی تحریک نے پروٹسٹنٹ ازم (Protestantism) کو جنم دیا، جس نے بالواسطہ طور پر جدیدیت کے نظریے پر گہرا اثر ڈالا۔

ارنَسٹ ٹرولچ نے جدیدیت کی تشکیل میں پروٹسٹنٹ ازم کے غیر ارادی کردار کو اس طرح بیان کیا:

“جدید فرد پروری (Individualism) کی بنیاد اس مسیحی تصور میں مضمر ہے کہ انسان اپنی اندرونی کشش کے ذریعے اُس خدا کی جانب رجوع کرتا ہے جو انسان کی زندگی اور کائنات کا سرچشمہ ہے، تاکہ وہ ایک مکمل شخصیت میں ڈھل سکے۔”[19]

عصرِ روشن خیالی (Enlightenment Era) یا عقلانیت (Rationalism)

(اٹھارہویں صدی اور سترہویں صدی کے اواخر کا دور)

عصرِ روشن خیالی، ایمانوئل کانٹ کے مطابق:

“روشن خیالی کا مطلب ہے کہ انسان اپنی خود پیدا کردہ نابالغی سے باہر نکل آئے۔ نابالغی وہ حالت ہے جس میں انسان اپنی عقل کو کسی دوسرے کی رہنمائی کے بغیر استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔”[22]

عصرِ روشن خیالی ایک فکری، ثقافتی، سماجی اور سیاسی تحریک تھی جس کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:

عقل و خرد پر یقین، جو علم، فہم اور انسانی ترقی کی کلید ہے۔

مذہبی رواداری (Religious Tolerance) کے تصور کو فروغ دینا۔

توہم پرستی (Superstition) اور ہر قسم کے غیر عقلی عقائد کے خلاف جدوجہد۔[23]

. صنعتی انقلاب (1750–1850 عیسوی):

اس دور میں مغربی یورپ کے معاشی نظام اور سماجی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔

اس انقلاب کی نمایاں خصوصیت:

کام کی تجریدیت (Abstraction of Work) تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی اور صنعتی آلات نے انسان اور قدرت کے درمیان ایک نئے قسم کا واسطہ قائم کیا اور روز بروز اپنی خودمختاری میں اضافہ کیا۔[24]

جدیدیت کی اہم خصوصیات اور اجزاء:

(الف) انسانیت پسندی (Humanism):

انسانیت پسندی ایک منظم فکری اور اعتقادی نظام ہے[25] جو یہ سمجھتا ہے کہ انسانی جوہر حقیقتِ وجود کے لیے ضروری ہے۔[26] یہ نظام صرف انسانی ضروریات پر توجہ دیتا ہے۔[27]

انسانیت پسندی کے مطابق تمام تصورات، حقائق اور اقدار انسان کے پیدا کردہ ہیں[28] اور مسائل کے حل کا واحد ذریعہ انسانی عقل و خرد ہے

ب) فرد پرستی (Individualism):

فرد پرستی میں فرد کو معاشرے، اداروں اور دیگر سماجی ڈھانچوں کے مقابلے میں زیادہ بنیادی اور حقیقی حیثیت دی جاتی ہے۔

فرد کی اخلاقی اور قانونی اقدار کو برتر سمجھا جاتا ہے، اور فرد کی خواہشات، مقاصد اور کامیابیوں کو معاشرتی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ فرد معاشرے سے پہلے وجود رکھتا ہے اور معاشرہ صرف افراد کے ارادوں کا مجموعہ ہے۔[29]

(ج) ترقی پسندی (Progressivism):

ترقی پسندی، سائنسی علوم، ٹیکنالوجی، تجارت، معیشت، اور روزگار کے شعبوں میں ترقی اور پیشرفت پر یقین رکھتی ہے۔

یہ جدیدیت کا ایک بنیادی ستون ہے جو مسلسل ترقی اور بہتری کے امکان پر زور دیتا ہے۔[30]

(د) سنت دشمنی (Anti-Tradition):

جدیدیت کی تعریف میں سنت یا قدامت پسندی کے ساتھ ایک فطری تضاد پایا جاتا ہے۔[31]

