فاران تجزیاتی ویب سائٹ: “سید حسن نصراللہ” محض کسی مزاحمتی تحریک کے رہنما نہیں تھے، بلکہ وہ خطے کی سب سے مؤثر شخصیات میں سے ایک تھے، جنہوں نے مزاحمت، بالخصوص فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اس کی راہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس تحریک کو پتھروں سے لے کر “طوفان الاقصیٰ” تک پہنچایا۔
ایسے دور میں جب نظریہ حکمت عملی سے ہم آہنگ ہو چکا ہے اور طاقت کے مفروضے اور گڑت نفسیاتی جنگ کے ساتھ جُڑ چکے ہیں، ایک رہنما کس طرح کسی مزاحمتی تحریک کو ایک احتجاجی تحریک سے نکال کر ایک علاقائی قوت میں تبدیل کر سکتا ہے؟ “سید حسن نصراللہ” نے اپنی حکمت عملی کے ذریعے اجتماعی شعور اور بیداری کو کیسے پروان چڑھایا اور سیاسی نفسیات کو میدان جنگ سے آگے ذہنوں اور دلوں تک کس طرح وسعت دی اور اسے اپنے مقصد کے لیے کیسے استعمال کیا یہ چیز قابل غور ہے
سید حسن نصراللہ کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے بعد، وہ محض ایک مسلح مزاحمتی تحریک کے رہنما نہیں رہے، بلکہ انہوں نے ایک نئے ڈیٹرنس (روک تھام) کے معادلے کو وضع کیا۔ انہیں دشمنوں اور مزاحمت مخالف قوتوں کے تجزیے اور ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں مہارت حاصل تھی۔
انہوں نے یہ تصور کیسے پیدا کیا کہ “اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے؟” اور اسرائیلی فوج کے “ناقابلِ شکست” ہونے کی تصویر کو مٹانے کے لیے کن ہتھیاروں اور طریقوں کا استعمال کیا؟ ان پر توجہ ضروری ہے۔
طاقت کے گڑت پر نظرثانی
علاقائی پالیسیوں میں تبدیلی، طاقت کے مراکز کے مفادات کی باہمی پیچیدگی، فوجی قوت، نظریاتی اثر و رسوخ اور میڈیا کی اہمیت، خطے میں نفوذ کے نقشے کو روایتی اور معمول کے طریقوں سے آگے بڑھا کر نئے انداز میں تشکیل دیتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں، شہید سید حسن نصراللہ محض حزب اللہ کے رہنما نہیں بلکہ خطے کے سب سے مؤثر رہنماؤں میں سے ایک کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اس کی سمت کی رہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا، جسے انہوں نے پتھروں کے انتفاضہ سے لے کر “طوفان الاقصیٰ” آپریشن تک پہنچایا۔
نظریاتی و فکری فریم ورک: مزاحمت کی عالمگیریت
سید حسن نصراللہ صرف ایک فوجی کمانڈر نہیں تھے، بلکہ ایک اسٹریٹجک مفکر تھے، جنہوں نے مزاحمت کے نظریے کو جغرافیائی، نسلی اور فرقہ وارانہ سرحدوں سے بالاتر ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔
وہ بہت جلد اس حقیقت کو سمجھ گئے تھے کہ صہیونی قابضین کے خلاف مزاحمت محض ایک مذہبی یا قومی جنگ نہیں، بلکہ جارحیت اور ناانصافی کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد ہے۔ اسی بصیرت نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ مسئلہ فلسطین کو ایک عرب قومی مسئلے سے نکال کر ایک عالمی انسانی مسئلے میں تبدیل کریں۔
“فکری مزاحمت” کے ماڈلز کے تجزیے میں عام شعور کی تشکیل نو کے لیے سیاسی بیان کی طاقت اور اثر پر توجہ دی جاتی ہے۔ سید حسن نصراللہ ہمیشہ ایک متحد اور ہم آہنگ نظریاتی گفتگو کرتے تھے، جس میں تمام فلسطینی گروہوں کو، ان کے نظریاتی رجحانات سے قطع نظر، خطاب کیا جاتا تھا۔ اس حکمت عملی نے ایک متحدہ مزاحمتی محاذ کے قیام میں مدد دی، جو سیاسی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر تھا۔
سید حسن نصراللہ کا بیان محض ایک جذباتی نعرہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس کے پیچھے ایک عملی حکمت عملی کارفرما تھی، جو براہ راست غزہ اور مغربی کنارے میں مزاحمت کی حمایت اور اس کے ساتھ مسلسل ہم آہنگی کے ذریعے جڑا ہوتا ۔
اس بیان کی ایک نمایاں مثال 1993 میں اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینی مزاحمت کی حمایت تھی، جب روایتی فلسطینی گروہوں کی عوامی مقبولیت میں کمی آئی اور ایک نئے مزاحمتی ماڈل کی ضرورت محسوس کی گئی۔ سید حسن نصراللہ نے اس مرحلے پر ایک نظریاتی خلا کو پُر کیا، جہاں انہوں نے مزاحمت کو آزادی اور قابضین کے خلاف جدوجہد کا واحد راستہ قرار دیا۔
یہ صرف ایک ردعمل نہیں تھا، بلکہ طاقت کے متحرک عوامل، اتحادوں اور اتحادی گروہوں کی گہری سمجھ پر مبنی ایک حکمت عملی تھی، جو دنیا بھر میں آزادی بخش تحریکوں کے نظریات اور فلسفے پر ان کی گہری بصیرت کو ظاہر کرتی تھی۔
سید حسن نصراللہ کی تقاریر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے گفتگو میں ایسی حکمت عملیوں کو شامل کیا، جو ان دانشوروں کے بیانوں کی یاد دلاتی ہیں، جو صہیونی اور مغربی میڈیا کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کے لیے کوشاں تھے۔
انہوں نے اپنے گفتگو کو مظلوم اور ظالم کے درمیان جدوجہد کے طور پر مرکوز کیا، جس نے مسئلہ فلسطین کو ایک انسانی اور انسانی حقوق کا مسئلہ بنایا گیا۔ اس حکمت عملی نے اس معاملے کی مذہبی اور سیاسی سرحدوں کو ختم کر دیا اور اسے عالمی رائے عامہ میں جگہ دی۔
حکمت عملی کی تکنیکیں: پتھروں کے انتفاضہ سے طوفان الاقصیٰ تک
1987 میں شروع ہونے والی پہلے انتفاضہ کے بعد، فلسطینی مزاحمت نے کئی اسٹریٹجک تبدیلیاں دیکھیں، لیکن اس کی حکمت عملی میں سب سے بنیادی تبدیلی سید حسن نصراللہ کی حمایت اور سرپرستی کے ذریعے سامنے آئی۔ انہوں نے صرف جنگجوؤں کو مسلح کرنے یا ان کی تربیت تک خود کو محدود نہیں رکھا، بلکہ لبنان میں مزاحمت کے تجربے کو فلسطینی میدانِ جنگ میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
1990 کی دہائی میں مزاحمت نے ایک بڑی تبدیلی دیکھی، جہاں پتھروں سے شروع ہونے والی تحریک، استشہادی (شہادت طلب) کارروائیوں میں تبدیل ہو گئی۔ اس مرحلے پر سید حسن نصراللہ نے صرف عسکری مدد ہی فراہم نہیں کی، بلکہ ایک نظریاتی فریم ورک بھی پیش کیا، جس نے مسلح مزاحمت کو قابضین کے خلاف ایک جائز اور ناگزیر راستہ قرار دیا۔ ان کا پیش کردہ مزاحمتی نظریہ، عوامی مزاحمتی حکمت عملیوں اور ان کی تبدیلیوں کی گہری سمجھ کا مظہر تھا۔
یہ نظریہ “طوفان الاقصیٰ” آپریشن میں مکمل طور پر ظاہر ہوا، جو مزاحمتی گروہوں کے درمیان بے مثال ہم آہنگی کا نتیجہ تھا۔ اس آپریشن نے صہیونی منصوبہ بندی کو تہس نہس کر دیا اور اسرائیل کے سیکیورٹی سسٹم کی ناپائیداری کو بے نقاب کر دیا۔
یہ کارروائی محض ایک عسکری مہم نہیں تھی، بلکہ اس نے قابض اسرائیلی حکومت کو ایک نیا جنگی اصول مسلط کرنے کی مزاحمتی صلاحیت کا عملی مظاہرہ کرایا۔ یہاں سید حسن نصراللہ کے “دشمن کے جلال کو توڑنے” کے فلسفے کی اثر پذیری نمایاں ہوتی ہے، جو انہوں نے 33 روزہ جنگ کے دوران پیش کیا تھا۔ یہ فلسفہ دشمن کے حوصلے کو کمزور کرنے اور اس کے اعتماد میں دراڑیں ڈالنے کی حکمت عملی پر مبنی تھا۔
جنگ کو عسکری محاذ سے نفسیاتی محاذ پر منتقل کرنا جنگوں میں ایک انتہائی اہم عنصر ہے، اور یہی وہ چیز تھی جس میں سید حسن نصراللہ نے غیر روایتی حکمت عملیوں، جیسے کہ نفسیاتی اور میڈیا جنگ، کے ذریعے غیر معمولی مہارت حاصل کی۔