جدیدیت ہر پرانی رسم و رواج اور موروثی عادات کی مخالفت کرتی ہے، لیکن جو روایات جدید نظریات سے ہم آہنگ ہوں، وہ نئی شناخت کے ساتھ قبول کی جاتی ہیں۔

(ہ) لبرل ازم (Liberalism):

لبرل ازم ایک ایسا نظریاتی نظام ہے جو جمہوریت، قانون کی حکمرانی، سیاسی و فکری آزادی، مذہبی رواداری، انسانی حقوق، اور ہر قسم کے امتیاز (نسلی، جنسی، وغیرہ) کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔[32]

اس نظریے کی بنیاد آزادی کے اصول پر ہے، جہاں افراد، اقلیتوں، اور قوموں کو خود ارادیت کا حق دیا جاتا ہے۔[33]

(و) عقل پرستی (Rationalism):

جدیدیت میں عقل پرستی کے مطابق انسانی علم کا ذریعہ صرف اور صرف قدرتی دنیا ہے، اور یہ علم اسی تک محدود ہے۔یہاں دینی اور روایتی ذرائع کو معتبر علم کا وسیلہ نہیں مانا جاتا۔

انسان کو وحی، الہام یا ماورائی تعلیمات کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ اپنی عقل و خرد کے ذریعے درست راستے کی پہچان اور زندگی کے اصول طے کر سکتا ہے۔[34]

ہم نے یہاں پر جدیدیت کے تین اہم عناصر

روایت دشمنی (Anti-Tradition)

لبرل ازم (Liberalism)

عقل پرستی (Rationalism)

کا جائزہ کو پیش کیا  اب اگر انکا موازنہ تصور مہدویت (Mahdism Thought) سے کیا جائے تو ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ مہدویت خود ہے کیا تاکہ اسکا جدیدیت سے ایک موازنہ ہو سکے ۔

تصور مہدویت (Mahdism Thought)

“مہدویت” لفظ “مہدی” (نجات دہندہ اور مسلمانوں کے موعود) سے لیا گیا ہے، جس کا تقابل دیگر مذاہب میں موجود تصورات جیسے:

موعود پرستی (Messianism)

منجی پرستی (Saviorism)

نجات یا کامیابی (Salvation)

سے کیا جا سکتا ہے۔

حقیقت میں، ایک اصلاح پسند نجات دہندہ کے ظہور اور دنیا کے لیے ایک خوشحال، پُرامن اور سنہری دور کی آمد کا عقیدہ صرف اسلامی نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ خیال مختلف    مذاہب میں ہے جیسے:

عیسائیت (Christianity)

یہودیت (Judaism)

زرتشتی مذہب (Zoroastrianism)

اور ان بڑے مذاہب کے علاوہ دیگر ادیان و مذاہب میں بھی اسکا تصور پایا جاتا ہے

اصطلاحی معنوں میں:

شیعہ امامیہ کے نقطہ نظر سے، تصور مہدویت عقائد، عرفان، اخلاقیات، فقہ اور دیگر تعلیمات کے ایک جامع مجموعے کو کہا جاتا ہے جو:

وحی الٰہی اور شریعتِ اسلامی سے اخذ کیے گئے ہیں۔

پیغمبر اسلام ﷺ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات پر مبنی ہیں۔

انسانی فطرت اور کائناتی قوانین سے ہم آہنگ ہیں۔

تصور مہدویت  کے بنیادی اجزاء اور عناصر:

نظامِ امامت

مسئلۂ غیبت

منجیِ مصلح کی موجودگی

ظہور کے واقعات

انتظار (Awaiting the Savior)

عالمی حکومت

نجات دہندہ کے اثرات اور نتائج

جب اجمالی طور پر مہدویت کا تصور واضح ہو گیا تو اب جیدیت کے ساتھ اسکے تعارض کی طرف آتے ہیں

جدیدیت کا پہلا عنصر: سنت دشمنی (Anti-Tradition)

سنت دشمنی جدیدیت (Modernity) کی ایک نمایاں خصوصیت ہے، جو ماضی کے ساتھ مخصوص نقطہ نظر اور رویے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس تصور کو تصور مہدویت کے تحت ماضی، سنتوں، اور مقدس شخصیات کے احترام کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

سنت (Tradition) کا مفہوم:

لفظ “سنت  یا روایت” مغربی زبانوں میں لاطینی لفظ “Tradere” سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں:

“منتقلی یا حوالہ دینا (To Hand Over or To Transmit).”