ان حربوں نے مزاحمت کو یہ موقع دیا کہ وہ جنگ کی ابتکارِ عمل اپنے ہاتھ میں لے، اپنی حکمت عملی دشمن پر مسلط کرے اور اسرائیل کو غیر روایتی دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کرے۔
بحرانوں کا انتظام اور اتحادوں کی تشکیل: علاقائی و بین الاقوامی توازن
علاقائی طاقت کے توازن کی سمجھ
سید حسن نصراللہ کی اسٹریٹجک قیادت کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک، پیچیدہ اور سخت بحرانوں کا انتظام کرنے اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر اتحاد قائم کرنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت تھی، وہ بھی بغیر اپنے نظریاتی اصولوں سے پیچھے ہٹے۔
انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ علاقائی اتحاد صرف نظریے کی بنیاد پر نہیں بنتے، بلکہ طاقت کے متحرک توازن اور مشترکہ مفادات کی گہری تفہیم کے متقاضی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک پیچیدہ اتحاد تشکیل دیا، جس میں ایک طرف ایران (شیعہ) اور شام (علوی) شامل تھے، اور دوسری طرف زیادہ تر سنی، مگر اسلامی مزاحمتی گروہ جیسے کہ فلسطینی مزاحمت کے دھڑے موجود تھے۔
یہ اتحاد محض عسکری نوعیت کا نہیں تھا، بلکہ ایک اسٹریٹجک اتحاد تھا، جو ایک مشترکہ ہدف پر استوار تھا: خطے میں صہیونی-امریکی تسلط کا مقابلہ۔
مختلف محاذوں کے درمیان ہم آہنگی: دفاع سے حملے تک
“طوفان الاقصیٰ” آپریشن میں سید حسن نصراللہ کی گہری اسٹریٹجک بصیرت نمایاں ہوئی۔ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی گروہوں اور لبنان میں حزب اللہ کے محاذ کے درمیان بے مثال ہم آہنگی قائم کی۔
یہ محض ایک عسکری کارروائی نہیں تھی، بلکہ مزاحمت کے ایک نئے مرحلے کا آغاز تھا، جس کی سب سے اہم خصوصیت مختلف محاذوں کے درمیان ہم آہنگی اور قابض اسرائیل پر نئے جنگی اصول مسلط کرنے کی صلاحیت تھی۔
یہ آپریشن اس بات کا ثبوت تھا کہ مزاحمت صرف اسرائیلی جارحیت کا ردعمل نہیں، بلکہ اب اتنی طاقت حاصل کر چکی ہے کہ دفاعی پوزیشن سے حملے کی حکمت عملی اختیار کر سکے اور دشمن پر نئی مزاحمتی مساوات مسلط کر سکے۔
یہ اسٹریٹجک تبدیلی سید حسن نصراللہ کے “دشمن کے جلال کو توڑنے” کے نظریے کی عکاسی کرتی ہے، جسے انہوں نے 33 روزہ جنگ میں عملی جامہ پہنایا تھا۔ فلسطینی مزاحمت نے اس جنگ کے دوران حزب اللہ کے تجربے اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا، خاص طور پر طویل المدتی جنگ کی قیادت، دشمن کو نفسیاتی و اقتصادی طور پر فرسودہ کرنے کی مہارت، اور معرکہ آرائی میں مسلسل مزاحمت کی قوت حاصل کی۔
یہ حکمت عملی مزاحمت کو مزید مضبوط بنانے، جنگ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے، دفاع سے حملے میں تبدیل ہونے، اور اسرائیل کو غیر روایتی دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کرنے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئی۔
اجتماعی نفسیات اور نفسیاتی جنگ: الفاظ کا جادو
کاریزما اور عوامی اعتماد کا قیام
سید حسن نصراللہ نے ایک منفرد کاریزما پیدا کی تھی، جس کی بدولت ان کی تقریریں غیر معمولی واقعات میں تبدیل ہو جاتی تھیں، جنہیں عرب و اسلامی دنیا کے لاکھوں افراد، حتیٰ کہ خود اسرائیلی معاشرے کے لوگ بھی شدت سے سنتے تھے۔
انہوں نے اپنی اس کاریزما کی بنیاد چند اہم اصولوں پر رکھی: سچائی، شفافیت، وقت کی نزاکت کو سمجھنا، درست وقت پر خطاب کرنا، اور عام فہم اور اثر انگیز زبان استعمال کرنا۔