Go to the Microsoft Edge menu > Settings > Show advanced settings > Change proxy settings > LAN Settings and deselect the “Use a proxy server for your LAN” checkbox.روایت و سنت کا مطلب مختلف سیاسی، ثقافتی، مذہبی، اور تاریخی حوالوں سے مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں روایت کے مذہبی اور دینی پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے گی کیونکہ مغرب میں روایت کی جڑیں گہرائی تک تاریخی-مذہبی نوعیت کی ہیں۔

روایت و سنت کی تعریفیں:

وراثتی خیالات اور اعمال:

روایت، خیالات، جذبات، اور رسم و رواج کا وہ مجموعہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ لوگ اکثر بغیر سوال کیے ان روایات کو قبول کرتے ہیں کیونکہ یہ سماجی تجربات پر مبنی ہوتی ہیں۔

ارزشی تصور:

روایت ایک ایسا تصور ہے جو کسی معاشرتی یا ثقافتی قدر کے بارے میں فیصلہ کن رائے ظاہر کرتا ہے۔

مک انٹائر (MacIntyre) کے مطابق:

روایت معاشرتی فضائل اور بھلائیوں کی تفہیم کے تاریخی عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ اسے ایک مسلسل عمل کے طور پر دیکھتے ہیں جو ماضی کے تجربات اور اقدار پر مبنی ہوتا ہے۔

انتھونی گڈنز (Anthony Giddens) کے مطابق:

ایک روایتی انسان ماضی کا بہت زیادہ احترام کرتا ہے اور اس کے نشانات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ یہ نسلوں کے تجربات کو محفوظ رکھتا ہے اور انہیں جاری و ساری رکھتا ہے۔

تصور مہدویت اور سنت و روایتی طرز کا تعلق:

تصور مہدویت میں روایت کو ایک مثبت قدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو نہ صرف ماضی کے تجربات بلکہ مذہبی عقائد، وحی اور مقدس شخصیات سے جُڑی ہوئی ہے۔

مہدویت کا تصور ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان ایک مقدس اور فلسفیانہ ربط قائم کرتا ہے۔

یہاں روایت و سنت صرف ایک ماضی کی کہانی نہیں بلکہ ایک روحانی اور فکری تسلسل ہے جو نجات دہندہ کے ظہور سے وابستہ ہے

روایت دشمنی، جو جدیدیت کا ایک اہم عنصر ہے، ماضی اور پرانی روایات کو چیلنج کرتی ہے، جب کہ تصور مہدویت ماضی کو مقدس تسلسل کے طور پر پیش کرتا ہے۔

جدیدیت میں روایت و سنت کو اکثر ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔

مہدویت میں روایت و سنت کو انسانیت کی فکری اور روحانی ترقی کا ایک لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔

اگر حقیقت میں گہرائی سے دیکھا جائے تو مہدویت کا تصور ہمیںوہ سب دیتا ہے جو جدیدیت کے دلدادہ تلاش کر رہے ہیں

جدید نظام حیات ، فرسودہ افکار سے مقابلہ ۔امن انصاف چین سکون ۔

لیکن افسوس کی بات ہے جدیدیت کی آندھی ہمارے معاشرے کے اقدار بھی اڑا کر لے گئی اور آج ہمارے یہاں بھی بعض لوگ جدیدیت کی آڑ میں مہدویت کے افکار پر اعتراض کرتے ہیں اگر چہ انکی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے لیکن انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔نئی نسل کو بتانے کی ضرورت ہے مہدویت کا مطلب نئی ٹکنالوجی سے ہاتھ دھو کر گھوڑا گاڑی اور خچر پر سواری نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے اس جدید ترین دور کا آغاز ہے یہاں انسان ٹکنالوجی کی خدمت میں نہیں ٹکنالوجی انسان کی خدمت میں ہوگی وہ دور ہوگا جب انسان مشین کی بندگی سے نکل کر خدا کی بندگی کے میدان میں آئے گا اور ہر طرف امن و امان ا انصاف کا پرچم لہرا رہا ہوگا ۔أَنَّهُ يَمْلَأُ اَلْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلاً بَعْدَ مَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً.

حواشی :

[1]. نک: مرتضی مطهری، قیام وانقلاب امام مهدی(ع)، انتشارات صدرا.

[2]. Modernity.

[3] . آلن تورن، نقد مدرنیته، ترجمه مرتضی مردیها، ص29، گام نو، تهران1380هـ .ش.

[4] . کریشان کومار، «مدرنیته و کاربردهای

کریشان کومار، «مدرنیته و کاربردهای معنایی آن»، مدرنیته و مدرنیسم، ترجمه حسین علی نوذری، ص81، نقش جهان، تهران، 1379هـ .ش.

[5] . بابک احمدی، معمای مدرنیته، ص9، چاپ سوم: نشر مرکز، تهران 1382هـ .ش.

[6] . آنتونی گیدنز، پیامدهای مدرنیته، ص4، نشر مرکز، تهران1377هـ .ش.

[7]. پیتر آزبورن، «مدرنیته‌ گذار از گذشته به حال»، مدرنیته و مدرنیسم، ترجمه حسین علی نوذری، ص65.

[8]. ابل ژانی یر، مدرنیته چیست، پیوست مدرنیته سیاسی، گردآورنده موریس باربیه، ترجمه عبدالوهاب احمدی، ص391، مؤسسه انتشارات آگاه، 1383هـ .ش.

[9]. معمای مدرنیته، ص24.

[10]. پیامدهای مدرنیته، ص4.

[11] . زیگمون بامن، «مدرنیته چیست»، مدرنیته و مدرنیسم، ترجمه حسین علی نوذری، ص25.

[12] . یورگن هابرماس، «مدرنیته پروژه‌ای ناتمام»، مدرنیته و مدرنیسم، ترجمه حسین علی نوذری، ص106.

[13] . aA Macintyre , After virture ,study in moral theory , London1987 . P. 36.

[14] . راجر اسکراتن، «مدرنیته و مدرنیسم؛ مشخصه‌ها و ریشه‌شناسی و مشخصه‌های نحوی»، مدرنیته و مدرنیسم، ترجمه حسین علی نوذری، ص85.

[15] . Renaissance.

[16] . Protestantism.

[17] . Luter.

[18] . جان مک کواری، فلسفه وجودی، ترجمه محمد سعید حنائی کاشانی، ص 42 ـ 3، چاپ اول: انتشارات هرمس، تهران، 1377هـ .ش.

[19] . Troeltsch , proteseantisme , et modernity, paris , Gallimard. 1991. P . 24.

به نقل از: موریس باربیه، مدرنیته سیاسی، ترجمه عبدالوهاب احمدی، ص74، چاپ اول: انتشارات آگاه، 1383هـ .ش.

[20] . Enlightenment.

] . لارنس کهون، از مدرنیسم تا پست مدرنیسم، (فصل سوم: امانوئل کانت، در پاسخ به پرسش روشن‌گری چیست،)، ویراستاری فارسی عبدالکریم رشیدیان، ص51، چاپ چهارم: نشر نی، تهران 1384هـ .ش.
[23] . حسین علی نوذری، صورت‌بندی و تکامل مدرنیته، ص49، نقش جهان، تهران 1379هـ .ش.
[24] . ابل ژانی‌یر، مدرنیته چیست، ص 398.
[25] . John, Monfasani, Humanism, Renessance, in Encyclopedia of philosophy, Routeledye, london, 1998. v4.p.530.
[26] . تونی دیویس، اومانیسم، ص173، ترجمه عباس مخبر، نشر مرکز، تهران 1378هـ .ش.
[27] . نک: فرهنگ اکسفورد، ذیل کلمه humanism.