ان کی سب سے نمایاں حکمت عملی مصدقہ اور مستند معلومات کی فراہمی تھی، چاہے وہ اطلاعات حزب اللہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں یا ان کے حامیوں کو ناپسند کیوں نہ آئیں۔
اس کے علاوہ، سید حسن نصراللہ اپنے خطابات میں بیانیہ مضبوط بنانے کے لیے تاریخی کہانیوں، مثالوں، اور دیگر افراد کے موقف کا حوالہ دیتے، جس سے ان کا موقف زیادہ مؤثر اور قابلِ فہم بن جاتا۔
یہ حکمت عملی ان کے الفاظ کو نہ صرف عوام کے لیے قابلِ فہم بناتی، بلکہ لوگوں کے جذبات کو بھی ان کے ساتھ جوڑتی، جس کے نتیجے میں انہیں بے مثال عوامی حمایت حاصل ہوئی۔
نفسیاتی تسلط کا انہدام: “مکڑی کے جالے” کی مثال
جب سید حسن نصراللہ نے سنہ 2000 میں جنوبی لبنان کی آزادی کے بعد اپنا مشہور جملہ “اسرائیل مکڑی کے گھر سے بھی زیادہ کمزور ہے” کہا، تو یہ محض ایک عام جملہ یا وقتی تقریر نہیں تھی، بلکہ ایک سوچی سمجھی نفسیاتی حکمت عملی کا حصہ تھی، جس کا مقصد اسرائیل کے روحانی اور نفسیاتی تسلط کو منہدم کرنا تھا۔
اسرائیل ہمیشہ اپنے دشمنوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے اور کسی بھی مزاحمتی سوچ کو دبانے کے لیے “مکمل برتری کی افسانوی حیثیت” پر انحصار کرتا رہا، جسے اس کے ماہرینِ نفسیات اور تجزیہ نگاروں نے فروغ دیا تھا۔
سید حسن نصراللہ نے سمجھ لیا تھا کہ اسرائیل کی برتری فوجی طاقت سے زیادہ نفسیاتی دباؤ پر مبنی ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسرائیل کے استقامت اور پائیداری کی صلاحیت کو سوالیہ نشان بنانے پر توجہ مرکوز کی، تاکہ اس کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے افسانے کو توڑ سکیں۔
یہی تصور 33 روزہ جنگ کے دوران عملی شکل اختیار کر گیا، جب لبنانی مزاحمت نے ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک اسرائیل کے خلاف کامیاب دفاع کیا۔ نصراللہ کے بھرپور اعتماد اور حوصلے سے بھرپور خطابات، جن میں اسرائیل کے اندر تک کیے گئے دقیق حملوں کی تفصیلات دی جاتیں، اسرائیلی معاشرے کی نفسیاتی حالت اور اس کے رہنماؤں کی منصوبہ بندی کو درہم برہم کر دیتے۔
یہ جملہ “اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے” اسرائیلی معاشرے میں شک اور عدم اعتماد کا بیج بونے کے مترادف تھا، جس نے عوام اور قیادت کے درمیان اعتماد کی دیوار کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ ایک قسم کی نفسیاتی جنگ “نفسیاتی تسلط کے انہدام” کے اصول پر مبنی تھی، جس کے بارے میں بہت سے ماہرینِ جنگ کا کہنا ہے کہ یہ دشمن کی برتری کے زعم کو ختم کرنے، اجتماعی شعور میں تبدیلی لانے، اور اس کے جنگی فیصلوں پر اثرانداز ہونے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
میڈیا کا اثر و نفوذ اور اطلاعاتی تسلط کا انہدام
میڈیا کو حکمتِ عملی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا
سید حسن نصراللہ نے بہت جلد یہ ادراک کر لیا تھا کہ میڈیا محض معلومات اور خبروں کی ترسیل کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک حکمتِ عملی کا ہتھیار ہے، جس کے ذریعے نہ صرف عوامی شعور بدلا جا سکتا ہے بلکہ مزاحمت کی روحانی طاقت کو بھی تقویت دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے میڈیا کو انتہائی ہوشیاری اور مہارت سے استعمال کرتے ہوئے مغرب اور اسرائیل کے اطلاعاتی تسلط کو چیلنج کیا اور ان کی جنگی بیانیہ سازی کو مشکوک بنایا۔
سید حسن نصراللہ نے دوہری میڈیا حکمتِ عملی اختیار کی:
مزاحمتی عوام کے لیے بیانیہ: جس کا مقصد حوصلہ بلند کرنا، اعتماد کو مضبوط کرنا اور فتح کا یقین پیدا کرنا تھا۔
دشمن کے لیے بیانیہ: جس کا ہدف اسرائیلی معاشرے کی نفسیاتی کمزوری کو بڑھانا، ان کے رہنماؤں پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنا اور اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں پر شک و شبہات پیدا کرنا تھا۔
یہ حکمت عملی محض ایک تشہیری حربہ نہیں تھی، بلکہ اس کا بنیادی مقصد اسرائیلی عوام کے اپنے رہنماؤں پر اعتماد کو ختم کرنا اور مزاحمت کی معلوماتی برتری کو اجاگر کرنا تھا، جو اسرائیل کے حساس مقامات تک رسائی حاصل کر سکتی تھی۔
صہیونی بیانیے کا انہدام: ظالم کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کا خاتمہ
سید حسن نصراللہ نے مغربی میڈیا کے “ادراک کی منصوبہ بندی” اور “رضامندی کے پیدا کرنے” جیسے نظریات کو بخوبی سمجھا اور اپنی تقریروں میں ان پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے مغرب کے دوہرے معیارات کو بے نقاب کیا، جو ہمیشہ اسرائیل کو مظلوم بنا کر پیش کرتے تھے اور فلسطینیوں اور لبنانیوں پر کیے گئے مظالم کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے تھے۔
انہوں نے اس بیانیے کو پلٹ دیا اور اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ اصل مظلوم فلسطینی عوام ہیں، جو اسرائیلی جارحیت اور قبض نمے کا شکار ہیں۔
ان کے اس مؤثر میڈیا بیانیے نے اسرائیل کی ظالم کو مظلوم بنانے کی پالیسی کو بری طرح متاثر کیا اور دنیا کے سامنے اسرائیلی جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا۔
یہ بیانیے میں تبدیلی نے مزاحمت کو دوبارہ بین الاقوامی ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے کے قابل بنایا اور جنگ کو ظلم اور آزادی کے درمیان ایک معرکہ کے طور پر ازسرِنو متعارف کرایا، نہ کہ مذاہب یا قومیتوں کے درمیان۔
مستقبل اور چیلنجز: نصر اللہ کی میراث اور ان کے نظریات کی حرکت:
سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد، فلسطینی مزاحمت اور حزب اللہ کو ان کے نظریات کے تحفظ اور مزاحمتی قیادت کے تسلسل کے لیے بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ سید حسن نصر اللہ نے ایک اسٹریٹجک سوچ اور جدید حکمت عملیوں کا ورثہ چھوڑا، لیکن وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ حقیقی قیادت کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ ایک فکری اور تنظیمی نظام کی تعمیر میں مضمر ہوتی ہے تاکہ ان کی شہادت کے بعد بھی مزاحمت کا سفر جاری رہ سکے۔
رہنمائی کے اس گہرے ادراک نے انہیں ان تاریخی رہنماؤں سے متاثر کیا، جنہوں نے اپنی تحریکوں کو محض فرد واحد کی کرشماتی قیادت کے بجائے ایک مضبوط نظریاتی بنیادوں پر قائم تنظیمی آزادی کی تحریکوں میں تبدیل کیا۔ انہوں نے ایسے لچکدار تنظیمی ڈھانچے تشکیل دیے جو خطے اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی شہادت کے بعد بھی مزاحمت کا تسلسل برقرار رہے۔
البتہ اس میراث کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سب سے اہم علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیاں ہیں، خاص طور پر عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا، جس کا مقصد مزاحمت کو تنہا کرنا اور مزاحمتی محور کو کمزور کرنا ہے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ اس مرحلے پر مکمل ہوشیاری کے ساتھ ان چیلنجز کا سامنا کیا جائے اور مزاحمت کو درپیش رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں